آئی ایم ایف، منی بجٹ اور عوام

IMF and Pakistan

IMF and Pakistan

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
پاکستان کی عوام روز اول سے مختلف آزمائشوں، امتحانوں سے گزر رہی ہے۔ زندگی ہر روز محنت کش عوام کے صبر اور حوصلے کا امتحان لیتی ہے۔ سیاست دان انہیں معاشی ترقی اور مسائل کے حل کے جتنے مرضی جھوٹے سپنے دکھا دیں۔ مہنگائی کا بھوت پوری سچائی کے ساتھ عوام کے سامنے کھڑا ہے۔

پاکستان اس وقت ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اشاروں پر چل رہا ہے، ان کے قرضوں پر چل رہا ہے، بعض تو اسے کہتے ہیں کہ ہمارا ملک خیرات پر چل رہا ہے، اگر ایسا ہے توپھر ان کی اس بات کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے کہ اس نظام میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی انقلاب ہی سیدھی راہ پر ڈال سکتا ہے ۔عالمی دہشت گرد ،اسلام دشمن پاکستان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ،کیونکہ پاکستان ہی دنیا کا واحد ایسا اسلامی ملک ہے، جس کی بنیاد ہی حقیقی معنوں میں اسلامی اْصولوں اور ضابطوں کے مطابق رکھی گئی ہے۔

این جی اوز،آئی ایم ایف اور ورلڈبینک کے پردے میں ملک کو کمزور کیا جا رہا ہے ۔آئی ایم ایف اور ورلڈبینک ملک کی معیشت کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر رہی ہے ۔مجھے یاد ہے گزشتہ بجٹ پر کہا گیا تھا بلکہ وعدہ کیا گیا تھا کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا (آپ بجٹ کے دنوں کی اخبارات دیکھ لیں) لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے ۔حکومت نے وعدہ شکنی فرما کر منی بجٹ پیش کر دیا ہے، حالیہ منی بجٹ پر بات کرنے سے پہلے مختصر ترین آئی ایم ایف کے عالمی کردار پر روشنی ڈالی جائے تو مناسب ہے۔

Inflation

Inflation

آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے1985 میں جب تنزانیہ میں اِس کی معیشت کی ذمہ داری اپنے ہاتھوں میں لی اس کے بعد اس ملک کی معیشت کا یہ حال ہوا کہ یہاں کے لوگوں کی حا لت ز ندگی سطح غربت سے بھی نیچے چلی گئی اور ملک کا سارا نظام تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔اور پھر 1998میںانہی سود خور اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے جب انڈونیشیا میں اپنے قدم رکھے تو یہاں کی معیشت کو غیر مستحکم کرڈالا ۔ اِن دونوں اداروں نے اپنا پڑاؤ2000 میں ارجنٹائن میں ڈالا 2001تک ارجنٹائن میں لوگوں کا یہ حال ہوگیا تھا کہ بہت سے لوگ انسانیت سوز حکومتی اقدامات ،آئی ایم ایف کے خلاف سڑکوں پر نکل کر مظاہرے کرنے لگے ۔جب ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے بولیویا میں اپنے قدم رکھے تو یہاں کی معیشت کا بھی بیڑا غرق ہوگیا۔

میں آئی ایم ایف کی پالیسیوںطریقہ کار کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ اس پر بہت لکھا ،کہا جا چکا ہے ۔کہنا یہ ہے کہ آج ایسا ہی حال ہمارے ملک کا بھی ہوچکا ہے ،یہ بین لاقوامی لٹیرے اپنے پنجے پوری طرح ملک کی معیشت میںگاڑ چکے ہیں اور اَب ہمیں اِن کے چنگل سے آسانی سے نکلنا محال ہے ۔بے بسی کا اندازہ کریں ،سود ی نظام کو اسلام میں اللہ کے خلاف جنگ قرار دیا جا تا ہے، ہماری عدلیہ کہتی ہے، سود لینے والوں سے اللہ پوچھے اور صدر محترم سود کی گنجائش نکالنے کی بات کرتے ہیں ۔آئی ایف کے حکم پر ہمارے ملک میں ٹیکس لگائے جاتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے حکم پر ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے منی بجٹ پیش کرکے عوام پر بم گراتے ہوئے نہ صرف اسے غریب دوست قرار دیا ،بلکہ یہ بھی کہا کہ مہنگائی نہیں بڑھے گی۔حالانکہ اسے عام آدمی کی کمر مزید توڑنے کا اعلان قرار دیا جا سکتا ہے ۔ساتھ ہی فرمایا گیا ہے کہ عام آدمی کے استعمال کی اشیا پر ٹیکس نہیں لگائیں گے۔اور دہی ،مکھن ، شہد ،سگریٹ ، فروٹ، شیمپو ،توٹھ پیسٹ، پرفیوم اور میک اپ کا سامان عام آدمی کے استعمال کی اشیاء نہیں ہیں، عام آدمی سگریٹ نہیں پیتے ،اس لیے سگریٹ پر اضافی ٹیکس لگے گا۔عام خواتین میک اپ نہیں کرتی اس لیے میک اپ مہنگا کیا گیا ہے ۔ جن الیکٹرونس اشیاء پر ٹیکس لگا ہے، ان میں اکثریت ایسی ایشیاء کی ہے، جو جہیز میں دی جاتی ہیں، اب غریب آدمی کے لیے بیٹی دروازے سے اٹھانی بھی مشکل ہو جائے گی ۔ اب اس بات پر کیا کہا جا سکتا ہے کہ جناب وزیر خزانہ نے فرمایا کہ یہ ٹیکس ہم خود مختار ملک کی حیثیت سے لگا رہے ہیں، یعنی آ ئی ایم ایف کے کہنے پر یہ ٹیکس نہیں لگائے گے ۔حالانکہ آئی ایم ایف گزشتہ ماہ سے زور ڈال رہی تھی ۔یہ خبریں اخبارات میں تواتر سے شائع ہوتی رہیں۔

Poor Peoples

Poor Peoples

صنعتی و تجارتی اور زرعی حلقوں نے اس منی بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے ”نامنظور” کا نعرہ لگا دیا ہے ۔عوام کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے مہنگائی کا ایک خوفناک ”طوفان” اٹھے گا ۔اس وقت تو بہت ہنسی آئی جب کہا گیا کہ رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی کے دوران محصولات کی وصولی کا 40 ارب کم ہوئی تھی، تاہم حکومتی اخراجات میں کمی کے باعث خسارہ 27 ارب تک رہا۔یعنی حکومت نے قربانی دی اپنے اخراجات کم کیے ،جس وجہ سے خسارہ کم ہوا، اس پر عوام کو حکومت کا مشکور ہونا چاہیے ۔ویسے وہ مشکور نہ بھی ہو تو کیا کر سکتی ہے ۔اس بات کو سمجھنا تو شائد ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک طرف حکومت اربوں روپے بانٹ رہی ہے اور فضول منصوبہ جات پر خرچ کر رہی ہے ،دوسری طرف کہا جا رہا ہے خسارہ ہوا ہے۔

خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ساٹھ فیصد آبادی والے ملک پاکستان میں آئی ایم ایف کی شرائط پر تیار کردہ بجٹ نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا کر ان کی زندگی کو مزید تلخ کردیا ہے ۔ ملک میں جس قدر بھی مہنگائی ہورہی ہے ، یہ سارا آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ہے ، ہمارے حکمران آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہیں اور آئی ایم ایف اپنا قرض حاصل کرنے کے لیے حکومت کو اشیاء کی قیمتوں میں مہنگائی کرنے کی تجویز دیتا ہے ، جس کو ہماری حکومت لازمی مانتی ہے ۔حکمرانوں کو اِن اداروں کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا اور اِن سے مانگنے اور کھانے کی عادت چھوڑنی ہوگی ورنہ یاد رہے کہ یہ دونوں ادارے آئی ایم ایف اور ورلڈبینک ملک کو ناکام ریاست بنا کر چھوڑیں گے۔

ملک کو اس وقت شدید مالی بحران کا سامنا ہے ، بجٹ خسارہ 600 ارب کے قریب پہنچ گیا ہے ۔ چند روز قبل پاکستان کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ ملک قرضوں پر چلایا جا رہا ہے ، کیا ہمیشہ بھیک مانگ کر ہی گزارا کیا جائے گا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کوئی نہیں ہے ،جو معاملات کو دیکھے اور اپنی ماہرانہ رائے دے ۔ اتنا پڑا ملک ہے، جو اب بھی ہم قرضے لے کر چلا رہے ہیں۔ آپ کے کام کرنے سے زیادہ لفظوں پر مشتمل ہیں۔ براہ مہربانی کر کے اپنے اپنے کام ذمہ داری سے کریں تاکہ غریب عوام کا بھلا ہو سکے۔

Akhtar Sardar Chaudhry

Akhtar Sardar Chaudhry

تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال