جماعة الدعوة کے مرکزی رہنما ،بابا جی ابو الوفاء کی وفات

Jamat Ud Dawa

Jamat Ud Dawa

تحریر: علی عمران شاہین
جماع الدعو کے مرکزی رہنما بابا جی ابو الوفا گزشتہ دنوں وفات پا گئے۔ بابا جی نے جماعت کے قیام کے ساتھ ہی اس کے لئے اپنی خدمات پیش کیں اور آخر دم تک ساتھ دل و جان سے وابستہ رہے۔ باباجی نماز و عبادات کے اتنے پکے تھے کہ انہیں مسجد میں اس طرح آتے جاتے اور مصروف عبادت دیکھ کر پیارے نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث مبارک یاد آ جاتی کہ جس میں آپۖ نے فرمایا تھا کہ ”قیامت والے دن اللہ تعالی 7 قسم کے لوگوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا کرے گا، وہ دن کہ جب اللہ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہو گا جس کادل مسجد کے ساتھ لگا رہتا ہے۔”

یقیناان کے کام میں خیر و برکت اسی لئے سب سے زیادہ تھی کہ وہ نماز کے معاملے میں کبھی کوئی کوتاہی نہ برتتے تھے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں محدثین نے لکھا ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کو کبھی کوئی ذمہ داری نہ دیتے تھے کہ جو نماز میں سستی کا مرتکب پایا جاتا تھا۔فرماتے تھے کہ سارے کاموں میں سے اہم ترین نماز ہی ہے۔ جو اس کا حق ادانہیں کر سکتا ،وہ اس قابل نہیں کہ اسے کوئی اور کام دیا جائے۔ بابا جی ابوالوفا ہم سے رخصت ہی نہیں ہوئے، تحریک دعوت و جہاد کا مرکزجامع مسجد القادسیہ بھی ایک ایسے نمازی اور عبادت گزار سے محروم ہو گیا کہ جس کا کوئی ثانی نہیں ۔

چہرے پہ ہلکی مسکراہٹ سجائے بابا جی ابو الوفا ہر چھوٹے بڑے سے سلام لیتے اور دعائیہ جملے ادا کرتے ہمیشہ ہی دکھائی دیتے۔ انہیں کسی نے بھی کبھی غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ ”ہم لوگوں کے لئے بہترین ہم نشین کون ہے؟” آپۖ نے فرمایا: ”جس کے دیکھنے سے اللہ تعالی کی یاد پیدا ہو، جس کی بات سے علم میں ترقی ہو اور جس کے عمل سے آخرت یاد آجائے۔” ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ”اللہ کے بہترین بندے وہ ہیں جنھیں دیکھ کر خدا یاد آجائے۔”بابا جی اس کی عملی تصویر تھے۔

Pakpattan

Pakpattan

بابا جی کا تعلق ویسے تو پاکپتن سے تھا لیکن ان کا خاندان قیام پاکستان سے پہلے ہی صادق آباد رحیم یار خان، پھر نوکوٹ سندھ میں وسیع زرعی رقبے خرید کر آباد ہوگیا تھا۔ یہیں انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور پھر کراچی چلے گئے۔ 6سال سرکاری ملازمت کے بعدبرطانیہ چلے گئے اور وہاں ملازمت کرتے رہے۔کچھ عرصہ بعد پھر پاکستان آ کر کھیتی باڑی شروع کر دی۔یوںکبھی کھیتی باڑی توکبھی دیگر کام کاروبار، کبھی پاکستان تو کبھی ملک ملک کے چکر۔ کرتے کراتے وہ ایک بار 1988 میں پھر کراچی پہنچ گئے جہاں افغانستان میں جہاد کیلئے جانے کا خیال آیا۔ یوں انہوں نے وہاں پہنچ کر پہاڑوں اور ریگزاروں میں داد شجاعت بھی دی ۔

واپس آئے تو امیر جماع الدعو پروفیسر حافظ محمد سعید نے ان کی امانت، دیانت اور اللہ تعالی سے تعلق و تقوی دیکھ کر جماعت کے شعبہ مالیات کا سربراہ مقرر کر دیا۔ یہ نازک اور حساس ذمہ داری کانٹوں کی ایک ایسی سیج تھا کہ جہاں ہر لمحہ ہر لحظہ مشکلات اور پریشانیاں ہی نہیں، آزمائشیں اور امتحان بھی قدم قدم پر موجود تھے لیکن بابا جی نے قریب قریب ربع صدی اس ذمہ داری کا ایسا حق ادا کیا کہ دنیا سے جاتے وقت بھی ان کا دامن مکمل صاف تھا۔ بابا جی کی کوئی نرینہ اولاد تو نہ تھی۔ اللہ تعالی نے انہیں دو بیٹیاں عطا کی تھیں جن میں سے ایک فوت ہو چکی ہیں تو دوسری اس وقت مرکز طیبہ مریدکے کے العزیز ہسپتال میں ڈاکٹر کے فرائض انجام دے کر خواتین کو طبی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے وہ جماعت کے شعبہ خواتین میں متحرک و فعال کردار ادا کرتی رہی ہیں۔

بابا جی نے کئی نوجوانوں کو اپنے منہ بولے بیٹے قرار دے کر دین کی تعلیم حاصل کرنے پر بھی لگایا تھا جس کا انہیں بے حد شوق تھا۔ ان کے ایک ایسے ہی منہ بولے بیٹے مولانا عبداللہ حنیف بھی ہیں جو جماعت کی مرکزی دعوتی ٹیم میں آج بھی دعوتی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جماعت کے مرکز واقع 5چیمبرلین روڈ پر لاہور کے باورچی خانہ میں خدمت پر مامور تھا۔ قرآن حفظ کر لیا تھا لیکن مزید پڑھائی سے دل اچاٹ تھا۔ بابا جی نے مجھے دیکھ کر پہلے میرے ساتھ اور میرے والدین کے ساتھ بات کر کے مجھے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا اور پھر مجھے دین کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پہلے جامع الدعو الاسلامیہ مرکز طیبہ مریدکے اور پھر جامعہ دارالعلوم محمدیہ لوکوورکشاپ لاہور میں داخل کرا دیا۔ میں نے ایک بار بابا جی کی یادداشتیں دیکھیں تو وہاں لکھا پایا کہ ”اللہ نے مجھے اولاد نرینہ عطا کی تو میں اسے عالم دین بنائوں گا۔” یوں میراعالم دین بننے کا شوق مزید بڑھا اورپھر میں نے دین کی 8سالہ تعلیم مکمل کر کے دعوت کے میدان میں قدم رکھ دیا۔

Honesty

Honesty

بابا جی کی امانت و دیانت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے مجھے (عبداللہ حنیف ) جماعت کے شعبہ مالیات میں قدم بھی نہ رکھنے دیا اور نہ اکائونٹ و آڈٹ کا کام سکھایا کہ کہیں ان پر کوئی حرف نہ آ جائے۔ البتہ اگر کوئی جماعت کا غازی ساتھی انہیں مل جاتا تو اسے باعزت طور پر کسی روزگار پر لگانے کیلئے متحرک ہو جاتے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے انہیں دمے کی تکلیف تھی اور موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی اس کی شدت میں اضافہ ہو جاتا لیکن وہ اپنی اس بیماری اور تکلیف کو کبھی اپنے کام میں رکاوٹ نہ بننے دیتے۔ وہ اپنے ساتھیوں اور امیر محترم پروفیسر حافظ محمد سعید سے بھی کہا کرتے تھے کہ ”اللہ کرے مجھے جماعت اور دین کا کام کرتے کرتے ہی موت آ جائے، یہی میری خوش نصیبی ہو گی۔”اور پھر ایسے ہی ہوا۔

ان کے لئے زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ وہ تھا جب گزشتہ سال ماہ جون میں امریکہ نے انہیں عالمی ”دہشت گردوں” کی فہرست میں شامل کر دیا تھا۔ اس روز ہمیں پتہ چلا کہ ان کا اصل نام محمد حسین گل ہے۔ہمیں پتہ تھا یا نہیں لیکن دین اسلام کے دشمن کو خوب پتہ تھا کہ ان کا نام کیا تھا۔یہ خبر آنے کے بعد جب پروفیسر حافظ محمد سعید نے ان کے ہمراہ پریس کانفرنس کی تھی تو اطمینان ان کے چہرے پر عیاں تھا کہ اللہ کے دین کے دشمنوں نے انہیں اپنا دشمن سمجھا ہے تو ان کا رب ان پر ضرور خوش اور راضی ہو گا۔ تحریک دعوت و جہاد کے ساتھ وابستگی کے بعد انہوں نے اپنا سب کچھ اس کے لئے وقف کر دیا تھا۔

باباجی کے دل میں دین کی تڑپ، محبت اور لگن اتنی تھی کہ جب ہسپتال میں بولنے سے قاصر ہوئے تو لکھ کر دیئے گئے پیغام میں بھی دنیا میں مسلمانوں کی مظلومیت کے خاتمے اور اسلام کے غلبہ کیلئے التجائیں اور دعائیں ہی تھیں۔ آخری ایام میں لاہور کے جس ہسپتال میں صاحب فراش رہے ، اس کے ڈاکٹرز بھی کہنے لگے کہ ہم نے اپنی زندگی میں اس قدر حوصلے اور ہمت والا مریض نہیں دیکھا۔ ہم نے ان کی سانس جاری رکھنے کیلئے ان کی گردن میں کٹ لگا کر نالی لگائی لیکن انہوں نے تکلیف کا اظہار نہیں کیا۔

بستر پر بھی انہیں مصروف عبادت دیکھ کر ہسپتال کا عملہ صبح و شام ان کے پاس آتا اور ان سے دعائیں لیتا۔ تکلیف کی شدت سے آنکھوں سے پانی رواں ہونے لگتا تو انہوں نے منہ بولے بیٹے عبداللہ حنیف کویہ پیغام لکھ کر دیا کہ میرے لئے ایسی دوا کا انتظام کرائو کہ میری آنکھوں سے پانی بند ہو جائے، مبادا کوئی یہ سمجھے کہ میں موت یا بیماری کی تکلیف سے رو رہا ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اپنے آخری پیغام میں انہوں نے جماعت کے امیر سمیت تمام قائدین و کارکنا ن کی محبتوں پر شکریہ ادا کیا اور پھر اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور جنتوں میں اعلی مقام عطا کرے۔

Ali Imran Shaheen

Ali Imran Shaheen

تحریر: علی عمران شاہین