قیامت کی ہلکی سی جھلک

Earthquake in Pakistan

Earthquake in Pakistan

تحریر : محمد عتیق الرحمن
”جب ہلاڈالی جائے گی زمین اپنی پوری شدت سے۔ (سورہ الزلزلة) اگر یہ کہاجائے کہ قرآن مجید کی اس آیت کی کل اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک ہلکی سی عملی تصویر سے ہم پاکستانیوں کو روشناس کروایا تو غلط نہ ہو گا۔گو یہ سورة مبارکہ قیامت کے ہولناک منظر کوپیش کرتی ہے لیکن 26 اکتوبر کو آنے والے زلزلے نے پاکستانیوں کو قیامت کے ہولناک منظر کی ہلکی سی جھلک لازمی دکھائی ہوگی۔ وہ جو زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتے تھے کل زلزلہ کے وقت بھاگتے ہوئے اللہ کویاد کر رہے تھے اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے ۔بڑی بڑی عمارتیں یوں ہل رہی تھیں جیسے بچے کا جھولاہلتا ہے۔

پاکستانی ابھی تک 2005کے ہولناک زلزلے سے باہر نہیں نکل سکے تھے کہ اللہ نے ایک اور آزمائش میں اپنے بندوں کو ڈال دیا ہے ۔اگر بات کی جائے پاکستان میں زلزلوں کی شدت کی تو 26اکتوبر کا یہ زلزلہ سب سے شدید تھا جس کی شدت محکمہ موسمیات نے ریکٹر سکیل پر 8.1ریکارڈ کی جب کہ امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز کابل سے 265 کلومیٹر دوری پرتھا جب کہ زمین میں اس کی گہرائی 212 کلو میٹر اور ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.5 ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے کے جھٹکے پاکستان، افغانستان اور بھارت میں محسوس کیے گئے۔اس طرح کی قدرتی آفات اللہ کی طرف سے ہوتی ہیں جن سے تحفظ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہی کرسکتی ہے۔

ان کا تدارک یامقابلہ انسان کے بس کی بات ہوتی تو امریکہ جیسے ملک میں کترینا اورریٹا جیسے طوفان نہ آتے اور نہ ہی سینکڑوں انسان اس کی نذر ہوتے۔قدرتی آفات کو ٹالنا نہ کل انسان کے بس کی بات تھی اور نہ آج کے جدید دور میں انسان ٹال سکتاہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے ان آفات کو ٹالنا ہمارے بس میں نہیں لیکن بروقت منصوبہ بندی اور حسن انتظام کی وجہ سے اس کی تباہ کاریوں کو کم کیا جاسکتا ہے ۔حکومتوں اور اداروں سے اسی طرح کے کام کی توقع کی جاتی ہے۔

Natural Disasters

Natural Disasters

قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری ہونے والے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں زلزلے سے ہلاک ہونے والے افراد کی کل تعداد 228 ہوگئی ہے۔سب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخوا متاثر ہوا جہاں 184 ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ ملک بھر میں کل زحمیوں کی تعداد 1620 ہے جن میں سے 1456 کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے۔این ڈی ایم اے کے مطابق کے پی کے سے متصل قبائلی علاقوں میں کل 30 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔گلگت بلتستان میں آٹھ، پنجاب میں پانچ اور آزاد کشمیر میںتین ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ زلزلے کے نتیجے میں سب سے زیادہ مالی وجانی نقصان کے پی کے میں ہوا۔2520 منہدم ہونے والے مکانات میں سے 2102 مکانات اسی صوبے میں موجود تھے۔یاد رہے کہ یہ تعداد ابھی حتمی نہیں کیونکہ ابھی ایسے دوردرازکے دشوارگذار علاقے ہیں جہاں امدادی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں ۔وقت کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں ،زخمیوں اور مالی نقصان کے زیادہ ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔

اگر امدادی کاموں کی بات کی جائے تو میراخیال ہے کہ 2005ء کے زلزلے کی نسبت اس وقت پاکستانی حکومتی ادارے بہتر پوزیشن میں ہیں اور اپنی کارکردگی دکھا بھی رہے ہیں گو یہ کارکردگی نامکمل سی ہے لیکن پہلے سے بہتر ہے ۔پاک فوج اپنی روایات کونبھاتے ہوئے اس آفت میں بھی سب سے پہلے پہنچ کر امدادی کاروائیوں میں مصروف عمل نظر آئی جو کہ اس کی پاکستانیوں سے محبت کو ظاہر کرتی ہے۔پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اپنا دورہ مختصر کرکے پاکستان پہنچ چکے ہیں جہاں وہ بنفس نفیس امدادی کاروائیوں کی مانیٹرنگ کریں گے جبکہ آرمی چیف پہلے ہی سے پشاور میں موجود ہیں ۔جب میں زلزلے کے بعد نیوزچینل دیکھ رہاتھا تو میرے ذہن میں جہاں بے شمار خدشات موجود تھے وہیں ایک جماعت کا نام بار بار ابھر رہاتھا کہ وہ جماعت اس وقت کیا کررہی ہوگی ۔سوال سے تنگ آکر جب میں نے جماعت الدعوہ کے متعلق معلومات لیں تو پتاچلا کہ جماعت کے کارکن اپنا امدادی کام شروع کرچکے ہیں ۔جہاں جہاں بھی کارکن موجود تھے وہیںپر جو بھی انہیں میسر تھا انہوں نے اسی سے کام چلانا شروع کردیا ۔دوسرے علاقوں سے بھی امدادی ٹیمیں اب تک پہنچ چکی ہوں گی جن میں ڈاکٹرز،پیرامیڈیکل سٹاف،امدای کارکن اور امدادی سامان کی مد میں کمبل،خیمے ،ادویات اور خوارک ونقدی وغیرہ شامل ہے۔فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالروئوف بھی پشاور پہنچ چکے ہیں ۔اس جماعت کا تذکرہ اس لئے کیا کہ سیلاب اور تھر میں قحط سالی میں ان کا کام میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکاہوں جبکہ 2005ء کے زلزلے میں ان کے کام کو اقوام متحدہ تک سراہاجاچکاہے ۔ مجھے یقین ہے کہ جماعة الدعوة اپنے کاموں کو اسی طرح سے کرے گی جو اس کا طرہ امتیاز ہے۔

Pakistan Army Relief

Pakistan Army Relief

اس وقت حکومتی اداروں اور پاک فوج کی امدادی ٹیموں سمیت جماعةالدعوة اورالخدمت جیسے رفاہی ادارے میدان خدمت میں موجود ہیں ۔حکومت وقت کو خیال رکھنا چاہیئے کہ امدادی کاموں کی آڑ میں غیرملکی این جی اوز کابازار پھر سے گرم نہ ہوجائے پاکستانی حکومت کوشش کرے کہ زیادہ سے زیادہ ملکی رفاہی اداروں پر انحصار کرے تاکہ ملک دشمن عناصر کوکوئی موقع نہ مل سکے ۔سب سے بہتر چیز جو ابھی تک مجھے نظر آرہی ہے وہ سیاست دانوں کی سیاسی بالغ نظری ہے ۔مسلم لیگ ن کی طرف سے خیبر پختون خوا ہ میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو امداد کی پیش کش اور میاں شہباز شریف کی طرف سے پرویز خٹک کو فون کرکے امداد ی کاروائیوں میں ہرممکن تعاون کی پیش کش یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستانی سیاست دان قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں بالغ ہوچکے ہیں۔

اپنے کالم کا اختتام اس بات سے کرتاہوں کہ اسلام نے دنیاکو یہ حقیقت بھی سمجھائی ہے کہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب یہ دنیا ختم ہوجائے گی اورسب سے بڑے دربار میں، سب کو اپنی زندگی کا حساب وکتاب دینا ہوگا۔یہ زلزلے انسان کواْسی قیامت کی یاد دلاتے ہیں کہ ابھی تو تھوڑی سی زمین ہلائی ہے تو یہ حال ہے، جب قیامت کا زلزلہ آئے گا تو تمھارا کیا حال ہوگا؟ لہٰذا وقت سے پہلے اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اعمال درست کرلو۔چناں چہ بخاری کی روایت میں ہے محمدکریمۖ نے ارشاد فرمایا: قیامت نہیں آئے گی یہاں تک کہ علم اٹھالیا جائے اور زلزلوں کی کثرت ہوجائے۔(بخاری) کیا ایک کامل الایمان شخص اِس سے انکار کرسکتا ہے کہ یہ زلزلے علاماتِ قیامت میں سے نہیں ہیں؟لہذا اِس موقع پر ہمیں وہی کام کرنا چاہیے جو اِس موقع پر اسلام ہم سے چاہتا ہے۔

چناں چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں” جہاں زلزلہ آتا ہے اگر وہاں کے لوگ توبہ کرلیں اور بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لیے ہلاکت ہے”۔(الجواب الکافی لابن القیم)علامہ ابن قیم نے اپنی کتاب میں حضرت عمر بن عبد ا لعزیز کا ایک خط نقل کیا ہے، جو زلزلے کے موقع سے انھوں نے حکومت کے لوگوں کو لکھا تھا کہ اگر زلزلہ پیش آئے تو جان لو یہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طورپر آتے ہیں لہذا تم صدقہ وخیرات کرتے رہا کرو۔ (الجواف الکافی)الغرض زلزلوں کے متعلق اسلام میں مکمل رہنمائی موجود ہے اور مشترکہ طور سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے یہ انسانوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتے ہیں اور یہ زلزلے انھیں بد اعمالیوں سے باز آنے کے لیے الارم اور وارننگ ہیں۔موجودہ سائنس کایہ ماننا اور میڈیا کاچلا چلا کر اْس کے نظریات کی تشہیر کرنا اپنی جگہ لیکن بطور مسلمان ہمیں اپنے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیئے کیونکہ وہی ہماری حفاظت کرنے کے لئے کافی ہے ۔جب وہ ہمارے ساتھ ہے تو دنیاکی کوئی طاقت ہمیں تباہ وبرباد نہیں کرسکتی ۔ اس لئے مصائب، آفات اور زلزلوں کے وقت جہاں ہم اپنی دنیاوی کوتاہیوں کو دیکھتے ہیں وہیں اپنے اعمال کو بھی لازمی دیکھیں اور رجوع اللہ کریں۔

Muhammad Atiq ur Rehman

Muhammad Atiq ur Rehman

تحریر : محمد عتیق الرحمن
03005098643