ہسپتالوں میں مریضوں کی شکایات دور کرنے کا نسخہ

Shahbaz Sharif

Shahbaz Sharif

تحریر : محمد صدیق پرہار
کڈنی سینٹر ملتان کے دورہ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ تمام ہسپتالوں کی انتظامیہ جان لے کہ میں ان کا نہیں غریبوں کا نمائندہ ہوں۔ حکومت کی طرف سے فنڈز میں کمی نہ ہونے کے باوجودمریضوں کو مفت ادویات نہ دینا برداشت نہیں کروں گا۔

شہباز شریف نے کہا کہ عوامی شکایات ناقابل برداشت ہیں ۔دوائیاں سو فیصد مفت ملنی چاہییں۔وزیراعلیٰ شہبازشریف کاکہناتھا کہ ہسپتالوںمیں مریضوں کوسہولیات کی فراہمی مقدم ہے۔اربوں روپے کی لاگت سے جدید ترین ہسپتال بنانے کایہ مقصدنہیں غریب مریضوںکواپنی جیب سے ادویات خریدنی پڑیں۔ان کاکہناتھا کہ کڈنی سنٹرکی عمارت کے تعمیری نقائص دورکرنے کامارچ میںکہاتھا۔مگراس پرعملدرآمدنہیں ہوا۔جس پرایس ڈی اوبلڈنگ، اکسین اورڈائریکٹرپلاننگ کومعطل کردیا ہے۔ قبل ازیں وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے مریضوں کی عیادت اوران سے ادویات اورعلاج معالجہ بارے دریافت کیابعض مریضوںکی جانب سے ادویات نہ ملنے شکایت پروزیراعلیٰ نے ہسپتال انتظامیہ کی سرزنش کی اوران کودوائی کے پیسے واپس کرنے کے احکامات جاری کیے۔جبکہ قطاروںمیں کھڑے ہوئے مریضوںکانوٹس لیتے ہوئے انہیںمزیدسہولیات فراہم کرنے کاکہا۔شہبازشریف نے ہسپتال کادورہ بھی کیا، سیلن زدہ دیواریں دیکھیں۔واش رومزکی ٹوٹنیوںمیں پانی نہ آنے پرمتعلقہ عملہ کومعطل کردیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف عوام کوبنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے ہروقت کوشاں رہتے ہیں۔ہسپتالوں، ان میںسہولیات اورادویات بارے وہ پہلے بھی متحرک ہیں۔جعلی ادویات کے خاتمے کے لیے ان کاعزم بھی سب کے سامنے ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف پنجاب کے کسی بھی ہسپتال کادورہ کرلیں اس کی صورت حال کڈنی سنٹرملتان سے ملتی جلتی ہوئی ہی ملے گی۔بہت کم ہسپتال ہی ایسے ملیں گے جہاںمریضوںکوتمام سہولیات فراہم کی جارہی ہوں گی۔پچھلے چارسال کے اخبارات اٹھاکردیکھ لیں ،ان اخباروں میں ہسپتالوںکی طرف سے زائدالمیعادادویات ضائع کرنے کی ہی خبریں جمع کرلیں توہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ہسپتالوںمیں زائدالمیعادادویات ضائع کرنے سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ حکومت کی طرف سے مریضوں کوسہولیات کی فراہمی کے لیے فنڈز اور ادویات دی جاتی ہیں وہ مریضوں کونہیںملتیں۔ہسپتالوںمیں زائدالمیعادادویات ضائع کرنے سے یہ بات بھی ثابت ہوجاتی ہے کہ ہسپتالوں میں ادویات تو موجودہوتی ہیں لیکن وہ پڑی پڑی ایکسپائرہوجاتی ہیں مریضوں کونہیں دی جاتی ہیں۔ہم تمام مشکلات اورمسائل کاذمہ دارحکومت یاوزیراعلیٰ کوسمجھتے ہیں۔

حکومت نے فنڈزبھی فراہم کردیے ہوں ،ادویات بھی فراہم کردی ہوں اوروہ مریضوںکونہ ملیں توکیااس میں شہبازشریف کاقصورہے۔کیایہ بھی وزیراعلیٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبہ کے تمام سرکاری ہسپتالوںمیں مریضوں خودجاکرادویات فراہم کریں۔ہسپتالوںکی انتظامیہ اورڈاکٹرزکس لیے ہیں۔کیامحکمہ صحت کے مقامی ذمہ داروںکے علم میں یہ بات نہیںہوتی کہ ان کے زیرانتظام ہسپتالوںمیں مریضوںکوکس طرح کی سہولیات دی جارہی ہیں۔مریضوں کوادویات ہسپتال سے مل رہی ہیں یاوہ میڈیکل سٹوروں سے خریدرہے ہیں۔حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فنڈزاورادویات کے مطابق مریضوںکوسہولیات اورادویات نہ ملنے کامقامی افسران کیوںنوٹس نہیں لیتے۔محکمہ صحت کے مقامی افسران اپنی ذمہ داریاں اداکررہے ہوتے توکڈنی سنٹرملتان میں شہبازشریف کویہ شکایت سننے کونہ ملتی کہ ادویات نہیںمل رہی ہیں۔ایک طرف ہسپتالوں میں سہولیات کی یہ صورت حال ہے کہ مریضوں ادویات بھی میڈیکل سٹوروں سے خریدناپڑتی ہیں تودوسری طرف ڈاکٹرزکوئی نہ کوئی جوازبناکرآئے روزہڑتال کردیتے ہیں۔کئی روزجاری رہنے والی ڈاکٹروںکی تازہ ترین ہڑتال بھی چندروزپہلے ختم ہوئی ہے۔ایک طرف حکومت کی طرف سے فراہم کردہ فنڈزکے مطابق مریضوںکوسہولیات اورادویات نہیں دی جاتیں تودوسری طرف ڈاکٹرزآئے روزہڑتالیںکرکے مریضوںکوبے یارومددگارچھوڑدیتے ہیں۔مریض چاہے جس حال میں رہیں ڈاکٹروںکواس سے کوئی غرض نہیں ہوتی انہیں توہڑتالیں کرنے اوراپنے مطالبات منوانے سے ہی غرض ہوتی ہے۔

ہسپتالوں میں موجودمریضوں سے انہیں کوئی سروکارنہیں ہوتا۔حکومت فنڈزاورادویات بھی فراہم کرے اورمریض سہولیات اورادویات نہ ملیں تویہ کس کی ذمہ داری ہے۔کیااس کایہی علاج ہے کہ شہبازشریف اپنی دیگرتمام مصروفیات چوڑ کرہسپتالوں میں چھاپے مارتے رہیں، وہاںمریضوں سے ادویات اوردیگرسہولیات بارے دریافت کرتے رہیں، ہسپتالوں کے عملے کومعطل اورادویات کے پیسے واپس کرنے کے احکامات جاری کرتے رہیں۔کیایہ ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ صوبہ کے تمام ہسپتالوں میں ایک ہی دن چھاپے ماریں۔وہ زیادہ سے زیادہ ایک دن میں کتنے ہسپتالوںکوچیک کرلیں گے ،دویاچارزیادہ سے زیادہ پانچ ہسپتال۔فرض کریں شہبازشریف اپنی دیگرتمام مصروفیات چھوڑ کرہسپتالوںمیں ہی چھاپے مارنے شروع کردیتے ہیں توکیاہسپتالوںمیں مریضوں ادویات اوردیگرسہولیات ملناشروع ہوجائیں گی۔سب سے اہم بات یہ کہ اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ وزیراعلیٰ جس ہسپتال میں چھاپہ ماریں ،وہاںمریضوں ادویات اوردیگرسہولیات کی فراہمی چیک کریں، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کریں ،شہبازشریف کے جانے کے بعداس ہسپتال کے مریضوں کوادویات اوردیگرسہولیات ملناشروع ہوجائیں گی۔ہسپتالوں میںمریضوں کوبیڈ نہ ملنے اورمریضوں سے پیسے لے کردل کے اسٹنٹ نہ ڈالنے کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔یہ وہ تمام شکایات ہیں جومحکمہ صحت کے مقامی افسران اورہسپتالوںکے ایم ایس دورکرسکتے ہیں۔لازمی سروس ایکٹ نافذ کرکے ڈاکٹروںکی آئے روزکی ہڑتالوںکوتوروکاجاسکتا ہے۔ہسپتالوںمیںمریضوں کوادویات اوردیگرسہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پہلے ہی شہبازشریف مسلسل کام کررہے ہیں۔

وہ نہ توروزانہ ہرہسپتال میں چھاپہ مارسکتے ہیں اورنہ ہی وہ اپنی دیگرمصروفیات چھوڑکرصرف ہسپتالوںکوفوکس کرسکتے ہیںوزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف آج سے یہ اعلان کردیں کہ حکومت پنجاب کی طرف سے مطلوبہ فنڈزاورادویات کی فراہمی کے بعدبھی جس ہسپتال سے کوئی شکایت ملی تومقامی افسران کونہ صرف ملازمت سے برخواست کردیاجائے گا بلکہ انہیںدیگراداروںمیں ملازمت کے لیے بھی نااہل کردیاجائے گا۔اس سلسلہ میںکوئی عذربھی قبول نہیں کیا جائے گا۔اگرایسامسئلہ درپیش آجاتاہے جس کوحل کرنامقامی ذمہ داروں کے اختیارمیںنہ ہوتووہ سیکرٹری صحت اورحکومت پنجاب کوبروقت آگاہ کریں۔یہ تمام انتظامات واحکامات جاری کرنے کے بعد وزیراعلیٰ شہبازشریف ہسپتالوں کوآن لائن سسٹم سے منسلک کریں۔مریض کے پرچی بنوانے سے لے کرہسپتال سے واپس جانے تک تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ اورآن لائن ہوناچاہیے۔مریض چاہے آئوٹ ڈورکاہویاان ڈورکا سب مریضوںکاریکارڈ کمپیوٹرائزڈبھی ہوناچاہیے اور آن لائن بھی۔صوبہ کے تمام سرکاری ہسپتال انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہوں۔جب مریض ہسپتال کے استقبالیہ پرپرچی بنوانے آئے تووہاں کمپیوٹرکے ساتھ کیمرہ بھی منسلک ہوناچاہیے جوںہی مریض ہسپتال کے استقبالیہ سے پرچی بنوانے آئے تواس کی تصویرخودبخودکمپیوٹرکے ذریعے آن لائن ہو جائے ۔مریض کوپرچی بھی کمپیوٹرائزڈ دی جائے جس میں اس کانام ولدیت ،ایڈریس ،موبائل نمبراوردیگرضروری معلومات درج کی جائیں۔یہ کمپیوٹرہسپتالوں کے تمام ڈاکٹروں، ڈسپنسریوں اوردیگرشعبہ جات میں بھی موجودہوں۔تمام ڈاکٹروں اورڈسپنسریوںکے کمپیوٹرزکے ساتھ بھی کیمرے منسلک کیے جائیں۔

ڈاکٹروں ،ڈسپنسریوں کے کمپیوٹرزبھی آن لائن ہوں۔ مریض جوں ہی استقبالیہ سیب پرچی بنواکرنکلے تواس کاریکارڈ تمام ڈاکٹروں ،ضلعی، ڈویژنل اورصوبائی سطح پربنائے گئے کنڑول رومزتک بھی بذریعہ انٹرنیٹ پہنچ جائے۔تاکہ ضلع سے صوبہ تک کنٹرول رومزمیں یہ ریکارڈ آن لائن ہوجائے کہ کس ہسپتال میں کون سامریض آیا ہے اورکس ڈاکٹرکے پاس آیا ہے۔ڈاکٹراس مریض کے مرض کی تشخیص کے بعد جودوائی تجویزکرے تومریض کواس کی پرچی کمپیوٹرائزڈ دے ،اس ڈاکٹرکے پاس مریض کی تصویراورتجویزکردہ ادویات کاریکارڈ بھی آن لائن ہوجائے۔پھریہ مریض جب ڈسپنسری سے ادویات لینے جائے تووہاں بھی کمپیوٹرزکے ساتھ کیمرے نصب ہوں مریض کی تصویراوراس کوفراہم کی گئی ادویات کاریکارڈ براہ راست آن لائن ہوتارہے۔ہسپتالوںکایہ آن لائن سسٹم یہ بھی بتائے کہ کسی بھی مریض کوڈاکٹرنے جوادویات تجویزکی تھیں کیاوہ ہسپتال کی ڈسپنسری میںموجودہیں ، اوریہ سسٹم اس بات کی نشاندہی بھی کرے کہ مریض کوڈاکٹرنے جو ادویات تجویزکی تھیں کیااسے فراہم کردی گئی ہیں۔تمام ہسپتالوں کی ڈسپنسریوں کوجوادویات فراہم کی جائیں اس کاریکارڈ بھی آن لائن کیاجائے۔ہسپتالوں کے وارڈزکاریکارڈبھی آن لائن کیاجائے، وہاں مریضوں کودی جانے والی ادویات اوردیگرسہولیات کاریکارڈبھی آن لائن کیاجائے۔جس مریض کوبھی ادویات دی جائیںیااس کی جوبھی دیکھ بھال کی جائے تواس کاریکارڈ بھی آن لائن ہو۔ہرہسپتال کے باہردوکیمرے شکایات کے لیے بھی لگائے جائیں وہ کیمرے بھی انٹرنیٹ سے منسلک کیے جائیں ان کیمروںکے سامنے کھڑے ہوکرمریض شکایات سناسکیں کہ انہیں کس ہسپتال میں کیاشکایت ہے۔

مریض جوں ہی ہسپتال کی ڈسپنسری سے ادویات لے کرجائے تواس کے موبائل نمبرپرایس ایم ایس کیاجائے، جس میںمریض سے پوچھاجائے کہ کیااسے ڈاکٹرزکی تجویزکردہ ادویات مل چکی ہیں ،اس کے علاوہ ہسپتالوںکے وارڈزمین داخل مریضوں کے موبائل نمبرزپربھی روزانہ ایس ایم ایس کرکے ان سے ادویات اوردیگرسہولیات بارے پوچھاجائے ، اس ایس ایم ایس کاجواب دینا فری ہو،مریض کے مو بائل سے بیلنس نہ کاٹ لیاجائے۔شہریوںکوبھی یہ سہولت دی جائے کہ وہ جب چاہیں وہ ویب سائٹ یاایس ایم ایس کے ذریعے معلوم کرسکیں کہ ان کی مطلوبہ دوائی ان کے مطلوبہ ہسپتال میںموجودہے یانہیں۔ہسپتالوںکاسسٹم آن لائن ہونے سے ضلعی ،ڈویژنل اورصوبائی سطح پرسرکاری ہسپتالوںکومانیٹرکیاجاسکے گا، ان ہسپتالوںکوفراہم کیے فنڈز، ادویات اورمریضوں کوفراہم کی گئی ادویات اوردیگرسہولیات کے ریکارڈ کوبھی مانیٹرکیاجاسکے گا۔ہسپتالوں کے آن لائن سسٹم کے ذریعے یہ ریکارڈ بھی ہروقت آن لائن ہوکہ کون سے ہسپتال میں کتنے بیڈزموجودہیں، کتنے بیڈز پر مریض موجودہیں اورکتنے بیڈزخالی ہیں۔اگرمریض زیادہ ہوجائیں تویہ بھی بات بھی سسٹم میں آجائے کہ کون سے ہسپتال میں کتنے بیڈزکی کمی ہے۔ہسپتال کے دیگرمتفرق انتظامات کیسے ہیں۔یہ بات بھی آن لائن سسٹم میںموجودہوکہ کون سے ہسپتال میں کس مرض کے لیے کون ساڈاکٹرتعینات ہے۔یہ بات بھی روزانہ آن لائن کی جائے کہ کس ہسپتال میںکون کون ساڈاکٹرڈیوٹی پرموجودہے اورکون ساڈاکٹرچھٹی پرہے اوراس کی جگہ کون ساڈاکٹرڈیوٹی دے رہاہے۔ اس سسٹم کے ذریعے خودبخودیہ ریکارڈ اپ گریڈ ہوتارہے کہ کس ہسپتال میں اس وقت کتنی ادویات مریضوں کودی جاچکی ہیں اورکتنی ادویات باقی ہیں۔ ہسپتالوںکاسسٹم آن لائن ہونے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتاکہ شکایات کاسوفیصدخاتمہ ہوجائے گا کیونکہ پاکستانی ہرپریشانی کاحل نکال لیتے ہیں۔البتہ یہ ضرورکہاجاسکتاہے کہ اس سسٹم سے ہسپتالوںمیںمریضوں کی تشخیص ، ادویات اوردیگرسہولیات کی فراہمی میں بہتری آجائے گی، مریضوں کوپائی جانے والی شکایات میں نمایاںکمی آجائے گی۔اس سسٹم کی مخالفت بھی ہوسکتی ہے۔وقت اگرچہ کم ہے چونکہ موجودہ اسمبلیوں مدت بہت کم رہ گئی ہے ،وزیراعلیٰ شہبازشریف ہسپتالوںکاسسٹم آن لائن کر دیں تویہ ان کاصوبہ کی عوام پرایک اور احسان ہو گا۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار