امام شاہ احمد نورانی صدیقی

Moulana Shah Ahmed Noorani Siddiqui

Moulana Shah Ahmed Noorani Siddiqui

تحریر۔ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی
ایک مشہور اخبار نے لکھا کہ ‘نظام ِ مصطفی ۖ کی اصطلاح امام شاہ احمد نورانی اور ان کی جمعیت کا عطیہ ہے، اور اس نظام کی جو بھی تعریف امام شاہ احمد نورانی اور ان کی جمعیت نے کی، وہی ایک عرصے تک اور خاص طور پر تحریک نظام ِ مصطفیۖ کے دوران مستند سمجھی گئی، امام شاہ احمد نورانی شروع سے ہی نظام ِ مصطفیۖکے نفاذ کے لئے کوشاں رہے ہیں اور آج بھی ان کی سب سے بڑی بلکہ واحد منزل یہی ہے۔

ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق
ازل سے یہی رہا ہے قلندروں کا طریق

دو نظریئے کی ابتداء امام ربانی مجدد الف ثانی علیہ رحمہ نے کی اور علمی جدوجہد مجدد و مام اہل سنت امام احمد رضا خان نے مکمل کی، ختم نبوت کی تحریک اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے ہوتے ہوئے خلیفہ اعلیٰ حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقی المدنی میرٹھی اور پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ کے بعد عملی طور امام انقلاب مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نورہ مرقدہ کے ہاتھوں میںآئی، ان سے پہلے معاملہ قلم و زبان تک محدود تھا، قائد اہل سنت نے سب سے پہلے دنیا کے سات براعظم پر محیط طویل ترین تبلیغی دورہ کیا اس دورے کا ایجنڈا دنیا میں قادیانی فتنے کی ریشہ دوانیوں کے آگے بند باندھنا اور پوری دنیا میں ایک ساتھ قادیانیوں کے خلاف محاذ کھولنا تھا، دورے کے اختتام پر حضرت قائد اہل سنت نے پاکستان پہنچ کر جو پہلی تقریر کی وہ قادیانی فتنے کے خلاف تھی۔

1968 میں اکابرین اہل سنت بلخصوص غزالی زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی صاحب، خواجہ قمر الدین سیالوی علیہ رحمہ، قطب مدینہ ضیاء الدین مدنی علیہ رحمہ، مولانا حسن حقانی ، مولانا ابو الحسنات، مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانا حامد علی خان، مولانا سردار احمد صاحب اور ان جیسے اکابر ین نے خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ رحمہ کے فزند انجمن عالمی مبلغ اسلام مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کو بیرون ممالک کے دورے سے واپس بلایا اور ان سے کہا کہ وہ اہل سنت کی ابتر اورنا مصائب حالات میں قیادت کی بھاری ذمہ داری سنبھالیں، کیونکہ اعلیٰ حضرت کے ایک خلیفہ شاہ عبدالعلیم صدیقی ان کے والد اور اعلیٰ حضرت کے دوسرے خلیفہ مولانا ضیاء الدین مدنی ان کے خسر تھے، دونوں کی تربیت نے مولانا نورانی میں وہ فہم و فراست بھردی تھی کہ جس سے وہ مولوی سے مولانا اور مولانا سے امام وقت اور مجدد عصر کا مشکل ترین راستہ عبور کرلیتے۔

Jamat Ahly Sunnat

Jamat Ahly Sunnat

جب مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے قیادت کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت اہل سنت و جماعت کی نمائندہ جماعت جمعیت علماء پاکستان چھہ دھروں میں تقسیم تھے، ہر جماعت کے صدر الگ تھے ، پیر خانے ایک دوسرے کے پیر پر کفر کے فتوے لگا چکے تھے اور علماء کسی صورت ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں تھے، قوم الگ الگ عقیدتوں اور مختلف سوچ کی وجہ سے اختلاف در اختلاف میں دھنسی ہوئی تھی، ایسے وقت میں ایک نو عمر عالم دین کے لئے ان جید علماء کرام کو ایک کرنا اور پھر مشائخ عظام کو آپس میں برداشت کی روش میں لانا صرف مولانا نورانی کا ہی طرہ امتیاز ہے، مولانا نورانی نے صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں جمعیت علماء پاکستان کے چھہ دھروں کو ایک کردیا اور ملک کی تمام خانقاہوں، مدارس، علماء کرام کو ایک لڑی میں پرو دیا۔اب دوسرا معاملہ جماعت کے منشور و دستو ر کا تھا، ان سے پہلے جمعیت علماء پاکستان کسی منشور و ستور کی پابند نہیں تھی عمومی طور جو بھی جماعت حکومت کا حصہ ہوتی جمعیت بھی اسی کے ساتھ کھڑی ہوجاتی،، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے باقائدہ ایک کمیٹی تشکیل دے دی جس میں اکابرعلماء کرام و قانون دانوں کی مدد سے جمعیت علماء پاکستان کا منشور و دستور ترتیب دیا گیا۔جمعیت علماء پاکستان کے منشور کو دنیا کی سب جماعتوں سے بہترین منشور کی مختصر تعریف یہ تھی۔

مقام مصطفیۖ کا تحفظ و نظام مصطفیۖ کا نفاذ
بعض ناقدین یا وہ لو گ جو جمعیت علماء پاکستان میں مفاد کے لئے آئے تھے اور مفاد لے کر چلے گئے اور وہ لوگ جنہوں نے جماعت کے دم پر اپنی قیمت لگائی اور جماعت چھوڑدی، ایسے تمام لوگ اکثر یہ بات کرتے ہیں کہ مولانا نورانی نے کیا کیا ہے۔

مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے تین عالمی فتنوں کا مقابلہ اس دور میں کیا جب عام عوام اور مذہبی رہنما اس حد تک سوچ بھی نہیں سکتے تھے،پہلا عالمی فتنہ سرخ انقلاب کی صورت میں روس کا کمیونسٹ نظام تھا پاکستان کے پڑوس میں چین بھی اسی کمیونزم نظام کی پیروی کرتا ہے روس ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے اپنا گہرا اثرو رسوخ رکھتا ہے، اس نظام کی گن گرج نے پاکستانی عام فہم عوام کو اس طرح سے متاثر کیا کہ قوم جوک در جوک اس نظام کی بڑھنے لگی،مولانا شاہ احمد نورانی کا شمار پاکستانی سیاست کے نڈر اور بے باک سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔

انہوں نے سیاست کے میدان میں 1969ء میں اس وقت قدم رکھا جب پاکستان کے دروازے پر سرخ انقلاب دستک دے رہا تھا جس کے سرخیل مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن تھے، جمہوریت کے لئے قائم کی گئی مملکت میں جنرل ایوب خان کا مارشل لاء نا فذہو چکا تھا ۔ ہر طرف پاکستان کو لینن گراڈ میں تبدیل کرنے کے نعرے گونج رہے تھے اس وقت جمعیت العلماء ہند کے بطن سے نکلنے والی جماعت جمعیت العلماء اسلام کے مفتی محمود بابا ئے جمہوریت کا خطاب پانے والے نواب زادہ نصراللہ خان ، پیر صاحب پگارہ شریف ، خان عبدالولی خان اور جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد جیسی شخصیات سیاست کے میدان میں موجود تھیں ۔ ان کی جانب سے سرخ انقلابیوں کا جواب دینے کی بجائے ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔

Toba Tek Singh

Toba Tek Singh

اکثر سیاست دان جرنیلوں کے دسترخوان پر اقتدار کی لذتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔مولانا بھاشانی نے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک لاکھ سے زائد افراد کا تاریخی کنونشن کر کے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر براہ راست کاری ضرب لگا کر اسے سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس دور میں مردِ قلندر مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے اگلے ہی ماہ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سولہ لاکھ کا کثیر المثال عوامی جلسہ بعنوان نظام مصطفیۖ کنونشن منعقد کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی جلسوں کی تاریخ بھی بدل دی اور پاکستان سے روسی دارلخلافہ ماسکو اور چینی دارالخلافہ بیجنگ کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ ملک پاکستان کو اسلام کے لازوال دو قومی نظریئے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے اور اور یہاں صرف حضور علیہ السلام کا پاکیزہ نظام ہی رائج ہو سکتا ہے، اور دوسری طرف واشنگٹن ڈی سی اور مغربی سامراج کی یلغار پر بند باندھتے ہوئے ایک غیر متزلل چیلنج کردیا کہ علماء مشائخ اورآستانوں کے گدی نشین اپنی آنے والی نسل کو مغرب کا رنگ و ننگ کا معاشرہ نہیں دینگے، یہاں مغربی جمہوریت اور لبرل معاشرت کو پنپنے نہیں دیا جائے گا۔

اس دور کا دوسرا بڑا فتنہ جس کی باگ ڈور اور لگام مغربی سامراج اور عالمی سرمایہ داران نظام کے پیشوائوں کے ہاتھ تھی، اس فتنے کے جواب میں قائد ملت اسلامیہ نے مکمل حکمت عملی کے تحت جمعیت کو سیاسی بنیادوں پر مستحکم کرنا شروع کیا اور ملک گیر دورے شروع کئے، جمعیت علماء پاکستان کو ملک کی ہر ایک یونین کونسل، تحصیل، ضلع، شہر، ڈویژن، صوبہ تک پہنچادیا اور عوام کو ایک ایسے انقلاب کے لئے تیار کیا جو نظام مصطفی ۖ کا ملک کے گلی کوچے میں نافذ کردے، ایسے دور میں جب کہ سیاست میں علماء کا کردار انتہائی محدود ہو گیا تھا ان حالات میں مولانا شاہ احمد نورانی نے پاکستان میں سرخ انقلاب کے مقابل نظام مصطفی کے نفاذ کا نعرہ بلند کیااوراس پروپیگنڈہ کا منہ توڑ جواب دیا کہ” علماء انگریزی نہیں جانتے اور ملک کے دستور سے نابلد ہیں۔وہ دستور بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ”۔

انہوںنے برسراقتدار جرنیلوں اور سیاست کے کھلاڑیوں سے سوال کیا کہ کیا دستور امریکن ہو گا یا روس اور چین سے درآمد کیا جائے گا؟اگر برسراقتدار جنرل اور سرخ انقلاب کے داعیوں کا جواب ہاں میں ہے تو وہ خوب غور سے سن لیں اس ملک کا آئین نہ تو انگریزی ہوگا نہ امریکہ سے درآمد ہوگا اور نہ ہی روس اور چین کے اصولوں پر مرتب ہوگابلکہ وہ آئین اس ملک میں نافذ ہوگا جس کا سلسلہ مدینہ منورہ کی سرزمین سے ہے۔

لبرل اور سیکولر قوتوں کے جواب میں مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی جمعیت علماء پاکستان نے 1970ء کے الیکشن میں حصہ لیا اوران کی جماعت جمعیت العلماء پاکستان قومی اسمبلی کی سات نششتیں جیت کرایوان میں پہنچ گئی۔ملک کے نازک تریک حالات سے گزر رہا تھا، ایک طرف مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کا چھہ نکاتی ایجنڈا اور دوسرے طرف مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا پرچم بلند کیا ہوا تھا، ایسے نازک ترین حالات میں ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں اس جنگ میں مصروف تھیں کہ کب جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے اور کب ایوانوں میں اپنی اپنی کرسی حاصل کی جائے اور اقتدار کے مزے لوٹے جائیں، مشرقی پاکستان ہم سے یکسر الگ نہیں ہوگیا بلکہ دھیرے دھیرے حالات زیادہ خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے تھے، اکثر صحافی حضرات حق بتانے میں بخل کرتے ہیں اور بددیانتی کرتے ہیں اور ملک کی ایجنسیوں گزشتہ چالیس سال سے اس طرح کی خبریں چھپنے بھی نہیں دی۔

Jamiat Ulema e Pakistan

Jamiat Ulema e Pakistan

مشرقی پاکستان کے علیحدہ ہونے کے چھہ ماہ پہلے سے جمعیت علماء پاکستان کی آدھی سے زیادہ مرکزی و صوبائی قیادت بشمول مولانا شاہ احمد نورانی، مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی اور پروفیسر شاہ فریدالحق جیسے اکابرین ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں ٹھہری ہوئی جس کا کام یہ ہوتا تھا کہ ہر نئے وہ سفارتی، سیاسی اور سماجی رابطے استعمال کرے ہوئے مشرقی پاکستان کی مقتدر شخصیات سے ملتے اور انہیں آگے کے حالات سے آگاہ کرتے ہوئے ملک دولخت ہونے کے تصور سے اور اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ان میں کل پاکستان کی وطنیت کو اجاگر کرتے تھے، ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا جو مغربی پاکستان جانے کی بات کرے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دونگا، مگر قائد اہل سنت وہ شیر بے مثال تھے کہ جنہیں دنیا کی کوئی دھمکی اپنے فیصلوں سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی تھی۔

میڈیا اور صحافی حضرات اکثر یہ بات بھی نہیں تحریر کرتے کہ شیخ مجیب کو چھہ نکات سے چار نکات تک محدود کرنے والے بھی امام انقلاب امام شاہ احمد نورانی صدیقی تھی، شیخ مجیب جس روش میں آگے بڑھتے جا رہے تھے ایسے میں مذاکرات کے متحمل نہیں تھے مگر مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے انہیں مذاکرات کی میز پرآنے پر راضی کرلیا اور ان کی طرف سے مذاکرات کا پیغام لے کر بھی مولانا نورانی ہی صدارتی ہائوس ڈھاکہ پہنچے تھے کہ شیخ مجیب مذاکرات کے لئے تیار ہیں، جب مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی صدارتی ہائوس پہنچے تو انہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی مگر وہ غصے کے عالم میں دروازے کو ٹھوکر لگا اندر داخل ہوگئے اور اس وقت جنرل یحیی خان کی میز پر اس وقت شراب کی بوتل موجود تھی جس پر مولانا شاہ احمد نورانی نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ملک ٹوٹ رہا ہے اور آپ شراب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔پہلے میز سے شراب ہٹائے پھر گفتگو ہوگی ، جنرل کو پتہ لگ گیا کہ مولانا شاہ احمد نورانی روایتی سیاستدان نہیں بلکہ تبدیلی نظام کے حقیقی علمبردار ہیں۔

انہیں اقتدار کی طاقت متاثر نہیں کرسکتی اور نہ ہی کوئی صاحب اقتدار ان کے ایمان کو متزلزل کرسکتا ہے۔ جنرل یحی نے اس وقت کسی بھی سمجھوتے پر رضامندی اور مذاکرات کی میز پر آنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب جنگ ہوگی اور میں اس شیخ مجیب کو دیکھ لونگا، نہ مصائب اور گھمبیر صورتحال کے پیش نظر اجلاس سے واپس آگئے اور اپنے ساتھیوں سے تین ماہ پہلے ہی کہہ دیا کہ اب ملک دو لخت ہو کر ہی رہے گا اب کوئی دوسری صورت نہیں رہتی۔

سقو ط ڈھاکہ کے بعد نئے پاکستان میں مولانا شاہ احمد نورانی نے پارلیمنٹ میں اپنی پہلی تقریر کرتے ہوئے تمام سیاست دانوں کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ اقتدار کے رنگ میں رنگے جانے کی بجائے اقتدار کو اپنی فکر کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے پارلیمنٹ میں آئے ہیں۔

صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے جاری کر دہ عبوری آئین پر مولانا شاہ احمد نورانی کا پالیسی بیان اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دستور سازی کے لئے رہنماء اصول بنا۔ان کے یہ الفاظ کہ” میں اس عبوری آئین کواس لئے تسلیم نہیں کر تا کہ اس میں مسلمان کی تعریف نہیں ہے”۔مولانا شاہ احمد نورانی سے قبل مولانا شبیر عثمانی ، مفتی غلام غوث ہزاروی اورجماعت اسلامی کے اکابرین اسمبلیوں میں موجود رہے تھے لیکن یہ اعزاز مولانا شاہ احمد نورانی کو ہی حاصل ہو۔انہوںنے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے پرسوشلزم کی علمبردار پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابل ریاست مدینہ میں نافذ ہونے والے نظام مصطفی کو پاکستان کی سیاست میں داخل کر دیا۔سیکولرازم اور سوشلزم کے علمبردار سیاست دان مولانا شاہ احمد نورانی کے غیر متوقع نظریاتی حملہ کو ناکام بنانے کے لئے پارلیمنٹ میں صف آرا ہوگئے لیکن مولانا شاہ احمد نورانی نے قومی اسمبلی میں مسلمان کی تعریف پیش کروا کر قائداعظم کے افکار کی مطابق پاکستان کے لئے راستے کا تعین کر دیا۔

Nizam e Mustafa

Nizam e Mustafa

مولانا شاہ احمد نورانی مختصر عرصہ میں ہی ذوالفقار علی بھٹو کے سوشلزم کے نظریہ کے مقابل نظام مصطفی کے علمبردار بن کر ڈ ٹ گئے۔ان کی ثابت قدمی کے سبب دینی سیاست کے بجھتے ہوئے چراغ جل اٹھے اور ماضی کے بیشتر سیاست دان ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ان کی قیادت میں صف آراہو گئے۔ مولانا شا ہ احمد نورانی کی نظریاتی پیش قدمی کو روکنے کے لئے شیخ رشید سمیت دیگر شخصیات ذوالفقا ر علی بھٹو پر دبائو ڈالتی رہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو جیسا ذہین و فطین شخص بھی مولانا شاہ احمد نورانی کے دلائل کے سامنے اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا ۔ جاگیردارانہ پس منظر کے حامل ذوالفقار علی بھٹو اختلاف رائے کو سخت ناپسند کر تے تھے، وہ اپنے دوست اور دشمن میں تمیز کیے بغیر اختلاف کرنے والے شخص کوبرداشت نہ کرتے تھے۔لیکن وہ مولانا شاہ احمد نورانی کے علمی مقام ومرتبہ کو سمجھتے تھے اور پھر وہ دور بھی تھا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے اہم ترین فیصلوں میں مولانا شاہ احمد نورانی کے مشورے اور رائے اہمیت رکھنے لگے اور ملک میں بیک ڈور اور ڈائنامک سیاست کا آغاز ہو اجس نے پاکستان کو فقط پانچ سال کے قلیل عرصے میں مسلم ورلڈ کا سربراہ بنا کر کھڑا کردیا۔

تیسرا اہم ترین فتنہ قادینیت، مرزائیت اور احمدیت تھی جو کہ ایک ہی شکل کے تین نام ہیں، قیام پاکستان سے قبل ہی مسئلہ قادیانی مسلمانوں کے لئے چیلنج بنا ہوا تھا ۔ ایک سو سالہ تاریخ میں کوئی بھی عالم ، مذہبی رہنما یا سیاسی لیڈر اس فتنے کا عملی و سیاسی حل نہیں نکال سکا تھا، مخصوص علاقوں میں قادیانی فتنے کے خلاف کتابیں، فتاوی اور تقاریر کے علاقہ مناظرے ہوجاتے تھے مگر ان عوامل سے مخصوص عوامی طبقہ بچ پاتا تھا، دیہاتوں اور غریب علاقوں میں یہ فتنہ لوگوں کو پیسے اوردیگر مراعات کی لالچ د یکر خریدنے کا کوشش کرتا یا پھر بہنوں اور مائوں کی عزت جانے کے ڈر سے کمزور عوام ان سے دب جاتے تھے، مگر پاکستان اور ہندوستان سے باہر معاملہ کچھ اور تھا وہاں قادیانی فتنے کو بہت آسان ماحول میسر تھا، یہ لوگ مختلف لبادوں میں عام مسلمانوں کا گمراہ کردیتے تھے، مگر امام انقلاب امام شاہ احمد نورانی صدیقی دنیا کی واحد ایسی شخصیت تھے جنہیں اللہ تبارک و تعالی نے ان تین عالمی فتنوں کے مقابلے کے لئے چن لیا تھا۔

امام شاہ احمد نورانی صدیقی نے تمام مذہبی قوتوں کو یکجا کر کے پارلیمانی و سیاسی طریقے سے اس فتنے کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کا منصوبہ بندی کی اور اس تحریک کو نئے عزم سے شروع کر کے قادیانی فتنے کو پوری دنیا میں یکسر مٹانے کی تیاری کرلی، مولانا شاہ احمد نورانی نے 105 سال بعد 30 جون 1974ء مسئلہ قادیانیت طے کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں پرائیویٹ بل پیش کیا توایوان کے اندر اور باہر اس بل کے خلاف شدید مزاحمت شروع ہوگئی، قادیانی گروہ پیپلز پارٹی کو سپورٹ کر رہا تھا ۔ان کے تصور میں بھی نہ تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں قادیانیت کے خلاف قومی اسمبلی میں قانون سازی کے لئے بل پیش کر دیا جائے گا۔ قادیانیوں کی پاکستان کی سول اور ملٹری بیورو کریسی میں مضبوط لابی تھی اور ان کی موجودگی میں بل پیش کرنا جان جوکھو ںمیں ڈالنے کے مترادف تھااور اپنے خلاف چو مکھی لڑائی کو دعوت دینا تھا۔

یہ دینی اہم فریضہ مذہبی وسیاسی رہنمامولانا شاہ احمد نورانی صدیقی سے پہلے پارلیمنٹ میں رہ کر گزشتہ 26 سالوں میں طے نہ کر پائے تھے ۔یہ بل مولانا شاہ احمد نورانی کے عشق رسولۖ کا امتحان تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ممبران پارلیمنٹ کو خوش کرنے کے لئے اسلام آباد میں ایک ایک پلاٹ دینے کی منظوری دی ، مولاناشاہ احمد نورانی نے پلاٹ لینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ میں پلاٹ لینے نہیں بلکہ عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے آیا ہوں ۔” پاور پالیٹکس ” میں اپنے مخالفین کو اغوا کروالینا قتل کروادینا اور ہر قیمت پر خرید لینا برسراقتدارطبقہ کے لئے کبھی مشکل نہیں رہا۔

Threats

Threats

مولانا شاہ احمد نورانی کو قادیانی اور لاہوری گروپ نے بل پر بحث نہ کرنے کے عوض 75 لاکھ روپے کی پیشکش کی جب وہ”بارگینگ’پر آمادہ نہ ہوئے تو انہیں قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ مولانا شاہ احمد نورانی روحانی لحاظ سے فکرِ شبیری کے پیرو کار تھے جہاں مقصد کے حصول کے لئے جان کا نزرانہ پیش کرنے کی روشن مثالیں موجود تھیں ۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کوئی بھی اہم واقعہ کسی بھی شخصیت کی اہلیت کو جانچنے کا معیار بنتا ہے۔اس ناز ک موقعہ پر اس کے فیصلے تاریخ کا روشن یا سیاہ باب بنتے ہیں ۔ برصغیر کے مسلمانوں کی 105 سالہ جدوجہد کے فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی تھی پاکستان میں 1973ء کے آئین کی تدوین کے موقع پرمولانا شاہ احمد نورانی کے اس اقدام نے انہیں دیگرسیاست دانوں سے ممتاز کردیاتھا ۔مولانا شاہ احمد نورانی تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے عشق نبی کا عمامہ سر پر باندھے ملک بھر میں رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے شہرشہر گائوں گائوں ہزاروں میل کا سفر طے کرتے ہیںاور عوام کی طاقت سے حکومت کو مجبور کر دیتے کہ وہ ان کے پیش کر دہ بل پر اسمبلی میں بحث کرائے تاکہ ہمیشہ کے لئے مسئلہ قادیانی کو آئین کے تابع طے کردیا جائے۔م

ولاناکی کوششوںسے1973ء کے آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا اور پاکستان میں اس قانون کے پاس ہوتے ہی حجاز مقدس میں قادیانیوں کا داخلہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا جس کے لئے مولانا نورانی نے خصوصی طور پر سعودی حکمرانوں سے گفت و شنید کی، یک بعد دیگر دنیا کے تقریبا ہر اسلامی ملک میں قادیانیوں کے خلاف ایک قانون آئین میں شامل کیا گیا اور پوری دنیا میں قادیانیوں کو ایک اقلیت تسلیم کیا گیا، ان کے عبادت خانے کو مسجد کہلانا جرم اور ان کی اذان پر پابندی اور تمام سماجی، مذہبی اور معاشرتی معاملات میں ان پر پابندیاں لگا دی گئیں جس سے سو سال تک کے طویل ترین فتنے جس نے دنیا بھر میں لاکھوں مسلمانوں کو گمراہ کیا اس کا ہمیشہ کے لئے سد باب کردیا گیا، اس کے علاوہ 1973 کے آئین میں مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی اور جمعیت علماء پاکستان کی پارلیمانی سیاست کے نتیجے میں دو سو سے زائد اسلامی دفعات اور قوانین شامل کئے گئے۔

پاکستانی سیاست میںمولانا شاہ احمد نورانی کرپشن سے پاک با مقصد سیاست کے بانی ہیںوہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے وہ ووٹ کو بیت سے تشبیہ دیتے ہیں اسی لئے عوام کی رائے پر شب خون مارنے والے کو غاصب سمجھتے ہیں ۔میدان سیاست میں اقتدار کی منز ل کو پانا ہر سیاست دان کا خواب ہوتا ہے وہ اپنے خواب کی تعبیر کے لئے جائز او رنا جائز زرائع استعمال کرتا ہے ، ناجائز زرائع سے بر سر اقتدار آنے والی حکومتیں کبھی عوام دوست نہیں ہو تیںاور نہ ہی کرپٹ سیاست دان ملک میں خوشحالی لا سکتے ہیںیہی وجہ ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی اپنے قلندرانہ مزاج کی وجہ سے سیاست دانوں کی بھیڑ میں تنہا دکھائی دیتے ہیں۔ وہ کرپشن کی بنیاد پر اتحاد بنا کر بر سراقتدار آنے کے خواہشمند نظرنہیں آتے۔ان کی سیاست میں بلندی اور عظمت کو سمجھنے کے لئے تحریک نظام مصطفی نادر ترین مثال ہے جس میںجنرل ضیاء الحق نے تحریک نظام مصطفی کے اکثر قائدین کو دو دو وزارتوں کے عوض خرید لیا۔

نواب زادہ نصر اللہ ، مفتی محمود ، میاں طفیل محمد، پیر صاحب پگارا سمیت اکثر سیاست دانوںنے بخوشی ان وزارتوں کو قبول کیا وہ تحریک نظام مصطفی کو چھوڑ کر ڈکٹیٹرضیاء الحق کے پیرو کار بن گئے۔جمعیت علما ء پاکستان کو بھی کوٹہ کے مطابق دو وزارتوں کی پیش کش کی گئی جسے مولانا شاہ احمد نورانی نے مسترد کرتے ہوئے جنرل ضیاء سے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا۔پاکستانی سیاست کے قلند رنے اس موقع پر بھی بکنے سے انکار کر کے اپنے کردار کو آلو دہ ہونے سے بچا لیاکیونکہ قلندر دینے پر معمور ہوتا ہے دنیا سے لینا اس کی فطرت میں شامل نہیں ہوتا۔

Role

Role

پاکستان کی سیاست میں مولانا شاہ احمد نورانی کے کردار کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ان کی فکر کو سمجھا جائے جو لوگ ان کی فکر کو سمجھ گئے اور ثابت قدمی سے قائم رہے وہ عظمت کے مینار بن گئے اور کچھ ایسے بھی تھے جو ان کی قریب ہوتے ہوئے بھی ان کی فکر کو سمجھنے سے قاصر رہے ۔انہوںنے اقتدار کے بازار میں اپنی مادی خواہشات کی تکمیل کے لئے اپنی خدمات فروخت کیں اور اقتدار کے مزے لوٹے آج تاریخ میں مولانا سے انحراف کرنے والوںکاکوئی مقام نہیں ۔ صدر جنرل ضیاء الحق نے آمریت کے آگے سر نہ جھکانے کے جرم میں مولاناکو تنہا کر نے کے لئے حکومتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیاانہیں جلسہ و جلوس کی اجازت نہ تھی ان کی کے لئے صوبہ بدری کے احکامات ہر وقت تیار رہتے تھے ۔پاکستان کی سیاست میں ایک دفعہ پھر کر بلا کا میدان سج گیا۔غاصب حکمران اور مولانا شاہ احمد نورانی آمنے سامنے تھے۔

ان کی جماعت جمیعت علماء پاکستان کو تقسیم کرنے کے لئے ان کے ساتھیوں پر مراعا ت کے دروازے کھول دیے گئے جس کے نتیجہ میں ایک کے بعد دوسرا ٹوٹتا گیا یہاں تک کے جمیعت علماء پاکستان کی مخالفت سرکاری سرپرستی میں جمیعت سے نکالے گئے لوگ ہی کرنے لگے، ان ٹوٹنے والوں میں بعض ایسے ہیں جو اس دنیا سے گمنامی کی زندگی گزار کر چلے گئے اور چند رہ گئے ہیں جنہوں نے آج تک جنرل ضیاء کے نمک کو حلال رکھنا اپنے ایمان کا جز سمجھا ہوا ہے مگر الحمداللہ جمعیت علماء پاکستان سے جدا ہونے والا ہر شخص اور اس کی قائم کردہ خود ساختہ جماعت تباہی و بربادی کے دہانے تک پہنچ کر پارہ پارہ ہو چکی ہے، اپنوں کے اس رویئے کے باوجود بھی مولانا شاہ احمد نورانی پھر بھی نہ گھبرائے انہوںنے اپنے مختصر جانثاروںکے ساتھ نظام مصطفی کا جھنڈا بلند رکھا اور نظام مصطفی کی تحریک کو جاری و ساری رکھا
ان سے کسی صحافی نے جب پوچھا کہ جو لوگ آپ کو چھوڑ کو جنرل ضیاء کی مجلس کا شکار ہوگئے اور آخرت کے بدلے میں دنیا خرید لی تو آپ ان کے بار ے میں کیا کہتے ہیں تو حوصلہ اور استقامت کے پہاڑ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے ایک مختصر ترین جوا ب دے کر صحافیوں کو لاجواب کردیا۔

ہم ایک ایسی ٹرین پر سوار ہیں جس کی منزل اسلام ہے اور عالمگیر غلبہ اسلام ہے مگر بعض نا سمجھ لوگ اسلام آباد کی منزل کو اسلام سمجھ بیٹھے مگر منزل ابھی آگے ہے،
علامہ مفتی جمیل احمد نعیمی، مولانا حسن حقانی، مولانا حامد علی خان، پروفیسر شاہ فریدالحق علامہ، سید احمد سعید کاظمی ، قاری احمد میاں ، صدیق راٹھور ،قاری محمد زوار بہادراور جنرل کے ایم اظہر خان سمیت بہت سے رہنماء مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں غاصب جنرل کے خلاف بر سر پیکا ر رہے۔مولانا شاہ احمد نورانی کے ایمان کا امتحان مسلسل ہوتا رہا۔ وہ اور ان کی جماعت اپنے اور غیرو ںکے ہاتھوںتکالیف اٹھاتی رہی لیکن انہوںنے عوام کے جمہوری حقوق بحال کروانے کے لئے اپنا سفر جاری رکھا۔

پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب افغانستان میں روس کے خلاف جنگ لڑنے کے لئے پاکستان میںامریکی ڈالرز کی بارش ہونے لگی۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میںافغان جنگ کے لئے بھرتی کے کیمپ کھل گئے۔ بہت سے نامور مذہبی و سیاسی رہنمائوںنے موقع غنیمت جان کر خوب ڈالر سمیٹے مگرمولانا کی آنکھوں کو ڈالروں کی چمک بھی خیرہ نہ کر سکی۔ ایک اندازے اور غیر مکمل تحقیق کے مطابق پورے ملک میں جنرل ضیاء کی ایماء پر 12000 سے زائد ایسے مدارس تعمیر کئے گئے جس میں جہادی و دہشت گردی کی تربیت پا کر چالیس لاکھ سے زائد کے دہشت گرد وں کو وسطی ایشیاء اور روس کے خلاف عالمی جنگ میں استعمال کیا گیا، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے جنرل ضیاء کو با رہا سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اس جنگ سے پاکستان کے آنے والے سو سال کی تاریخ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھٹی کی مانند استعمال کرنے کے لئے پاکستان کو دہشت گردوں کی عالمی منڈی بنا دینگے۔

Terrorism

Terrorism

اس وقت کی مولانا شاہ احمد نورانی کی دور اندیش باتوں کو غور کرتے ہوئے اندازہ لگائے کہ کیا پشاور سانحہ جنرل ضیاء کے دہشت گردی کے کارخانوں سے تیار کردہ دہشت گردوں نے نہیں کیا؟ کیا پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں جن ساٹھ ہزار پاکستانیوں کا قربان کیا کیا وہ ساٹھ ہزار پاکستانیوں کے قاتل جنرل ضیاء کے پیدا کئے دہشت گرد نہیں ہیں؟ کیا جنرل ضیاء کی پالیسیوں نے پوری دنیا میں پاکستان کو اسلامک ٹریرارزم اور دہشت گردی کا مرکزاور کئی ملکوں میں کسی بھی غیر متوقہ سانحہ کا ذمہ دارا نہیں بنادیا ؟صحافی اور مصنف حضرات ان باتوں پر اپنے قلم توڑ کر چپ کی زبان کیوں اختیار کر لیتے ہیں؟۔

مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے لاکھوں کے جلسے اور بھرپور عوامی و سیاسی جدوجہد کے آگے جنرل ضیاء جیسے ٹھنڈے دوزخ کے بھی اوسان خطا ہوگئے، اس نے مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی اور ان کی جماعت کو وزیراعظم کی کرسی، دو صوبوں کی گورنری اور دو صوبوں کی وزارت اعلیٰ کے ساتھ ساتھ ہزاروں سرکاری پلاٹ اور ہزاروں نوکریں اور کڑوڑوں روپے کی پیشکش کی مگر مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کا ایک ہی جواب تھا کہ ہم جب بھی اقتدار میں آئینگے عوامی طاقت کے بل بوتے پر آئینگے اور چور دروازے سے حکومت کو میں شریک نہیں ہونگے۔

طاقت کے مراکز کے سامنے سر نگوںنہ کرنے پر یہ فیصلہ کر لیاگیا کہ مولانا کو ہمیشہ کے لئے سیاست سے بے دخل کر دیا جائے۔اس کام کو انجام دینے کے لئے کراچی اور حیدرآباد میں ایک لسانی تنظیم بنوائی گئی جس نے مولانا شاہ احمد نورانی کے حلقہ انتخاب پر قبضہ کر لیا اور ان سے کہا گیا کہ اگروہ اسمبلی میں جانا چاہتے ہیں تو انہیں نائن زیرو کی حاضر ی دینا ہوگی۔اس وقت پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دان نائن زیروکی حاضری دینا قابل فخر سمجھتے تھے۔

لیکن مولانا شاہ احمد نورانی نے یہ کہہ کر سمجھوتا کرنے سے انکار کردیاکہ” مسلمان ایک جسم کی مانند ہیںاور میں مسلمانوں میں کسی بھی تقسیم کو اسلام کے خلاف سمجھتا ہوں”۔ان کے لئے کراچی میں رہنا دو بھرکر دیا گیا ، گورنر سندھ اور وزیراعلی نے صدیق راٹھور کے ذریعے پیغام بھجوایا کہ مولانا کا نام ہٹ لسٹ پر ہے اور ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیںوہ احتیاط کر یںاورحکومت انہیں سیکورٹی فراہم کرنے کے لئے تیار ہے۔مولانا نے جواب دیا کہ” جو لمحُہ قبر میں لکھا ہے اسے آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ”۔ اندرون سندھ میں جئے سندھو دیش، پنجاب میں جئے پنجابی، سرائیکی ریاست، آزاد بلوچستان اور مہاجرستان اور جناح پور یہ سب کچھ جنرل ضیاء کی پالیسیوں کا براہ راست نتیجہ ہے، دنیا جانتی ہے کہ جامعہ کراچی کے ایک معمولی گروہ کو عسکری ٹریننگ اور ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں اسلح کس نے دیا۔

پاکستان کی پرو امیریکن خار جہ پالیسی کے حوالے سے مو لانا شاہ احمد نورانی نے ضیاء الحق کومتعدد بار متنبہ کیا”کہ ایک وقت آئے گاجب افغان جنگ کے نام پر تیار ہونے والے مجاہدین پاکستان کی فوج سے لڑیںگے”۔ لیکن طاقت کے غرور میں ڈوبے ہوئے جنرل کو یہ بات سمجھ نہ آئی، وہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے مذہب کا استعمال کرتے رہے۔

Politics

Politics

ضیاء الحق کی رخصتی کے بعد پاکستانی سیاست نے پھر کروٹ لی ، سیاست میں ضیا ء الحق کے نفرت کے بوئے ہوئے بیجوںکی فصل تیار ہوگئی پاکستانی معاشرہ فرقہ وارانہ آگ کی لپیٹ میں آگیا ۔مسجد وں امام بارگاہوں پر حملے ہونے لگے سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد جیسی تنظیمیں تشکیل پاگئیں۔ نفرت کی آگ ملی یکجہتی کو پار ہ پارہ کر رہی تھی ۔قومی وحدت کو بچانے کے لئے ایک دفعہ پھرقوم کو پاکستانی سیاست کے اس قلند ر کی ضرورت پڑ گئی ۔تمام مذہبی جماعتوںنے مولانا شاہ احمد نورا نی کی قیادت میں ملی یکجہتی کو نسل قائم کی جس کی کوششوںسے فرقہ وارانہ نفرت کی آگ ٹھنڈ ی ہوئی۔ عوام کے بھاری مینڈیٹ سے منتخب ہونے والے نواز شریف کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف نے ملک پر قبضہ کر لیا ۔ مولاناشاہ احمد نورانی نے پیرانہ سالی کے باوجود گھر بیٹھنے کی بجائے جنرل پرویز مشرف کے خلاف حکمت عملی ترتیب دی اور دینی جماعتوں کا سیاسی اتحادمتحدہ مجلس عمل قائم کیا۔

بین الاقوامی پالیسی سازوںنے اپنے منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے ہمیشہ پاکستان میں فوجی آمریت کی حمایت کی ہے۔انہوںنے ہر غاصب جنرل کوآگے بڑھ کر گلے لگایا، ہر جنرل نے امریکہ سے دوستی لگائی اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد منہ کی کھائی ۔ بد قسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے بڑے سیاسی رہنماء میوزیکل چیئر کے اس کھیل کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیںاور اپنا دامن تاریخ میں داغدار کرکے رخصت ہوئے ۔مولانا شاہ احمد نورانی کی قیادت میں متحدہ مجلس عمل نے الیکشن 2002 ء میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔ ان کی کوششوںسے ہی ماضی میں آمریت کی ہم سفر بننے والی جماعتوںنے پہلی مرتبہ اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کیا ۔ یہ بھی سچ ہے کہ پر مولانا شاہ احمد نورانی کومتحدہ محاذ میں شامل جماعتوںکے قائدین کی جانب سے پرویز مشرف کی حمایت کے لئے سخت دبائو کا سامنا تھالیکن انہوںنے اپنے ساتھیوں کے دبائو کو بڑی حکمت عملی سے ناکام بنایااور جمہوریت پسندی کی راہ کو اپنائے رکھا۔جنرل پرویز مشرف اور اس کے اتحادیوںنے جنرل ضیاء الحق کی طرح ایک دفعہ پھر سیاست میں خریداری کا بازار سجایا لیکن مولانا شاہ احمد نورانی ان کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوئے۔سترھویں آئینی ترمیم مولانا کے سخت مؤقف کی وجہ سے پاس نہ ہوسکی۔

ایم ایم کے داخلی اور خارجی اعصاب شکن محاذ پر شب و روز جدو جہد نے 74سالہ مولانا شاہ احمد نورانی کو تھکادیا تھا۔دل کے مریض ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر انہیں مسلسل آرام کا مشورہ دیتے رہے لیکن سیاست کے اس قلندر نے فوجی حکمران سے آخری معرکہ کے لئے 11 دسمبر 2003 کو وضو کیا اوروہ پیپلز پارٹی کے رہنماء میاں رضا ربانی کے ساتھ پریس کانفرنس کر نے کے لئے روانہ ہوئے تاکہ غاصب پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف گرینڈ اپوزیشن اور لانگ مارچ کا اعلان کریں۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پررب جلیل کی طرف سے مولان شاہ احمد نورانی کو بلاوا آگیا ۔مولانا شاہ احمد نورانی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہر دور میں ہر حکمران نے مختلف قسم کی پیشکشیں کی انہوںنے سیاست میں عبادت سمجھ کر حصہ لیا تاکہ پسے ہوئے غریب عوام کے مسائل حل ہوسکیں ۔ پاکستان کی جاگیر دارانہ سیاست میں سفید پوش مبلغ اسلام مولانا شاہ احمد نورانی نے اصولی سیاست کے انمنٹ نقو ش چھوڑے ہیں ۔ان کی وصال کے بعد متحدہ مجلس عمل کے تعاون سے قومی اسمبلی میں سترھویں آئینی ترمیم منظور کر لی گئی ۔آج کی کرپٹ سیاستدانوںکے ہجوم میںملکی معیشت ڈگمگا رہی ہے، بم دھماکے اور خود کش حملے معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔مشکل کی اس گھڑی میں قوم ایک دفعہ پھر سیاست کے قلند ر مولانا شاہ احمد نورانی کو پکار رہی ہے کہ وہ آگے آئیں اور ایک بار پھر ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں۔

حالات کے قدموں میں قلند ر نہیں گرتا
ٹوٹے جو ستارہ توذمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کبھی دریا میں سمندر نہیں گرتا۔

Politicians

Politicians

مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی صرف ملک گیر سیاست دان یا عالمی مبلغ نہیں تھے بلکہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ایک ایک عالمی رہنما اور عالمی سیاستدان بھی تھے، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے تن تنہا دنیا میں برپا کئی جنگوں کو اپنی بہترین حکمت عملی، عالمی دور اندیشی، بے مثال سیاسی سوجھ بوجھ اور عالمگیر فہم و دانش کے ادراک سے ختم کیا ۔ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی بیک وقت دنیا کی 33عالمی تنظمیوں کے سربراہ ، سیکرٹری جنرل اور چیئرمین تھے، کئی عالمی تنظیموں کی بنیاد انہوں نے خود رکھی جس میں ورلڈ اسلامک مشن اور دعوت اسلامی بھی ہیں۔

عراق و ایران جنگ میں مولانا نورانی نے دس سال کے قلیل عرصے میں نہ ختم ہونے والی جنگ کو چند ماہ کے مختصر عرصے میں سلجھا دیا، عراق و کویت جنگ کو ختم کروانے کا سہرا بھی مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے سر ہے، عرب ممالک کو مذاکرات کی میز لانے اور مصر کے جمال ناصر کے ذریعے سے عرب لیگ بنانے میں مولانا نورانی کا مرکزی کردار ہے، افریقی براعظم کے درجنوں چھوٹے بڑے ممالک پر مشتمل افریقی لیگ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی خاص حکمت عملیوں کو نتیجہ ہے، صحافی یہ بھی لکھیں کہ جب پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی ضرورت تھی تو اس وقت لیبیا کے صدر معمر القذافی سے اربوں روپے مدد کی صورت میں وصول کروانا مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کا طرہ امتیاز تھا، کشمیر کے معاملے پر سخت ترین موقف اور کشمیر جہاد پر پہلا تاریخی جلسہ جس میں کشمیر جہاد کو ہزاروں علماء کی زبان سے جائزاور حق قرار دلوانا بھی مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کی قیادت کا جز تھا۔

فلسطین کاز کے لئے دنیا بھر کے اسلامی ممالک کو او آئی سی کے پلیٹ فارم سے متحرک کرنا اور فلسطین کاز کے مسلم ممالک کو جہاد کی تیاری کرنے کے لئے میدان کارزار میں کوئی اور شخصیت نہیں بلکہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی تھے، چیچنیا ، بوسنیا اور ہرزہ گوینا کی سلامتی اور آزادی کے لئے وہاں کی آزادی کی تحریکوں کی مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے براہ راست مدد کی اور مشکل حالات میں ان ممالک کے دورے کئے، او آئی سی کی افادیت اس وقت تک تھی جب مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی حیات تھے اور اب یہ عالمی ادارہ عضو معطل کی طرح بیکار ہوچکا ہے،جب امریکہ نے عراق پر حملے کی تیاری کی تو مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی نے جہاد کانفرنس کا انعقاد کر کے ایک لاکھ سے زائد افراد سے جہاد کی بیعت لی اور ہزاروں افراد پوری دنیا سے عراق میں امریکہ کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے۔

آخر میں مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے عالمی تعلقات اور سفارتی مہارت اوربے باک سیاست و بے خوف قیادت کی ایک جھلک پیش کی جاتی ہے کہ مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی سے دنیا کے سو زائد ممالک کے سربراہان اور بیوروکریٹ اور سیاسی رہنما براہ راست رابطے میں تھے، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے دفتر میں ہر روز دنیا کے کئی ممالک کے خطوط، پیغام، دعوت نامے اور اخبارات و رسائل موصول ہوتے، مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کے لئے تقریبا تمام افریقی ممالک میں صدارتی پروٹوکول اور لیبیا، موریشس، عراق، شا، مصر، یمن، خلیجی ممالک اور ملیشیا، انڈونیشیا جیسے ممالک میں خصوصی اعزاز اور وزیر اعلیٰ جیسے پروٹوکول فراہم کئے جاتے تھے، ان کے قریب ترین دوستوں میں عراق کے صدام حسین شہید، لیبیا کے معمر القذافی شہید، مصر کے جمال ناصر، پاکستان کے ذولفقار علی بھٹو، نوابزادہ نصراللہ خان، نواب اکبر بگٹی، ملائشیہ کے مہاتیر محمد، موریشس کے بادشاہ و وزیر اور افریقی یونین کے سربراہ اور شام، مصر، اردن، نائیجیریا کے مشائخ تھے۔

Shah Muhammad Owais Noorani Siddiqui

Shah Muhammad Owais Noorani Siddiqui

تحریر۔ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی
مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء پاکستان