بھارتی کشمیر میں حکومت مخالف کارروائیوں پر بارہ سرکاری ملازم برطرف

Kashmir Protest

Kashmir Protest

بھارتی کشمیر (جیوڈیسک) بھارتی کشمیر کی حکومت نے 12 افسروں کو بھارت مخالف کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات پر برطرف کردیا ہے۔ ان الزامات میں ریاست میں بے چینی کو ہوا دینا بھی شامل ہے۔

سری نگر میں سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ مزید ایک سو عہدے داروں پر گہری نظر رکھی جارہی ہے اور برطرفیوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

جن افسروں کو برطرف کیا گیا ہے، وہ درمیانی سطح کے عہدے دار ہیں اور ان کا تعلق مختلف محکموں سے ہے جن میں محکمہ مال اور تعلیم شامل ہیں۔

سری نگر میں حکام نے کہا ہے کہ محبوبہ مفتی کی حکومت نے 12 عہدے داروں کو جرائم کی تحقیقات سے متعلق بھارتی کشمیر کے محکمے سی آئی ڈی کی رپورٹ پر نکالا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر پر پبلک سیفٹی ایکٹ کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ اس قانون کے تحت لوگوں کو بغیر کوئی مقدمہ چلائے چھ مہینے تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔

مسلم اکثریت کی ریاست جموں وکشمیر میں جولائی میں ایک مقبول کمانڈر برہان مظفر وانی کی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 104 تک پہنچ گئی ہے۔

ایک اور خبر کے مطابق بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں بھارت کی سرحدی محافظ فورس بی ایس ایف نے کہا ہے کہ جمعرات کے روز اس کے فوجیوں نے بین الاقوامی سرحد کے قریب چھوٹے ہتھیاروں سے شدید لڑائی کے بعد چھ عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کی ملک میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنا دی۔

بی ایس ایف کے ایک عہدے دار کے مطابق عسکریت پسند گروپ نے 198 کلو میٹر لمبی سرحد عبور کرنے کے بعد ایک فوجی گاڑی پر راکٹوں اور دیگر ہتھیاروں سے حملہ کیا جسے ناکام بنا دیا گیا۔

اس روزسرحد کے دونوں جانب سے فورسز کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کا إلزام دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر عائد کیا۔