عمران احتجاج کی کال پر قائم، حکومت کا سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا فیصلہ

Imran Khan

Imran Khan

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان میں حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ اُن کی جماعت دو نومبر کو اسلام آباد میں اپنا احتجاج اور دھرنا ضرور دے گی۔ اُنھوں نے یہ بات جمعہ کو اسلام آباد میں اپنی رہائشگاہ کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہی۔

اُدھر حکومت نے پارلیمانی جماعتوں سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جس میں تین وفاقی وزار پرویز رشید، خواجہ سعد رفیق اور حاصل بزنجو شامل ہیں۔

حکومتی کمیٹی عمران خان کی طرف سے احتجاج کی کال سے نمٹنے اور اس بارے میں متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لیے پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت کرے گی۔

واضح رہے کہ جمعرات کو چیف جسٹس انور جمالی کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے پاناما پیپرز کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات سے متعلق درخواستوں پر وزیراعظم سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کیے تھے۔

عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے علاوہ جماعت اسلامی اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ نے اس معاملے کے بارے میں سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔

رواں سال اپریل میں پاناما لیکس میں وزیراعظم نواز شریف کے تین بچوں، حسین، حسن اور مریم نواز کا نام سامنے آنے کے بعد حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو ہدف تنقید بنایا گیا اور خاص طور تحریک انصاف نے اس معاملے پر ملک گیر احتجاج شروع کیا۔

حکومت میں شامل عہدیداروں کا موقف ہے کہ اب جب کہ سپریم کورٹ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے اور وزیراعظم نے بھی عدالتی کارروائی کا خیر مقدم کر چکے ہیں تو تحریک انصاف کو اپنا احتجاج ترک کر دینا چاہیئے۔

لیکن جمعہ کو جب عمران خان سے اس بارے میں سوال پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ ’’سپریم کورٹ میں تو ابھی پیٹیشن لگی ہے ابھی تو قابل سماعت ہو گی یا نہیں اس کا فیصلہ ہونا ہے۔۔۔ ہمیں پتہ ہونا چاہیئے کہ اصغر خان کا کیس جو شریف خاندان کے خلاف اُس میں بیس سال لگے تھے‘‘۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے ایک مرتبہ پھر اس مطالبے کو دہرایا کہ وزیراعظم نواز شریف خود کو احتساب کے لیے پیش کریں۔

’’دو نومبر کو بڑا بھرپور طریقے سے اسلام آباد کے اندر انسانوں کا سمندر آئے گا، سات مہینے سے ہم کوشش کرتے رہے۔۔۔ انھوں نے ہر راستہ اختیار کیا کہ نواز شریف کا احتساب نا ہو اس لیے یہ کہنا کہ جی اور ٹائم دے دو مذاکرات ہو جائیں ہم اس میں نہیں پڑنے لگے دو تاریخ کو اسلام آباد میں آ کر ہی مذاکرات ہوں گے اب‘‘۔

عمران خان کی طرف سے یہ کہا گیا ہے کہ اُن کی جماعت ائیر پورٹ سمیت وفاقی دارالحکومت کو بند کر دے گی۔ حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کی طرف سے اسلام آباد بند کرنے کے موقف کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔

لیکن یہ واضح نہیں کہ 2014ء کے حکومت مخالف دھرنے کی طرح اس مرتبہ بھی پارلیمانی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں گی یا نہیں۔

پاناما لیکس کے معاملے پر حزب مخالف کی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ تھی لیکن اسلام آباد کو بند کرنے کے معاملے پر عمران خان کی پارٹی کو شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے علاوہ کسی اور پارلیمانی جماعت کی فی الحال حمایت حاصل نہیں ہے۔

اُدھر جمعرات کو وفاقی دارالحکومت کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے ستمبر 2014 میں اسلام آباد میں پاکستان ٹیلی ویژن کی عمارت پر حملے سے متعلق مقدمے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو برقرار رکھتے ہوئے، اُنھیں 17 نومبر تک عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

عمران خان اور طاہر القادری کی جماعتوں نے اگست 2014 میں حکومت کے خلاف لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا اور پھر وفاقی دارالحکومت میں پارلیمنٹ کے سامنے کئی ہفتوں تک دھرنا بھی دیا۔

اس دوران دھرنے میں شریک کچھ افراد سرکاری ٹیلی ویژن کی عمارت میں بھی داخل ہو گئے تھے اور وہاں اُنھوں نے توڑ پھوڑ کی۔