بے راہ روی پر گامزن کرتے یہ ڈرامے کون روکے گا

Homosexuality

Homosexuality

تحریر: قدسیہ مدثر، روالپنڈی
نجی ٹی وی پر ایک ڈرامہ دیکھا۔ 2 خواتین کی دوستی دیکھائی گئی اور جب اس میں سے کسی ایک کی شادی ہو جاتی ہے تو دوسری اس کے شوہر سے تعلق بنا کر دوست کا دل میاں سے خراب کرتی ہے، پھر وہ ناراض ہو کر دوبارہ اسی عورت کے پاس آ جاتی ہیں۔ ڈرامے کے آغاز سے اختتام تک 2 عورتوں کے آپس میں تعلقات دیکھائے گئے۔ یہ چیز پہلی بار کسی ڈرامہ میں واضح بتائی گئی۔ ایک عورت کا دوسری عورت سے ایسے تعلقات بنانا جو کہ اس کے شوہر کے تھے ہم جنس پرستی کہلاتے ہیں۔ ہم جنس پرستی کی تحریک کو کھلے عام ڈراموں کے ذریعے پاکستان کے ہر گھر میں پہنچانا کسی خاص ایجنڈے کی طرف پیش قدمی ہے۔ جو اسلامی تعلیمات کے منافی فعل ہے۔

یہ روشن خیال اور سیکولر لابی اپنے بھیانک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان ڈراموں اور اشتہارات کا سہارہ لے کر ہماری نوجوان نسل بے راہ روی کی جانب دھکیل رہی ہے۔ موجودہ نسل جو ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے تجربات کو معاشرے میں وقوع پزیر ہوتا دیکھ رہی ہے۔خواہ وہ اسکولز اور یونیورسٹیز میں سر عام محبت اور اس کے انجام تک کا سفر ہو۔ کم سن بچے کا استانی سے محبت کی پاداش میں خود کشی کر لینا۔ نکاح کو مشکل اور زنا کو چند ٹکوں میں ہوتے دیکھنا۔طلاق جیسے نا پسندیدہ موضوعات کو ڈراموں کے ذریعے ترغیب دیا جانا۔وہاں اس ڈرامے کو نشر کرنا دراصل ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر منظر پر لایا گیا ہے کہ دیکھا جائے یہ بے حس عوام ٹھنڈے پیٹوں ان ایشوز کو بھی ہضم کرنے کی صلاحییت رکھتی ہے کہ نہیںاور اگر عوام میں یہ صلاحیت پائی گئی تو یقیناکچھ ہی دنوں میں اس سے بڑھ کو کوئی نیا ایٹم منظر عام پر آئے گا۔

جس طرح پہلے بسوں میں بیہودہ گانوں کا رواج آیا جب ڈرائیور حضرات نے دیکھا عوام کا رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا تو گانوں کی جگہ وی سی آر نے لے لی۔ جو کھلی فحاشی کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ دراصل پہلے اس طرح کے ایشوز کو منظر عام پر لا کر ٹیسٹ بنایا جاتا ہے اور رد عمل کا انتظار کیا جاتا ہے اور اگر ردعمل سامنے نا آئے تو اس سے بڑھ کر چیز لانے کی پلاننگ کی جاتی ہے۔

کیا کبھی سوچا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے۔ صرف اور صرف ہماری غفلت کی وجہ سے۔ اگر ہم یوں ہی خاموش رہیں گے تو یقینا کشتی کے نیچے والے جب کشتی میں سراخ نکالیں گے کشتی پوری کی پوری ہی ڈوبی گی۔ ہم اس وطن عزیز کی کشتی میں سراخ نکالنے والوں کو منع کرنا چاہیے۔ ایسے موضوعات پر آواز اٹھائیں اور حکومت کی کبوتر کی طرح بند آنکھوں پر سہارے مت تلاش کریں۔ پیمرا کو اس کی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے کہ ٹی وی چینلز کو اصول وضوابط کا پابند بنائے۔

Pakistani Dramas

Pakistani Dramas

ہر ڈرامہ سینسر بورڈ کے ذریعے پاس کروا کر نشر کیا جانا چاہیے۔ کسی چینل کو اسلامی وملی تعلیمات کے منافی اور ہماری اقدار کو پامال کرنے کی جر ات نہیں ہونی چاہیے ۔یاد رکھیں اگر ایسا نا ہو ا تو اللہ نا کرے ”ہمارا حال بھی قوم لوط جیسا نا ہو جو ہم جنس پرستی کے گھناو ¿نے فعل کے سبب اللہ کے عذاب کا نشانہ بنی۔

تحریر: قدسیہ مدثر، روالپنڈی