اپنے وجود کو باعث خیر ثابت کیجئے

Worried

Worried

تحریر : محمد آصف اقبال
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے بڑا فکر مند رہتا ہے۔ہر وقت وہ اس خیال میں مبتلا رہتا ہے کہ آنے والے مستقبل میں وہ کسی بھی قسم کی پریشانی میں مبتلا نہ ہو۔اس کے لیے جہاں ایک جانب وہ خود فکر مند رہتا ہے وہیں متعلقین کو بھی اس جانب ابھارتا ہے۔انسان کی یہ فکر مندی لائق تحسین ہے۔ اس کے باوجود وہ نہیں جانتا ہے کہ آنے والا کل،آج ہی پر منحصر ہے۔یعنی وہ آج جن سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے ،یہی سرگرمیاں کل اس کو یا تو کامیاب بنائیں گی یا پھر ناکامی سے دوچار کریں گی۔لیکن انسان کی عملی زندگی میں غفلت ،سرد مہری، لاپروائی اور بے توجہی،اسے اس بات پر آمادہ نہیں کرتی کہ تمام خدشات اور فکر مندی کے باوجود وہ کسی بھی قسم کی مثبت سرگرمی انجام مصروف عمل ہو۔اور اگر کسی شخص پر ان باتوں کا اثر ہو بھی جائے اور وہ خو د کو مصروف عمل رکھنا بھی چاہیے،تو چونکہ وہ کسی واضح فکر اور منصوبہ بندی کے ساتھ ،عمل میں داخل نہیں ہوتا،لہذا یا تو اس کی مصروفیت بے معنی ثابت ہوتی ہیں یا پھر جذباتیت جیسے جیسے کم ہوتی جاتی ہے عمل بھی ختم ہوتا جاتا ہے۔پھر اگر یہ معاملہ فرد واحد کا ہو تو عموماً اہل علم اسے بڑا مسئلہ نہیں مانیں گے کیونکہ اس طرز عمل سے فرد واحد کا نقصان ہوگا ،کسی بڑے گروہ یا کسی امت کا نقصان اسے نہیں کہا جائے گا۔لیکن یہ معاملہ اگرکسی گروہ یا امت کا ہوتو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں ،یہ نقصان کی شدت کس درجہ ہو گی۔

ہندوستان میں مسلمان کی آمد بے مقصد نہیں تھی۔جس وقت مسلمان ہندوستان میں داخل ہوئے آپ جانتے ہیں کہ یہاں کے باشندے معاشی، معاشرتی، تعلیمی، ثقافتی اور تمدنی ہر سطح پر بے شمار مسائل سے دوچار تھے۔مسلمانوں کی آمد کو ملک کی اکثریت نے خیر سمجھا۔ساتھ ہی مسلمانوں نے بھی ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا۔پھر چونکہ مسلمان عقائد اور اخلاق ہر دو لحاظ سے بالاتر تھے،یہی وجہ ہے کہ جب اسلامی تعلیمات کو قول و عمل سے عام کیا گیا تو ملک کے ایک بڑے طبقہ نے مروجہ رسم و رواج اور عقائد کو چھوڑ کر اسلام کے سائے میں داخل ہونے کو غنیمت جانا۔دوسری جانب مسلمانوں نے بھی ہندوستان کوترقی کی سمت گامزن کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا نیز اس کو دیدہ زیب بنانے اورمعاشی استحکام بخشنے میں پوری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ ایک وقت میں ہندوستان کو سونے کی چڑیاکہا جانے لگا۔مولانا علی میاں ندوی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:”مسلمان اگرچہ ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آئے لیکن اجنبی حکمرانوں کی طرح انھوں نے اس کو محض تجارت کی منڈی اور حصولِ دولت کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ اس کو وطن بناکر یہیں رچبس گئے اور مرنے کے بعد بھی اس کی خاک کے پیوند ہوئے۔اس لیے کہ انھوں نے حکومت و سیاست، علم وفن، صنعت وحرفت، زراعت وتجارت، تہذیب و معاشرت، ہر حیثیت سے اس کو ترقی دے کر صحیح معنوں میں ہندوستان کو جنت نشاں بنا دیا” (ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے تمدنی کارنامے ،ص:١)۔یہی وجہ ہے کہ مسلم حکمرانوں نے مختلف مقامات پر تعلیمی ادارے قائم کیے، رفاہِ عام کا مکمل نظم و نسق کیا ،پھر ڈاک کی راہیں ہموار کیں، مختلف الانواع روز مرہ نیز سردیوں کے کپڑوں کے بے شمار کارخانے بنوائے، تجارت و زراعت کا صحیح زاویہ سکھایا اور متمدن ممالک کے اتصال کا سامان مہیا کیا نیز صنعت و حرفت کو بام عروج تک پہنچایا۔ علامہ شبلی رحمتہ لکھتے ہیں:”ہندو ہمیشہ سے نہایت سادہ لباس پہنتے تھے اور غالبا ان کو گزی گاڑھے کے سوا اور کچھ پہننا نہ آتا ہوگا، (جس کی شہادت گذشتہ سطور میں صراحت سے ملتی ہے) اکبر نے دلی، لاہور، آگرہ، شیخ پور، احمد آباد اور گجرات میں پارچہ بافی کے بڑے بڑے کارخانے جاری کیے اور (یہی نہیں بلکہ) ایران، افغانستان، اور چین سے کاریگر بلواکر ہر قسم کے قیمتی کپڑے تیار کرائے” (اسلامی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر،ص:٧)۔ آپ کہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی خدمات کا اگر مسلمان خود اعتراف کریں تو یہ بڑی بات نہیں ہوگی۔کیونکہ ہر قوم اپنے سے وابستہ حکمرانوں کو بطور ہیرو پیش کرتا ہے۔لہذا جو لوگ اس قسم کی باتیں کریں ان کے سامنے یہ واقعہ بھی سامنے آنا چاہیے کہ مسلمانوں کی خدمات کا اعتراف مسلمانوں ہی کی جانب سے نہیں کیا گیا ہے بلکہ ملک کے اس طبقہ کی جانب سے بھی ہوا ہے جو خود برسراقتدار رہا ہے۔

ہماری مراد جواہر لال نہرو سے ہے ،جنہوں نے اپنی کتاب ‘تلاش ہند’ میں ہندوستانی سماج، ہندوستانی فکر، اور ہندوستان کی تمدن و ثقافت پر مسلمانوں کے ناقابل فراموش گہرے اثرات کا اعتراف کیا ہے۔وہ کہتے ہیں:”ہندوستان میں اسلام کی آمد ،نے اپنے ساتھ جونئے خیالات اور زندگی کے مختلف طرز لے کر آئے، یہاں کے عقائد اور یہاں کی ہیئت اجتماعی کو متاثر کیا، بیرونی فتح خواہ کچھ بھی برائیاں لے کر آئے اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے، یہ عوام کے ذہنی افق میں وسعت پیدا کردیتی ہے اور انھیں مجبور کردیتی ہے کہ وہ اپنے ذہنی حصار سے باہر نکلیں، وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا اس سے کہیں زیادہ بڑی اور بوقلموں ہے جیسی کہ وہ سمجھ رہے تھے۔بالکل اسی طرح افغان فتح نے ہندوستان پر اثر ڈالا اور بہت سی تبدیلیاں وجود میں آگئیں، اس سے بھی زیادہ تبدیلیاں اس وقت ظہور میں آئیں جب مغل ہندوستان میںآ ئے، کیوں کہ یہ افغانوں سے زیادہ شائستہ اور ترقی یافتہ تھے، انھوں نے ہندوستان میں خصوصیت کے ساتھ اس نفاست کو رائج کیا جو ایران کا حصہ تھی” (تلاش ہند،ص:٢١٩ بحوالہ ہندوستانی مسلمان،ص:٣٠)۔ایک اور حوالہ کے ساتھ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں،اسی مذکورہ واقعہ کی تائید میں سابق صدر کانگریس اور جنگ آزادی کے رہنما ڈاکٹر پٹابی ستیہ رَمیّہ کے الفاظ کا نقل کرنا بھی ہمارے خیال میں بہتر ہوگا۔وہ کہتے ہیں: “مسلمانوں نے ہمارے کلچر کو مالامال کیا ہے اور ہمارے نظم ونسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کامیاب ہوئے، اس ملک کے ادب اوراجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے” (خطبہ صدارت انڈین نیشنل کانگریس اجلاس جے پور١٩٤٨/، بحوالہ ہندوستانی مسلمان، ص:٣٠)۔موقع نہیں ہے مسلمانوں کی آمد اور اس کے بعد ملک کی تبدیل شدہ صورتحال تفصیل سے تذکرہ کیا جائے۔

یہاں جو مختصر ترین تذکرہ کیا گیا ہے اس کا صرف ایک مقصد ہے وہ یہ کہ جب تک مسلمان ملک اور اہل ملک کے لیے بھلائی کے کام انجام دیتے رہے،اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ موقع دیا کہ وہ باعزت زندگی گزاریں۔لیکن جیسے جیسے ان کی دلچسپیاں کم ہوتی گئیں ،مسائل نے انہیں گھیر لیا۔یہاں تک کہ اندرون و بیرون خانہ وہ کمزور ہوتے گئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ غلام ہو گئے۔لیکن خوشی کی بات ہے کہ طویل جدوجہد کے بعد ملک تو آزاد ہوگیا لیکن مسلمان ذہنی غلامی کا شکار ہو گئے۔وہیں دوسری جانب نہ صرف مسلمان بلکہ اہل ملک کی اکثریت مادیت کی چپیٹ میں آگئی ۔اور آج صورتحال یہ ہے کہ ہر شخص مادی ترقی اور دولت کے حصو ل میں سرکرداں ہے۔جس میں مسلمانوں کا سوچنے سمجھنے والا طبقے کی اکثریت ملوث ہو چکی ہے۔انہیں یہ بالکل یاد نہیں رہا کہ دنیا میں ان کی آمد کا مقصد کیا ہے؟ گفتگو کے پس منظر میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ملک کی ریاست اترپردیش کے اسمبلی انتخابات ختم ہوچکے ہیں۔نتائج سامنے آگئے ہیں،بی جے پی کی اکثرت والی حکومت بن چکی ہے۔اترپردیش کے بی جے پی لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ ،جنہیں عموماً ہندونظریات کا سخت گیر چہرا کہا جاتا رہا ہے ،نے وزیر اعلیٰ کاحلف اٹھا لیا ہے۔وہیں دوسری جانب اقلیتیں، کمزور طبقات اور حالات سے باخبر رہنے والے،مستقبل کے سلسلے میں فکر مند ہیں۔ان تمام حالات کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان جہاں ایک جانب خوف و ہراس کے ماحول سے باہر نکلیں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خود کو اپنی ذات کے لیے،امت کے لیے،ملک اور اہل ملک کے لیے اپنے آپ کو باعث خیر ثابت کریں۔مقاصد کے حصول کے لیے انہیں کیا کچھ کرنا چاہیے؟آئندہ ہفتہ اس پے لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔اس کے باوجود ہر شخص اپنی موجودہ صورتحال سے باخوبی واقف ہے،ضروت ہے کہ بہتری کی جانب گامزن ہوا جائے۔

Mohammad Asif Iqbal

Mohammad Asif Iqbal

تحریر : محمد آصف ا قبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com