ہسپتالوں کی نجکاری ظالمانہ اقدام

Hospitals Privatization

Hospitals Privatization

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
انتہائی قیمتی اور منافع بخش ادارہ ٹیلی فون حکومتی کار پردازوں نے غیر ملکیوںکو بیسیوں گنا کم قیمت پر بیچاخود بھی کروڑوں کمائے ۔پی آئی اے اور سٹیل ملزکی فروختگی کی مفاد پرستوں کی طرف سے مکمل تیاری ہو چکی ہے۔ انتہائی محیر العقول اور ظالمانہ اقدام یہ ہے کہ بڑے ہسپتالوں کو بھی فروخت کرنے کی تیاریاں ہیں عوام پوچھتی ہے کہ کم بختو سب قیمتی ادارے بیچ کھائو گے تو بھارت کی طرف سے پانی روکے جانے کے بعد کیا پاکستان صرف بنجر زمینوں کا نام ہو گا؟غریب عوام اپنوں سے تو موت قبول کر لیتے ہیں مگر غیر ملکی سامراجیوں اور یہود و نصاریٰ اور ہندو بنیوں سے اپنا مرنا ہسپتالوں میں کسی صورت قبول نہ کریں گے اپنا مارے گا بھی تو چھائوں میں اور پھر قبر میں ہی پھینکے گا اور کفار کے مالکان بننے کے بعدوہ کیوں ہمارے قیمتی راہنمائوں کا صحیح علاج کریں گے۔ بالخصوص نشتر کا لج و ہسپتال ملتان تمام عالم کفر کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے کہ یہیں سے 1974میں آئی جے ٹی کی منتخب سٹوڈنٹس یونین نے ناموس رسالت ۖ کے تحفظ کے لیے تاریخی تحریک ختم نبوت چلائی تھی کہ قادیانیوں نے سابق ربوہ اور حال چناب نگر کے اسٹیشن پر سوات کی سیر کو جاتے ہوئے نشتر کالج کے 187طلباء کو معمولی بات پر شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا راقم الحروف کے لکھے ہوئے پمفلٹ “آئینہ مرزائیت”کے مندرجات جو کہ مرزائیوں کی کتب سے ہی منقول تھے۔

قادیانیوں کو پڑھ کر سنائے گئے تو انہوں نے ہنگامہ برپا کردیا اور سوات سے واپسی پر29مئی1974کو پورے پاکستان سے اکٹھے کیے گئے مرزائی مسلح نوجوانوں نے نشتر کی ریلوے بوگی کو گھیر کر سبھی طلباء کو زخمی کرڈالاراقم الحروف اور دیگر منتخب سٹوڈنٹس یونین کے راہنمائوں کی پریس کانفرنس جو کہ اگلے روز پوری دنیا ،عالم اسلام اور پاکستانی میڈیا کی ہیڈ لائن بن گئی تھی سے تحریک ختم نبوت نے جنم لیا جوپورے سو دن بعد7ستمبر1974کو قومی اسمبلی کی مشترکہ قرارداد کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے پر ختم ہوئی تھی یہ ہیں وہ اصل حقائق جن کی بنیاد پر پوری دنیا کے کفار(مرزائی ،یہودی ،سامراجی اور ہندو وغیرہ ) ہر صورت اس ادارہ کو خرید کر اس کی عالمی حیثیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں راقم 70سال سے زائد زندگی کی بہاریں گزار چکا ہے مگر ختم نبوت کے قلعہ نشتر کالج و ہسپتال کو کسی صورت فروخت کرنے کی صورت میں اپنی جان کی بازی لگادینے کو تیار ہے اور اسے ایک اعزاز سمجھتا ہے ہسپتال کے پیرا میڈیکل سٹاف نرسز اور اب تو ڈاکٹرز کی تمام تنظیموں آئی ایم اے،وائی ڈی او اور پی ایم اے نے اس ادارہ کی نجکاری اور اسے کسی کافر کو بیچنے پر سخت احتجاج کا اعلان کردیا ہے یہاں تک کہ درجہ اول سے گریڈ سولہ تک کے ملازمین نے سروں پر کفن باند ھ کر احتجاج کرنے کی کال دی ہے یہ عمل جنوبی پنجاب کے عوام سے دشمنی پر مبنی ہو گااس ادارہ کے لیے ساری زمین لوگوں نے مفت فراہم کی تھی نیز کروڑوں روپے ملتان کے رہائشیوں نے 1952میں جمع کر کے دیے تھے ایسا عمل مخیر افراد کی قربانیوں کو رائیگاں کرنے کے متراد ف ہوگا جسے عوام کسی صورت قبول نہ کریں گے۔

حکمران اپنے کسی بیرون ملکی دوست کو کاغذوں میں خریدار ظاہر کرکے خود ہی اس کے مالک بن بیٹھیں گے جیسا کہ باقی اداروں کی نجکاری میں کر رکھا ہے ایسی غلیظ حرکت جنوبی پنجاب کی عوام کے منہ پر ایک تمانچہ ہوگی نشتر کالج کی دیواروں ہو سٹلوں خوبصورت لانوں اور ہسپتال کے وارڈوں میں جس طرح ختم نبوت زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے تھے اور یہ ادارہ اپنی شاندار اسلامی روایات کا حامل ہونے کے موجب لوگوں کے دلوں کا تارا ہے اس ادارہ کی فروختگی کی اگر حکمرانوں نے غلطی کی تو یہ عمل ان کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے متراد ف ہو گا۔اس ہسپتال و کالج کے ہزاروں ملازمین جن میں سے زیادہ اکثریت پرانے جیالے لیڈروں کی ہی اولاد ہے اپنے بزرگوںکی روایات کو نبھاتے ہوئے خدا کے فضل و کرم سے اس ادارہ کی طرف بڑھنے والے ہر پلید ہاتھ کو توڑ ڈالیں گے اس کی طرف میلی آنکھوں سے دیکھنے والی ہر آنکھ کو بھی پھوڑ دیں گے۔

کوئی بھی احتجاجی تحریک جو اس ادارہ سے جنم لیتی ہے وہ کامیاب ہوتی ہے 1974کی تحریک تحفظ ختم نبوت یہاں سے چلی اور کامیاب ہوئی وگرنہ تو1953میں صرف لاہور شہر میں مرزائیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے نوجوان بزرگوں بچوں عورتوںپر ٹینک چڑھا ڈالے اور دس ہزار کو شہید کر ڈالا گیا تھا اس ادارے یا کسی بھی دوسرے میڈیکل کالج و ہسپتال کی نجکاری مریضوں اور ان کے لواحقین کو زندہ درگور کرنا ہو گا حکمران ایسے عمل سے باز رہیں تو یہ ہی ان کے حق میں بہتر ہے۔نشتر ملتان جنوبی پنجاب کا واحد ہسپتال ہے جس میں ڈاکٹر نرسز اور میڈیکل سٹاف سمیت مریضوں کے علاج معالجے کے لیے ادویات و دیگر سہولیات کی کمی کو پورا کرنے کی بجائے اس کی نجکاری کا فیصلہ انتہائی شرمناک اور افسوس ناک ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے مسائل حل کیے جائیں۔

میڈیکل سٹاف کا ملازمتوں میں بیس فیصد کوٹہ بحال کیا جائے ملازمین سے مختلف ٹیسٹوں پر فیسیں معاف کی جائیں۔ڈیلی ویجزاور کنٹریکٹ ملازمین بشمول سیکورٹی گارڈز کو مستقل کرکے درجہ چہارم کے ملازمین کی ٹیکنیکل و کلیریکل پروموشن کی جائیں انتقامی کاروائیاں بند ہوں راقم وہاں اسٹوڈنٹس ،ملازمین ،نرسز ،پیرا میڈیکل سٹاف کا اعزازی چئیر مین رہاتو ایسا بھائی چاراکسی پاکستانی ادارہ میں نہ دیکھا گیا اس عرصہ دراز میں کسی ملازم کو نکالنا تو درکنار معطل تک نہ کیا گیا اور نہ کوئی مقدمہ تھانہ کچہری تک پہنچاایسا ہر عمل راقم اپنے سینہ پر جھیلتا تھا بھوک ہڑتالوں اور احتجاجوں سے مسلسل طلباء اور ملازمین کے مسائل حل کروائے ملازمین ڈاکٹر ز نرسز اور انتظامیہ میں بھائی چارے کی فضاء اور ماحول پرسکون و باوقار تھا۔

Dr Ihsan Bari

Dr Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری