14 اگست یوم آزادی پاکستان

Pakistan

Pakistan

تحریر : میر افسر امان
پاکستان اپنی زندگی کے ٧٠ویں یوم آزادی میں داخل ہو گیا ہے دشمن کے عزاہم کے باوجود قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا انشاء اللہ۔ اپنی عمر کے سفر میںاس کے ازلی دشمن نے اسے بڑے بڑے دکھ دیے ہیں۔سب سے بڑا دکھ دشمن کا یہ بیانیہ کہ ہم پاکستان کو توڑ کو واپس اپنے ملک بھارت میں شامل کر کے اکھنڈ بھارت بنائیں گے۔ وہ اس ڈاکٹرائین پر پاکستان بننے کے بعد سے عمل کر رہا ہے۔ تازہ دکھ پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ٨ اگست خود کش حملہ کر کے اس کے٧٢ثپوتوں، جن میں اکثریت وکلا کی تھی کو شہید کر دیا اورسیکڑوں کو زخمی کر دیا۔ پاکستان بنانے والے محمد علی جناع بھی وکیل تھے۔کیا ازلی دشمن نے یوم آزادی موقع پر اس قسم کی سزا دی ہے؟لوگ کہتے ہیں یہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی ناکامی ہے ۔یہ بات بل لکل نامناست ہے۔ اس میں دشمن کے آلہ کار یا پھر پاکستان کے نادان دوست ہیں جو ازلی دشمن کی بولی بول رہے ۔ ان کی اس حرکت پر پاکستان کے میڈیا اور پھر حکومتی سطح پر پارلیمنٹ میں پاکستان کے وزیر داخلہ نے مذمت کی۔کس کو نہیں معلوم کہ ہمارے ازلی دشمن نے پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ کس کو نہیں معلوم کہ پاکستان کے مشرقی حصہ کو پاکستان سے کس نے علیحدہ کیا۔

کس کو نہیں معلوم کہ کس ملک کے وزیراعظم نے کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ ہندوستان پر دور حکومت کا بدلہ لیا ہے۔ کس کو نہیں معلوم کہ کس ملک کے وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ دوقومی نظری میں نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ کس کو نہیں معلوم کہ بنگلہ دیش ، اپنی کالونی کی وزیر اعظم سے بنگلہ دیش بنانے کے عوض سند وصول کرتے ہوئے بھارت کے موجودہ دہشت گرد وزیر اعظم نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنایا ہے۔کس کو نہیں معلوم کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری کو ثبوتاژ کر نے کے لیے اپنے بجٹ میں فنڈ اعلانیہ کس ملک نے مختص کئے۔کسے نہیں معلوم کہ کلبھوش یادیو ، بھارتی نیوی کے حاضر سروس جاسوس کو گرفتار کیا ہے جس نے اعتراف کیا تھا کہ اُسے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے، پاکستان کی فوج کے خلاف رائے عامہ تیار کرنے اور کراچی پاکستان کے معاشی حب میںافراتفری پھیلانے اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کرنا ہے۔

کسے نہیںمعلو م کہ بھارت کے مقامی ایجنٹ،کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ نے عرصہ٣٠ سال سے ظلم، سفاکیت، قتل وغارت، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اورٹھپہ مایا نے افراتفری پھیلائی ہوئی ہے۔کسے نہیں معلوم کہ الطاف حسین را کی ہدایات پر پاکستان کی فوج کو ننگی گالیاں دیتا رہتا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ اسکارٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کے گھرسے منی لانڈرنگ کے ڈالر برآمد کیے تھے جس کا مقدمہ ا بھی تک چل رہا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ الطاف حسین اور لندن کی رابطہ کمیٹی کے ارکان نے بھارت سے ڈالر لینے کا اعتراف کیا ہوا ہے۔کسے نہیں معلوم کہ الطاف حسین نے پیپلز پارٹی کے منحرف لیڈرذوالفقار مرزا کے سامنے کہا تھا کہ امریکا پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے اور میں امریکا کا ساتھ دوں گا۔

Tony Blair

Tony Blair

کسے نہیں معلو م کہ الطاف حسین نے برطانیہ کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر کو اپنے لیٹر پیڈ پر خط لکھا تھا کہ برطانیہ پاکستان کی آئی ایس آئی کو ختم کرے میں برطانیہ کی مدد کروں گا۔کسے نہیں معلوم کہ بھارت نے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ شہروں میں درجنوں کونسل خانے قائم کیے ہوئے ہیں جن کے ذریعے وہ افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گرد انہ حملے کروا رہا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ بھارت میں اگر پتہ بھی ہلتا تو اس دہشت گردی کا الزام بغیر ثبوت کے پاکستان پر لگا دیاجاتا ہے۔کسے نہیں معلوم کشمیر میں خود کشمیریوں نے آزادی کی تحریک برپاہ کی ہوئی ہے اور بھارت اس تحریک کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے اوردھمکی دیتا ہے کہ کشمیر کو بھول جائو کراچی کی فکر کرو۔کیا کیابیان کیا جائے۔ یہ سب باتیں ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کو عام آدمیوں سے زیادہ اچھے طریقے سے معلوم ہیں۔ آئے دن ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کے لوگ ملک کو را سے بچانے کے لیے شہید ہو رہے۔

ہمارے ملک کے وزیر اعظم کو بھی یہ باتیں اچھی طرح معلوم ہیں اس لیے تو اس نے اقوام متحدہ اور دنیا کے آزاد ملکوں کو را کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت بھی پیش کئے تھے۔ یہ ساری باتیں ہمارے وزیر داخلہ کو بھی موجود ہیں۔ اسی لیے تووہ رینجرز کی سندھ میں تعیناتی کی پس پیش کے معاملے میں سندھ حکومت سے سختی سے پیش آتے ہیں سندھ حکومت ہمیشہ وزیر داخلہ سے ناخوش ہوتی ہے اور تا حال ناخوش ہے۔اگر یہ سب کچھ حکومت کے تمام لوگوں کو معلوم ہے تو اس پر قابو کیوں نہیں پایا جا سکا۔ صاحبو!جو اقدام کیے گئے ہیں ان پر صرف تیزی لانے کی ضرورت ہے لہٰذا اس کا اس سال کے یوم آزادی کے موقعہ پر یہ جواب یہ ہے کہ ہماری حکومت نے اپنے ازلی دشمن بھارت کے جو جارحانہ رویہ کے ساتھ معذرتخوانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے اسے فوراً تبدیل کر کے جارحانہ رویہ رکھا جائے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔

بھارت نے پاکستان اور کشمیر کی سرحد پر سیکورٹی باڑ لگائی ہوئی ہے۔ہمیں بھی فوراً افغانستان کے باڈر پر باڑ لگانی چاہیے تاکہ بھارت کی شہ پر پاکستان میں دہشت گردی کی روک تھام ہو۔افغان مہاجرین جو رجسٹرڈ نہیں ہیں انہیں کیمپوں تک محدود کیا جائے اور ان کی اقوم متحدہ سے مل کر باعزت واپسی جلد ازجلد ممکن بنائی جائے۔کشمیری مظلموں کی کھل کر مدد کی جائے اور پوری دنیا میں سفارت خانوں میں کشمیر سیل قائم کر کے اقوام متحدہ کی رائے شماری کے متعلق قراردادوں کی تشہر کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ بھارت کے مظالم کو دنیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سامنے پیش کر کے ان کی حمایت حاصل کی جائے۔

United Nations

United Nations

اسلامی تنظیم کانفرنس کا اجلاس بلا کر اس کے سامنے بھارت کے کشمیر کی مظالم رکھیں جائیں ۔اقوام متحدہ کی حمایت حاصل کر کے کشمیریوں کو طبعی امداد پہنچانے کی کو شش کی جائے۔نیشنل ایکشن پلان پر عمل تیز کیا جائے۔ صوبائی ایپکس کمیٹیوں کے اجلاس بلا کر ضرب عضب ، کراچی کے ٹارگیٹڈ آپریشن اور کومبنگ آپریشن کو پورے پاکستان میں مذید تیز کیا جائے۔ دہشت گرد لسانی تنظیم کے قومی اور صوبائی ممبران کو الطاف حسین کی تقریر و تصویر کی طرح میڈیا کے ٹاک شوز میں پیش ہونے سے روکا جائے۔ وہ ٹی و ی شوز میں جھوٹ کا سہارہ لے کر پاکستان کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم پر پابندی لگائی جائے۔ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اس لیے پاکستان کی مسلح افواج اور سیکورٹی اداروں پر تنقید کرنے والے پر سختی سے پاکستان کے آئین مطابق کاروائی کی جائے۔وزیر اعظم صاحب اور سپہ سالار سر جوڑ کر بیٹھیں اور ملک دشمنوں کی طرف سے پھیلائی گئی افوائیں کہ فوج اور سیاسی قیادت ایک پیج پر نہیں کو زائل کریں۔ اعلی سطح کے سیکورٹی اجلاس کے بعد وزیر اعظم نے کہا دہشت گردوں سے سختی سے نپٹاجائے گا خوش آہند ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کی مانیٹرنگ کے لیے ٹاسک فورس بنانے کا فیصلہ بھی کیا گیا جو ایک قدم ہے۔ اپوزیشن اور حکومتی پارٹیوں کو پاکستان میں دہشت گرد حملوں پر یک جان ہو کر دشمن کو سخت پیغام دینا چاہیے۔ صاحبو!اگر پاکستان کو سیکولر بنانا تھا تو پھر دوقومی نظریہ کیوں پیش کیا گیا تھا۔ پھر پاکستان بنتے وقت ،پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ کیوں لگا یا گیا تھا۔کیوں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کے اور ہندوئوں کا مہذب علیحدہ، اس کے ہیرو علیحدہ، ان کی رمزیہ نظمیں علیحدہ،ان کی تاریخ میں ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست ہے۔ یہ سب باتیں قائد محترم نے پاکستان بننے کے دوران دنیا کے سامنے کہیں تھیں اور صحیح کی تھیں کہ یہی دو قومی نظریہ ہے۔

دو قومی نظریہ کی تشریع کرتے ہوئے قائد نے ٢٢ مارچ ١٩٤٠ء کو مسلم لیگ کے ٩٧ویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہو ر میں فرمایااسلام اور ہندو مت دو معاشرتی نظام ہیں۔یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔ ایک دسترخوان پر کھانہ نہیں کھاتے۔ان کی رمزیہ داستانیں، ہیرو، قصے اور تاریخ الگ الگ ہیں۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے دشمن ہیں۔ایک کی فتح دوسرے کی شکست ہے۔قومیت کی ہر تعریف سے مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ان کے پاس اپنا وطن ، اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ضرو ہونی چاہیے ” لہٰذا س سال کی آزادی کے موقعہ پر ہم قائد کے ویژن کے مطابق ملک میں اسلامی نفاذ کا اعلان کر دیں ۔ کیوں کہ قائد اعظم نے کہا تھا کہ ہم پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں۔یہی ازلی دشمن بھارت کو پیغام ہو گا۔اسی سے پاکستان مستحکم ہو گا۔ اللہ ہمارے پاکستان کا محافظ ہو آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان