نوشاد بچائیے یا گھوڑی رکھ لیں

Excavation Work

Excavation Work

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
مظفر آباد کے دور دراز کے محمد نوشاد کو ١٩٧٧ میں موقع ملا وہ سعودی عرب چلا گیا۔بڑے ہڈ پیر کا جوان تھا مزدوری پر جت گیا آگے بڑھنے کی خواہش تھی تھوڑا اسکول بھی گیا تھا اس نے وہاں کھدائی کرنے والی مشین کا کام سیکھ لیا۔نوشاد ایک غریب گھرانے کا فرد تھا ڈھیروں پیسے کمانے لگا اس کی والدہ گھر کی سربراہ تھی والد بیچارہ نام کا اور کام کا بھی شریف تھا چھوٹے چھوٹے بہن بھائیوں کا ایک بڑا کنبہ تھا۔ماں نے نوشاد کی کمائی اللوں تللوں میں اڑانی شروع کر دی۔ادھر مہینہ گزرتا شفیق نوٹوں سے انہیں مالا مال کر دیتا۔پیچھے گائوں میں رونقیں بڑھ گئیں ان کے گھر میں مہمانوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔کوئی ادھار لینے والا کوئی ویسے ہی کھانے پینے کا طالب غرض اس کے گھر میں چہل پہل ہو گئی۔نوشاد نے پیسے بیجنے میں کوئی کمی نہ رکھی۔وقت بڑی تیزی سے گزرنے لگا۔وہاں کے سخت موسمی حالات اور بے تحاشہ خوراک نے نوشاد کو موٹا کر دیا اسے پتہ نہیں چلتا تھا کہ کب کھانا ختم کرنا ہے۔

چوڑے سینے والا نوشاد کمائی بھی خوب کر رہا تھا وہ ایک عربی کی مشین چلاتا تھا جدہ شہر میں اس نے بڑے کام کئے سعودیہ ٹرمینل سے باہر نکلیں تو کھجوروں کے درخت اسی کے ہاتھ کے لگے ہوئے ہیں۔نوشاد نے بے تحاشہ محنت کر کے گھر کے حالات بدل دیے۔اس کے والدین نے بھیجی ہوئی رقم کو فضول کاموں میں صرف کر دیا اگر کوئی کپڑا بیچنے والا آیا تو اس سے وہ گٹھڑی بھی خرید لی جس گٹھڑی میں باندھ کر کپڑا لایا تھا۔داندوں کے سینگ ملانے شروع کر دیے۔سعودی عرب میں کفیلوں کا بڑا زور ہے کفیل در اصل ایک زمینی خدا کا نام ہے جو مکفول کی قسمت کا فیصلہ کرتا ہے۔عرب معاشرے میں غلام کا تصور بدل کے کفیل اور مکفول کا ہو گیا ہے۔

نئے نئے قوانین نے سعودی عرب جیسے ملک کا تصور ایک غلط معاشرے کا جو بنایا ہے اس میں کفیل کا بڑا ہاتھ ہے۔نوشاد کو بھی اب نئے کفیل کی ضرورت پڑی اس نے بے تحاشہ ریال دے کر نیا کفیل چنا جو اس کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا بہانے بہانے سے کفیل نے اینٹھنا شروع کر دیا گویا اس نے دو گھر چلانے شروع کر دیے۔دوسری جانب اب اس کی صحت خراب رہنے لگی ایک شام اسے سینے میں شدید درد ہوا اس کا گھر سائیکل چوک کے پاس تھا دوست اسے عرفان ہسپتال لے گئے ان دنوں انشورنس کارڈ وغیرہ نہیں تھے ڈاکٹروں نے اسے چیک کرنے کے بعد جو علاج تجویز کیا اس کے پاس وہ رقم نہ تھی ہر مہینے کھیسہ خالی کرنے کے بعد وہ گھر لوٹا کرتا تھاوہ کیسے علاج کروا سکتا تھا دوست احباب نے دوائی دارو تو لے کر دے دی مگر آپریشن نہ کروا سکے۔

Pakistan

Pakistan

اب وہ زیادہ سخت کام نہیں کر سکتا تھا اس نے سوچا پاکستان جا کر علاج کرواتا ہوں نوشاد پاکستان آ گیا پہاڑی علاقے کی اترائی چڑھائی اس کے لئے مشکل تھی اس نے اپنے لئے ایک گھوڑی خرید لی۔ڈاکٹروں کے مہنگے علاج کی بجائے اسے پیروں فقیروں کے دم درود کی طرف موڑ دیا گیا۔دن بدن لاغر اور بے مار نوشاد اب گھر والوں کے لئے کے لئے ایک دکھ تھا وہ جوان بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر رونے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے یہاں کونسا علاج سستا تھابھائی جو عیاشیوں میں پلا تھا اس نے محنت مزدوری شروع کی لیکن کہاں ریال اور کہاں روپے۔نوشاد دن بدن کمزور ہوتا گیا اور ایک شام سونے کے لئے گیا تو صبح بستر پر مردہ پایا گیا۔محنت پیار اور محبت کا مردہ وجد گھر والوں کے لئے قیامت سے کم نہ تھا گائوں کی آنکھ کا تارا ٹوٹ گیا۔نوشاد مر گیا ماں باپ تنگی اور مفلسی میں چلے گئے اولاد رل گئی۔

میں اس کہانی کو یہیں چھوڑ دینا چاہتا تھا لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم معاشرے کے اس بڑے المیئے کا تجزیہ کئے بغیر آگے نکل جائیں۔مدت ہوئی نوشاد کو مرے ہوئے۔لیکن کیا وہ مرنا بند ہو گیا ہے اب بھی بے شمار نوشاد مشقت کی چکی میں پس رہے ہیں آزاد ویزے کے چکر میں کفیلوں کا پیٹ بھرنے والے سعودی عرب میں عذاب ویزے کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ میں پاکستانیوں سے درخواست کروں گا کہ اگر کوئی مناسب جاب نہیں ہے گھر واپس آ جائو ورنہ یہاں آ کر گھوڑی خریدنی پڑے گی۔یہاں نوشاد کے والدین بہن بھائی اپنے ہاتھوں سے نوشادوں کو مار رہے ہیں۔کیا ہم نے بچت نام کی چیز بھی کی ہے۔کتنے لوگ ہیں جو سخت محنت کی کمائی کو بچا کے رکھ رہے ہیں؟ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جب ہم خرید وفروخت کے لئے نکلتے ہیں تو کتنی غیر ضروری چیزیں ٹرالی میں ڈال لیتے ہیں۔دنیا کے سب سے امیر آدمی بھی بغیر سوچے سمجھے چیزیں نہیں خریدتے گھر سے لسٹ بنا کر جاتے ہیں اور وہی چیزیں لاتے ہیں جو ان کی ضرورت ہے۔

نوشاد کے والدین گرچہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ایسے والدین باز آ جائیں۔اللہ کرے سب نوشاد صحت و سلامتی کی زندگی گزاریں لیکن میں پاکستانیوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں سعودی عرب تنزلی کی جانب جا رہا ہے بیس لاکھ پاکستانی جو پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں ان کے پائوں کے نیچے سے زمین کھینچی جا رہی ہے۔یہ بیرون ملک مقیم لوگ پاکستان میں پلاٹوں جائدادوں میں سرمایہ کاری کرتے تھے۔پاکستان ابھر رہا تھا دبئی ڈوب رہا تھا لیکن ہمارے اسحق ڈار نے جو پالیسیاں اپنائی ہوئی ہیں وہ پاکستان کے لئے نہیں دبئی کے لئے ہیں ہندوستانی سرمایہ کاروں برطانوی انویسٹرز کے بعد پاکستانی سرمایہ وہاں منتقل ہو رہا ہے۔یقین کیجئے یہ ایک سازش کے تحت پراپرٹی کے کام کو ٹھپ کرنے کے لئے نئے اقدامات ہوئے ہیں۔نوشاد اگر سمجھ دار بھی ہوں تو اب پاکستان میں ان کے لئے اس شعبے میں کوئی چانس نہیں ہے۔چلیں یہ تو حکومتی کار گزاریاں ہیں کیا ہم نوشاد بچا سکتے ہیں اگر جواب ہاں میں ہے تو سنبھل جائیے۔ورنہ گھوڑی لے کر رکھ لیں۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری