2 آؤ جھک جائیں پارٹ

Praying for Allah

Praying for Allah

تحریر : محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ

(تخریج آیات واحادیث: ابوعبداللہ آزادؔ)
اگر سورج اپنی مرضی کرتا، جب دل چاہے طلوع ہو جاتا، جب دل چاہے غروب ہو جاتا تو ہمارا کیا حال ہوتا؟ ایک انسان کی بنائی ہوئی بجلی کا کیا حال ہے، عین اس وقت جب ہم کوئی بہت ضروری کام کررہے ہوتے ہیں کہ یکایک بجلی چلی جاتی ہے، اگر سورج بھی ہمارے ساتھ یہی کچھ کرتا تو ہمارا کیا حال ہوتا؟ ہماری فصلیں کیسے پکتیں؟ اور ہم زندگی کے بہت سے کام کس طرح نمٹاتے۔ پھر اسی طرح بادلوں کا برسنا، یہ کس کے حکم کے تابع ہیں؟ آپ دیکھیں کہ ہوائیں اللہ تعالیٰ کی تابعداری نہ کرتیں، سمندر اللہ تعالیٰ کی بات نہ مانتا تو ہم کیا کرتے؟ یہ پہاڑ جو زمین میں گڑے ہوئے ہیں، سب ایک جگہ اللہ کے حکم سے جمے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں:ہم نے پہاڑوں کو زمین میں میخوں کی طرح گاڑ دیا ہے۔ (النباء: 7) اگر یہ پہاڑ نہ ہوتے تو زمین ہچکولے کھاتی رہتی، ایک جگہ تھمی نہ رہتی۔ اگر ہر وقت زلزلوں کی کیفیت رہتی تو نہ ہم سکون سے چل پھر سکتے، نہ سکون سے سو سکتے اور نہ ہی کوئی عمارت بنا سکتے۔ پھر ہمارا حال کیا ہوتا؟ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے جتنی بھی چیزوں کو ہمارے لیے بنایا انہیں اپنے حکم کے تابع کردیا اور ان چیزوں کو اپنی مرضی نہیں کرنے دی۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں: (وَلَہُ أَسْلَمَ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ طَوْعاً وَکَرْھاً وَإِلَیْہِ یُرْجَعُونَ )
ان میں سے تمام چیزیں اللہ کی مرضی سے کام کررہی ہیں، چاہتے ہوئے بھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی۔(آل عمران :83)

یہ زمین کے اوپر سکون، امن، اطمینان اسی وجہ سے نظر آتا ہے، فضا کے اندر، فطرت (nature )کو دیکھ کر اسی لیے خوشی ہوتی ہے کہ اس کے اندر ایک نظم (discipline )ہے۔ اس میں ایک استحکام( consistency )ہے۔ اس کے اندر ایک خاص قسم کا ٹھہراؤ ہے۔ لیکن اس کے برعکس انسانوں کو دیکھیے: انسانوں کی زندگی میں کیوں بے چینی ہے؟ انسانوں کے دلوں میں اطمینان کیوں نہیں؟ انسانوں کے دل ٹھہرے ہوئے کیوں نہیں؟ اس لیے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی اس طرح فرمانبرداری نہیں کرتے جس طرح ساری مخلوق کرتی ہے۔ آپ فطرت( nature )کی کسی بھی چیز کو دیکھیں۔

مثلاً: آپ سمندر کے کنارے چلے جائیں۔ گھنٹوں بیٹھے رہیں۔ سمندر کو دیکھتے رہیں، آپ کا دل خوش ہوتا رہے گا۔ آپ کو ایک سکون ملے گا۔کیوں؟ اس لیے کہ سمندر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک خاص حد تک آکر رک جاتا ہے۔ اس کی بڑی بڑی لہریں اٹھتی ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ جیسے سجدے میں چلی گئی ہوں اور وہ واپس پلٹ جاتی ہیں۔

اگر سمندر کا پانی اپنی حد پر نہ رکے اور اپنی حد سے باہر آ جائے تو پھر آپ خود سوچیے:ہمارا کیا حال ہو؟ ہم سمندر کے کنارے کوئی مکان نہ بنا سکیں۔ ہم وہاں امن اور چین کے ساتھ نہ رہ سکیں۔ اگر سمندر کا پانی ایک حد کے اندر نہ ہو۔لیکن دوسری طرف انسانوں کو دیکھیے ہر حد پار کرتے چلے جاتے ہیں ۔ کسی بھی حد پر آکر ٹھہرتے ہی نہیں رکتے نہیں۔ اللہ کی اطاعت کے لیے راضی نہیں ہوتے۔ اپنی من مانی کرنا چاہتے ہیں، سرکشی کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زمین فساد سے بھر گئی ہے۔

اسی طرح ایک گھر سے لے کر، ایک معاشرے سے لے کر ایک ملک تک دیکھیے اور پوری دنیا پر نظر ڈالیے کہ انسانوں نے کس قدر سرکشی برپا کررکھی ہے۔اور یہ سب کچھ اسی لیے ہے کہ انسان اپنی حد پر نہیں رکتا۔ یہ تمام چیزیں تو اپنے رب کی فرمانبردار ہیں، اس کے آگے جھکی ہوئی ہیں، اسی لیے زمین میں سکون ہے۔

آپ پہاڑوں پر چلے جائیں۔ آپ نے گرمیوں میں کبھی پہاڑی علاقوں کا سفر کیا ہوگا۔ عموماً لوگ پہاڑی علاقوں میں سیروتفریح کے لیے جاتے ہیں۔ سرسبز پہاڑ انسان کی خوشی کا کتنا سامان پیدا کرتے ہیں۔ لیکن انہی پہاڑوں پر جا کر اگر ہم یہ پائیں کہ ہمارے نیچے کے پہاڑ ہل جل رہے ہیں اور اپنی جگہ سے چل پڑے ہیں تو پھر آپ دیکھیں کہ ہمارا سکون اور خوشی کہاں باقی رہتی ہے۔

تحریر : محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ