اب عمران کا سامنا خواجہ سعد رفیق سے ہو گا

Imran Khan

Imran Khan

تحریر: سید توقیر زیدی
چودھری نثار خان اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کالج اور کلاس فیلو ہیں۔ ایچی سن کالج میں کرکٹ بھی اکٹھے کھیلتے رہے شاید اسی لئے ایک دوسرے کا لحاظ کرتے ہیں۔ عمران خان نے طویل دھرنا دیا۔ ہلکی پھلکی موسیقی کے سوا کچھ نہ ہوا۔ جبکہ حال ہی میں سنی تحریک کے دھرنے کو جلد ہی مذاکرات پر مجبور کر لیا گیا۔ اس کے بعد اب وزیر داخلہ نے ڈی چوک کا نقشہ ہی تبدیل کرنے کا حکم دیا۔ ادھر عمران خان نے پانامہ لیکس کے حوالے سے دھرنے کی دھمکی دی۔

پہلے تو ڈی چوک کا نام لیا لیکن جلد ہی اسے تبدیل کر کے جاتی عمرہ رائے ونڈ کے گھیراؤ کا اعلان کر دیا۔ آخر تعلق دیرینہ بھی تو کوئی چیز ہے اب یہاں ان کو جواب محترم خواجہ سعد رفیق نے دیا یوں دنگل تو ہے لیکن اکھاڑہ اور پہلوان تبدیل ہو گئے خواجہ سعد رفیق جو خود طالب علمانہ جدوجہد اور ایجی ٹیشن کے ماہر ہیں بول ہی پڑے اور کہا جاتی عمرہ تو ہے ہی ہمیں بنی گالا کا راستہ بھی آتا ہے۔

یوں یہ معرکہ آرائی دوسری شکل اختیار کر گئی بہر حال تحریک انصاف نے فی الحال گھیراؤ کا پروگرام موخر کر دیا ہے کہ پارٹی الیکشن ہو رہے ہیں اور تنظیمی عہدیدار موجود نہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان محاذ آرائی میں کوئی کمی نہیں آئی۔

Saad Rafique

Saad Rafique

دوسری طرف پیپلزپارٹی کی مرکزی حکمت عملی یہ ہے کہ ایسی محاذ آرائی سے گریز کیا جائے جس سے جمہوریت کو کوئی نقصان ہو اس کے لئے لیڈر آف اپوزیشن فرینڈلی سے پازیٹو (مثبت) اپوزیشن ہو گئے ہیں اور انہوں نے تمام تر لڑائی پارلیمینٹ ہی میں لڑنے کا فیصلہ کر لیا اس کے لئے تحریک انصاف سے بات کر کے قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کی صورت اختیار کر لی ہے اور اجلاس میں سخت رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں تحریک انصاف کے بارے میں قائد حزب اختلاف کا رویہ بہتر ہوا لیکن بلاول مرکزی حکمت عملی کا اعادہ کرنے کے باوجود عمران خان کے حوالے سے اپنے تحفظات رکھتے اور برملا اظہار کر رہے ہیں، ان کی طرف سے عمران خان پر تنقید ہو گی تو جواب بھی آئے گا یہ صورت حال ایوان کو متاثر کرے گی۔ اس سے مسلم لیگ (ن) کو فائدہ پہنچے گا۔

مسلم لیگ (ن) یا وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کے ایوان میں دفاع کا فیصلہ کر کے بحث کرائی ہے تو اس سے اس کو فائدہ بھی پہنچا ہے اور تنقید کا رخ تبدیل ہوا کیونکہ ایوان میں پانامہ لیکس پر حقیقت پسندانہ بات بھی ہوئی جو یہ ہے کہ اس سلسلے (آف شور کمپنی) میں مخالفت کا سارا زور صرف شریف خاندان کے خلاف کیوں۔۔۔؟ باقی دو ڈھائی سو افراد کا نام کیوں نہیں لیا جاتا چنانچہ مطالبہ یہ ہے کہ جن کے بھی نام ہیں ان سب کے خلاف تحقیقات ہو، یہ جائز بھی ہے۔

Sharif Family

Sharif Family

اب جو نئی صورت حال پیدا ہوئی۔ اس میں کمشن کے قیام میں رکاوٹ آ گئی کہ ریٹائر ججز کے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ وہ کمشن کا رکن نہیں بننا چاہتے کہ ان کو ابھی سے تنقید کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے رجوع کرنے کے بارے میں غور ہو رہا ہے یوں تو کمشن کسی ریٹائرڈ بڑے سرکاری اہل کار کی نگرانی میں بھی بن سکتا ہے لیکن اسے بھی تسلیم نہ کیا جائے گا۔

اب یہ ذرا لمبا ہوا تو تنقید بھی ہوتی رہے گی۔ تاہم جوں جوں بات آگے جائے گی معاملہ ٹھنڈا پڑتا جائے گا تاخیر حکومت کے حق میں ہے چاہے اس کی وجہ کچھ بھی ہو۔ بہر حال بحران موجود ہے۔ اسے حل کرنے کے لئے پارلیمانی کمشن کی تجویز بھی بہتر ہے کہ بات پارلیمینٹ میں ہو رہی ہے تو کمشن بھی پارلیمینٹ کا ہو کہ یہ سپریم ادارہ ہے۔ اس پر بھی غور کر لینا چاہئے۔

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

Syed Tauqeer Hussain Zaidi

تحریر: سید توقیر زیدی