یوم آزادی پاکستان کا ٧٠ واں سال ١٤ اگست ٢٠١٧ئ

ٍ

Youm-e-Azadi

Youm-e-Azadi

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
الحمدِاللہ پاکستانی قوم آزادی کے ٧٠ویں سال میں داخل ہو گئی ہے۔آزادی بڑی نعمت ہے اس پر جتنی بھی خوشی منائی جائے وہ کم ہے۔پاکستان میں عورت، مرد،بچے، بوڑھے، جوان سب اپنی اپنی خواہشات اور سوچ کے مطابق آزادی کے جشن کو منا رہے ہیں۔ہر طرف پاکستان کے ہلالی پرچموں کی برمار اور بہار ہے ۔ملک کے اندر اور ملک کے باہر خوشی کا سماں ہے۔ بچے اپنے چہروں پر پاکستان کا پرچم بنا رہے ہیں۔ جوان اپنے گھروں پر پرچم لگا رہے ہیں۔ گاڑیوں والے اپنے گاڑیوں پر پرچم لگا ئے ہوئے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پاکستانی عوام کے دلوں میں آزادی کی اہمیت کو اُجگر کر رہے ہیں۔

غرض عوام اور حکومت ہر کوئی اپنی اپنی بساعت کے مطابق جشن آزادی منا رہے ہیں۔ ہم بھی ایک جرنلسٹ ہونے کے ناتے برسوں سے آزادی کے موقعہ پر ایک آدھا کالم لکھ کر آزادی کی مہم میں شامل ہوتے رہے ہیں۔ لیکن اس دفعہ جی ٹی روڈ کامرہ کمپلیکس کے سامنے ایک گائوں میں رہنے والے پاکستان کے ہمدرد، ایک اسلامی ، فلاحی، قائد کے ویژن کے مطابق خوشحال پاکستان اور آزادی کے متوالے دوست نے ہمیں اس بات آمادہ کیا کہ ایک آدھے کالم سے آزادی کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔

آپ کو تحریک آزادیِ پاکستان کی جد وجہد کے سارے پہلوں کو اُجاگر کر کے پاکستانیوں کے سامنے رکھنا چاہیے۔ چناں چہ اس دفعہ ہم نے آزادی پاکستان پر یکم اگست سے آج آخری کالم تک اپنے سات کالموں میں تحریک ِ آزادی پاکستان کی جد وجہد کو اپنی بساعت کے مطابق بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔جس کو پاکستان کے اخبارات نے تسلسل سے شائع کر کے اپنے حصہ کا کام کیا۔ہم نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے کہ جب برصغیر کے مسلمانوں حکمرانوں کی نا اہلیوں، بقول شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال ” میںتجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے۔۔۔ شمشیر و سناں اوّل طائوس و رباب آخر۔ کی وجہ سے برصغیر ،جس پر انہوں نے محمد بن قاسم ثقفی سے لے کر مغل حکمران بہادر شاہ ظفر تک ایک ہزار سالہ حکومت صلیبیوں نے چھینی تو حکمرانی کے مروجہ قاعدے کے مطابق مغلوب قوم یعنی مسلمانوںکی سوچ کو پستی کی ان گہروئیوں تک پہنچا دیا کہ ان کے ذہن ایک قوم کے تصور سے خالی ہو گئے۔

اس میں صلیبیوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل تھے۔ شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال نے مسلمان قوم کو اپنی شاعری کے ذریعے قرآن اورسنت کی روشنی میں پھر سے زندہ کیا اور اقبال کی ہی مشورے سے ہی ایک عظیم شخصیت حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر میں بکھری ہوئی مسلمان قوم کو قرآن اور سنت کی بنیاد پر جمہوری، سیاسی ،دو قومی نظریہ کے مطابق دلائل سے پہلے اکٹھا کیا۔ پھر ان کو اپنے حقیقی حقوق کا سبق یاد کرایا۔ پھر نعرہ مستانہ ” پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ” لگا کر اسلام کی قوت و اتحاد کا مظاہرہ کیا اور برصغیر سے اپنی سورج کوغروب ہوتے دیکھنے والے ا نگریزوں اور اپنی عددی قوت پر ناز کرنے والے ہندوئوں کی سازشوں کو اعلانیہ شکست دے کر دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چھٹی اور اسلامی دنیا میں پہلی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان مثل ِمدینہ ریاست حاصل کی۔ ہم نے اپنے گذشتہ کالوں میںاس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا بھی ذکر بھی کیا۔ کہ قاعد اعظم نے دو دفعہ ٹکڑوں میں تقسیم ہونے والی آل انڈیا مسلم لیگ کی پالیسیوں سے بیزار ہو کر لنڈن چلے گئے۔

پھر علامہ اقبال کی درخواست پر واپس آکر مسلم لیگ کی صدارت پرفائز ہو کر اس کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر اس کے ذریعے مسلمانوں کی قوت کا مظاہرہ کیا۔ کہ کس طرح قائد اعظم نے قراداد مقاصد جو بعد میں قرراداد پاکستان کہلائی ۔ ٢٣ مارچ ١٩٤٠ء کو منٹو پارک لاہور میں مسلمانوں کے لاکھوں کے اجتماع میں منظور کرایا۔ کہ جس کو قائد اعظم کے رفیق کار، لیاقت علی خان نے قرارداد پاکستان کو پاکستان کے آئین میں اساسی طور پر شامل کیا۔آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پرخواتینِ اسلام نے جد وجہد آزدی میں حصہ لیا۔ برصغیر کے مسلمان کہ جن کے صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا پاکستان کی جد وجہد میں صرف اور صرف اسلام کے بابرکت نام پر تحریک آزادیِ پاکستان میں حصہ لیا اور آج تک بھارت میں ہندوئوں کی مظالم برداست کر رہے ہیں۔ لیاقت علی خان کے بعد کس طرح پاکستان کے حکمرانوں نے قائد اعظم کے پاکستان میں اسلامی نظام کو نفاذ کرنے کے ویژن سے دھوکہ کیا اور سیکولرزم کو پاکستان میں پروان چڑایا۔پاکستان کے حکمران جو اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرکے مفر پاکستان علامہ اقبال اور بانی پاکستان قاعد اعظم کی طرح قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرنے کے ،امریکا اور مغربی ملکوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ پاکستان کہ جس کو اللہ تعالی نے چار موسموں سے نوازہ ہے۔ جس میں ایک وقت میں صحرا میں ریت تپ رہی ہوتی ہے تو اسی وقت اس میں موجود دنیا کی دوسری اور تیسری کی بلند و بالا پہاڑی چوٹیوں ہر برف باری ہو رہی ہوتی ہے۔ اس میں پورے سال گرم پانیوں کے سمندر ہیں۔

معدنیات سے مالا ملک ہے۔ مگر اس سے فاہدہ اُٹھانے کے بجائے آئی ایم ایف اور دوسرے اداروں سے قرضے لے لے کر ملک کے ہر فرد کو ایک لاکھ بیس ہزار کا مقروض بنا دیا ہے۔ اس کے وزیر اعظم کو امین و صادق نہ ہونے کی بناپر ملک کی اعلی عدالت نے نا اہل قرار دے دیا اور ان کے خاندان پر کرپشن کے مقدمے قائم کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔صاحبو! اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو اس کی سیاست دان ٧٠ سال سے ایک لاکھ الیکشن میں لگائو۔ کروڑوں کمائو کے کاروبار میں لگے ہوئے ہیں۔ کسی کو بھی قائد اعظم کے اسلامی پاکستان کی فکر نہیں۔ بس پیسے بنانے کی فکر ہے۔

اس کے عوام محنت کش ہیں۔ پوری دنیا میں روزی کمانے کے لیے جاتے ہیں اور زر مبادلہ پاکستان کو کما کر دے رہے ہیں۔ اللہ نے پاکستان کو سب کچھ دیا ہے۔ مگر نا اہل سیاست دانوں نے ملک کو ترقی دینے کے بجائے اس کے خزانے کو لوٹا۔ ہم ٧٠ سال سے حقیقی آزادی سے بہت دور ہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ مفکر پاکستان اور بانی پاکستان کے ویژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم کر دیا جائے۔ پھر اللہ اپنے دعدے کے مطابق آسمان سے رزق نازل کرے گا۔ زمین سے خزانے نکلیں گے۔ پاکستان کے عوام خوش حال ہو گی اسی وقت ہم حقیقی آزادی کا جشن منانے کے قابل ہوں گے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ