سربستہ راز

سربستہ رازوں کو اب میں جان رہی ہوں
چھپے ہوۓ لہجوں کو اب پہچان رہی ہوں

سیدھے رستوں کی متلاشی رہی ہمیشہ
اس کے ہر اک موڑ سے میں انجان رہی ہوں

اپنا لکھا آپ جو پڑھنے بیٹھی جانا
میں تو سب کے غم کا اک دیوان رہی ہوں

جس کی دیواروں میں درد بسیرا کر لیں
میں خاموش سا ایسا ایک مکان رہی ہوں

مجھ میں آوازوں کی گونج سنی جاتی ہے
صدیوں سے ہی شاید میں ویران رہی ہوں

کبھی یہاں نقارے گونجا کرتے تھے
حیرت کا اب لوگوں کے سامان رہی ہوں

ہر اک چوٹ کے بعد قدم جماۓ پھر سے
جینے کا میں ہر باری امکان رہی ہوں

کبھی خوشی کا اوڑھ لبادہ کبھی غموں کی چادر
ہر اک رنگ میں میں تو بس مہمان رہی ہوں

روشن امیدوں کو قأیم رکھنا ہو گا
ہمت والوں کی میں تو مسکان رہی ہوں

اب اک ہی افسوس مجھے ممتاز رہے گا
دیر بہت کر کے میں یہ سب مان رہی ہوں

Hidden Secret

Hidden Secret

کلام: ممتاز ملک
مجموعہ کلام : میرے دل کا قلندر بولے