سانحہ پشاور کا ذمہ دار کون ہے

Peshawar Attack

Peshawar Attack

تحریر: سید انور محمود
کچھ تاریخیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن میں یا تو خوشی چھپی ہوتی ہے یا پھرغم۔ پاکستان میں بھی ایسی بہت سی تاریخیں ہیں لیکن پاکستان میں ایک ایسی منحوس تاریخ بھی جس نے ایک بار نہیں دو بار پوری قوم کو رلایا ہے اور وہ ہے 16 دسمبر۔ 16 دسمبر1971ء کو ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس روز پاکستانی قوم کو سانحہ سقوط ڈھاکہ کے غم و اذیت سے دوچار ہونا پڑا اور تینتالیس سال بعد پھر اسی سیاہ دن پاکستانی قوم کو دہشت گردوں کے ہاتھوں سانحہ پشاور کی صورت میں رونا پڑا۔ 16 دسمبر 2014ء کو پشاور کے کینٹ ایریامیں وارسک روڈ پر واقع آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، دہشت گرد اسکول کی پچھلی طرف سے آڈیٹوریم میں داخل ہوئے اور داخل ہوتے ہی بچوں اور اساتذہ پر فائرنگ کردی ۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فوری طور پر کارروائی شروع کی گئی لیکن اُسکے باوجود شہید ہونے والوں کی تعداد 148 ہے، جس میں 132 بچے تھے، زخمی ہونے والوں کی تعداد بھی 124 تھی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اسکول پر حملے میں شامل 27 میں سے 6 دہشت گرد اب تک گرفتار نہیں ہو سکے جبکہ 6 کو پاکستان اور 6 کو افغانستان میں گرفتار کیا گیا، فوج کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے حملہ آوروں کی تعداد 9 بتائی گئی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نےپشاور میں اسکول پر حملے کی ذمے داری قبول کرلی تھی۔ اس سانحہ نے جہاں پوری دنیا کو غمناک کیا، وہیں پاکستانی قوم کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اوردہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمہ کیلئے پوری قوم متحد ہوگئی تھی افسوس اب نہیں ہے۔

شہید ہونے والوں ہونے والوں میں اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی بھی تھیں جن کے پاس موقعہ تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہوجاتیں لیکن انھوں نے اپنے اسکول کے بچوں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور انھوں نے بڑی جرات و ہمت سے دہشت گردوں کو للکارا بزدل دہشت گردوں نے اُنکو شہید کردیا۔ ایک اور خاتون استاد بینش پرویز جوپانچویں کلاس کے بچوں کو پڑھانے پر مامور تھیں، ایک میجر رینک کے آرمی افسر کی بیوی اور تین بچوں کی ماں تھیں، جب دہشت گرد اُن کی کلاس روم میں داخل ہوئے اور اُنہوں نے ڈیسکوں کے نیچے چھپے بچوں کو مارنا شروع کیا تو بینش سے برداشت نہ ہوا اور وہ بے اختیار ان دہشت گردوں پر جھپٹیں، ایک کمزور اورنہتی خاتون استاد کی یہ جرات اور ہمت دہشت گردوں کو پسند نہيں آئی، وہ غضب ناک ہوگئے اور انھوں نے بینش پرویز کو قابوکرکےاُنہیں زندہ جلادیا، بینش پرویز بھی دہشت گردوں کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوہیں۔ آرمی پبلک اسکول کے ایک استاد سعید خان بھی دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوئے، سعید خان کو بھی اُن کے جاننے والوں نے خراج عقیدت پیش کیا، خراج عقیدت پیش کرنے میں بن کتب فاؤنڈیشن بھی شامل ہے جس کا کہنا تھا کہ سعید خان نے ہمیشہ اس ادارے کی عوام کی بھلائی سے متعلق کی جانے والی کوششوں کی حمایت کی۔

دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے حملے کی تحقیقات کے لیے”شہدا فورم” قائم کیا تھا۔ اس فورم میں موجود والدین نے مطالبہ کیا تھا کہ اسکول پر حملے میں ملوث عناصر کی نشاندہی کرکے اُنہیں سزا دی جائے۔ ایک شہیدبچے کی والدہ کا کہنا تھا کہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ پاک افواج اپنے ہی بچوں کو نہ بچاسکی ۔ کہاں گئی آئی ایس آئی، کہاں گیا وزیر داخلہ اور اس کی خبر گیری ۔ اس ملک کے جاہل وزیروں اور دس جماعت پاس مشیروں کی حفاظت کے لیئے دس دس گن مین، اور اسکولوں کی حفاظت کے لیئے ایک گارڈ بھی نہیں۔ طالبان دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہونے والوں میں 10ویں جماعت کے طالب علم اسفند خان کی والدہ مسز شاہانہ اجون نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ والدین کو سکون نہیں آرہا، انہوں نے کہا تھا کہ”وہ اپنے بچوں کی فیس کے ساتھ اسکول کی سکیورٹی فیس بھی دیتے تھے”۔ اُن کا کہنا تھا کہ “اسکول کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری آرمی کی تھی اور اُنہوں نے کیا سکیورٹی کی تھی وہ اس بارے میں والدین کو بتائیں اس کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں”۔مسز شاہانہ اجون کے مطابق اس واقعے کے بعد دھرنے ختم ہو گئے، یوٹرن لیے گئے، مسلم لیگ کی کرسیاں بچ گئیں اور باقی سب اپنی جگہ پر موجود ہیں اور نقصان صرف والدین اور بچوں کا ہوا ہے۔

Peshawar

Peshawar

پشاورجوپہلے ہی ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار تھا، طالبان دہشت گردوں کی آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کی خون کی ہولی کھیلنے سے عام پاکستانیوں کو ایسا شدید نفسیاتی دھچکا لگا ہے جس کے اثرات سے نکلنے میں طویل عرصہ لگے گا۔ ایک سال ہونے کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے کل ہی بات ہے۔ دہشتگردوں نے ایسے ٹارگٹ کا انتخاب کیا، جس سے پورے پاکستان کو خوف میں مبتلا کیا جاسکے اور ایسا ہی ہوا۔جنہوں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا شاید انہیں اس کی خوفناک جھلکیاں ساری زندگی برے خواب کی طرح ستاتی رہے۔ ہمیں اُن والدین کی عظمت کو سلام پیش کرنا چاہئے کہ جنہوں نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو وطن کی مٹی پر قربان کردیا۔ اللہ تعالیٰ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ اب ہمیں مضبوط ارادے سے دہشت گردی کی ہر شکل کو ہر محاذ پر شکست دینا ہوگی ورنہ ناکام قوموں کے قصےتاریخ میں بھرے پڑے ہیں ۔

سولہ دسمبر 2014ء کو ہونے والے حملے کے بعد پاکستان میں کئ مظاہرے ہوئے ،لیکن اسلام آباد میں ہونے ولا مظاہرہ کبھی نہ بھولنے کے نام سے مہم کی صورت اختیار کرگیا، یہ مہم اس وقت شدت اختیار کرگئ جب لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز نے پشاور حملے کی مذمت کرنے سے انکار کردیا، اس موومنٹ نے عبدالعزیز کی گرفتاری کا مطالبہ کیا، حکومت سے دہشتگردی کے خلاف زرہ برابر بھی لچک کا مظاہرہ نہ کرنے کا مطالبہ کیا اور جہادی اور عسکریت پسند سوچ رکھنے والے افراد کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی کے تحت ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ۔ 16 جنوری 2015ء کو “کبھی نہ بھولنا مہم” کے نام سے ملک بھر میں ریلیاں نکالی گئیں ، مظاہرین نے اپنی مساجد کو سنوارو /سدھارو ، خاموشی جرم ہے اور عبدالعزیز کو گرفتار کرو کے نعرے لگائے۔ لاہور میں انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ لیکن لال مسجد کےدہشت گرد ملا عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ وہ پشاور حملے کی مذمت نہیں کرئے گا ، سول سوسایٹی کی طرف سے اُس کے خلاف کئی کیسز بھی دائر کیئے گئے تھے تاہم اس کے باوجود اُس کے ہاتھوں میں ہتکڑیاں پہنانے کی جرا ت کوئی نہ کرسکا۔

سوال یہ ہے کہ” سانحہ پشاور کا ذمہ دار کون ہے؟”، آج ایک سال کے بعد بھی کوئی یہ بتانے کو تیار نہیں کہ ذمہ دار کون ہے۔ یہ پورے کا پورا واقعہ بدترین غیر ذمہ داری کی وجہ سے پیش آیا تھا جس کی وجہ سے طالبان دہشت گرد آسانی سے اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔اس حادثہ کی ذمہ داری سے انٹیلی جنس ایجنسیاں، سیکوریٹی کے ادارے، صوبائی انتظامیہ اور وفاقی حکومت کس طرح اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہیں۔ مگران میں سے کس کس نے اب تک ندامت کا اظہار کیاہے؟ کسی ایک نے بھی نہیں تو پھر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پشاور میں ان طلبا کے قتل عام کے ذمہ دار انٹیلی جنس ایجنسیاں، سیکوریٹی کے ادارے، صوبائی انتظامیہ اور وفاقی حکومت کے ذمہ داران ہیں۔ ان سب نے ان بچوں کو دھوکہ دیا ہے۔ یہ سب اُن شہیدبچوں اور اُن کے والدین اور گھر والوں کے مجرم ہیں۔

Syed Anwar Mehmood

Syed Anwar Mehmood

تحریر: سید انور محمود