حیدرآباد شہر۔۔۔ حکومتی توجہ کا طلبگار

Hyderabad

Hyderabad

تحریر : فہمیدہ غوری حیدر آباد
روشن دانوں کا شہر حیدرآباد پاکستان بننے سے پہلے بھی بڑا ثقافتی، تجارتی، اور صوفی ازم کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور تھا۔

پاکستان بننے کے بعد آنے والے قافلے کیوں کہ راجھستان سندھ کا سب سے قریبی ہمسایہ تھا تو زیادہ تر ہجرت وہاں سے سندھ میں ہوئی جس کا اثر سب سے زیادہ حیدرآباد میں دیکھا گیا۔

چوڑی سازی کی صنعت وہاں سے ہی آئی اور اب حیدرآباد کی پہچان ہے بڑے بڑے شعرا، فنکار جن میں محمد علی، شفع محمد، فرید نواز بلوچ، سلیم جاوید ، مصطفی قریشی نے اپنے سفر کا آغازحیدرآباد سے کیا۔

Sindh

Sindh

حیدرآباد کی ٹھنڈی ٹھنڈی راتیں تو اب ضرب مثل بن گئی ہیں۔ دریاے سندھ کے کنارے بیٹھے پلہ مچھلی بیچنے والے جب آواز لگاتے ہیں تو لوگ بے ساختہ کھنچے چلے آتے ہیں کیونکہ پلہ مچھلی بھی حیدرآباد کی پہچان ہے۔

محبت خلوص مہمان نوازی حیدرآباد کے لوگوں کا اب بھی خاصہ ہے۔ مگر سندھ کی تجارت و ثقافت کا سب سے بڑا مرکز اب زبوںحالی کا شکار ہے۔

تعلیم کی کمی، غربت اورسیاست سب نے مل کر بے مثال شہر کو بے حال کر دیا ہے۔ جگہ جگہ کچرے کا ڈھیر، گندگی، ابلتے گٹر، گلیوں میں وقت ضائع کرتے بچے۔۔

Education

Education

یہ سب ان لوگوں کی کرم فرمائی ہے جنہیں ہم لوگ صرف الیکشن کے موقع پر یاد آتے ہیں۔ یہ عظیم شہر بھی حوادث زمانہ کا شکار ہو رہا ہے۔ کاش ہماری حکومت اورارباب اختیار اب بھی ہوش کے ناخن لیں اور اس پیارے شہر کو تباہ ہونے سے بچائیں۔

تحریر : فہمیدہ غوری حیدر آباد