بھارت کو ترجیح اور پاکستان کو نظر انداز

Modi and Obama

Modi and Obama

تحریر : محمد اشفاق راجا
امریکہ کی طرف سے بھارت کو ترجیح اور پاکستان کو نظر انداز کرنا قرینِ انصاف نہیں۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے روس، نیوزی لینڈ اور کوریا کے وزرائے خارجہ کو ٹیلی فون کر کے ان سے نیو کلیئر سپلائر گروپ (این ایس جی) میں پاکستان کی شمولیت پر حمایت طلب کی، جس کا مثبت جواب ملا ہے۔ تینوں ملکوں نے غیر امتیازی طریقِ کار پر پاکستانی موقف کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کئے،لیکن بھارت کے اِس پہلو کو نظر انداز کر کے این ایس جی میں اس کی شمولیت کی حمایت کی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان بھی رکنیت کا امیدوار ہے اور این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے اْسے رکنیت نہیں دی جا رہی۔

یہ امتیازی سلوک ختم کرنے کے لئے پاکستان دْنیا کے ملکوں کو اپنے موقف سے آگاہ کر رہا ہے۔ غیر ملکی سفیروں کو اِس معاملے پر وزارتِ خارجہ نے بریفنگ بھی دی۔ سفیروں کو بتایا گیا کہ کسی ایک مْلک کو رعایت دینے کے جنوبی ایشیا کے سٹرٹیجک استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سفارت کاروں کو بتایا گیا کہ پاکستان کا ٹیکنیکل تجربہ، صلاحیت اور ایٹمی عدم پھیلاؤ کے حوالے سے عزم کے ساتھ ساتھ نیو کلیئر سیکیورٹی کا مضبوط نظام اِس حوالے سے ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ دفتر خارجہ کی بریفنگ میں این ایس جی کے رْکن ملکوں پر زور دیا گیا کہ وہ این پی ٹی کے غیر رکن ممالک کے لئے غیر امتیازی طریقِ کار اختیار کریں۔

بھارت اور امریکہ کے تعلقات گزشتہ چند برسوں سے جس رْخ پر استوار ہو رہے ہیں اور بھارت جس طرح اپنے دیرینہ مربی روس کے حلقہ اثر سے نکل کر امریکہ کے سایہ عاطفت میں پناہ لے چکا ہے، اْس وقت سے امریکی حکام بھارت کے صدقے واری جا رہے ہیں اور پاکستان کے متعلق مودی جو پٹی اوباما کو پڑھا دیتے ہیں، امریکی دفتر خارجہ وہی زبان بول دیتا ہے، حالانکہ امریکہ سے زیادہ کس کو معلوم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا کیا کردار ہے؟ پاکستان کو اِس جنگ میں جتنا جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، دْنیا کے کسی دوسرے مْلک کو اِس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہوا ، لیکن امریکہ بھارت پر تو مہربانیاں کرتا چلا جا رہا ہے اور اس کی اسلحہ فیکٹریاں بھارت منتقل ہو رہی ہیں، جدید لڑاکا طیارے بھی بھارت کو فروخت کئے جا رہے ہیں۔ امریکہ بھارت کو نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت دِلانے پر بھی تْلا بیٹھا ہے اور اِس سلسلے میں یہ بات بھی نظر انداز کر دی گئی ہے کہ بھارت نے این پی ٹی کے معاہدے پر دستخط نہیں کئے۔

India

India

اِس معاہدے پر دستخط نہ کرنے کے باوجود اگر بھارت کو رْکن بنانے کے لئے کوششیں جاری ہیں تو پھر پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟ پاکستان کو این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کی سزا گروپ کے دروازے پاکستان پر بند کر کے دی جا رہی ہے، جبکہ بھارت پر اس کے دروازے کھولے جا رہے ہیں، یہ دو عملی بڑی واضح ہے ، اگر بھارت کو رکنیت دے دی گئی تو جنوبی ایشیا کا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ امریکہ جس طرح کھل کر بھارت کی حمایت پر اْتر آیا ہے، اِس کے بعد بہت سے دوسرے ملکوں نے اپنی حمایت کا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے، تاہم چین پاکستان کی حمایت میں ڈٹا ہوا ہے اور اس کا جائز اور درست موقف یہ ہے کہ اگر این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے کسی دوسرے مْلک کو رکنیت نہیں دینی تو پھر دونوں ملکوں کو ایک ہی ترازو میں تولا جائے۔ بھارت کو ترجیح اور پاکستان کو نظر انداز کرنا قرینِ انصاف نہیں۔

پاکستان کو خطے میں امریکہ کی تازہ ترین پالیسیوں پر شدید تحفظات ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات میں اِن پالیسیوں کے پاکستان اور خطے پر اثرات بھی زیر بحث آئیں گے، ڈرون حملوں کو پاکستان اپنی سالمیت کے خلاف تصور کرتا ہے۔ اسی طرح امریکہ نے پاکستان کو آٹھ ایف16طیارے فروخت کرنے کا معاہدہ کیا، اس کی ادائیگی کی تفصیلات بھی اس معاہدے میں طے کر دی گئی تھیں، لیکن کانگرس کے بعض ارکان نے بھارتی لابی کے زیر اثر آ کر کانگرس کے ذریعے اوباما انتظامیہ کو پابند کر دیا کہ وہ ایف16طیاروں کی پوری قیمت نقد وصول کرے، حالانکہ اس سے پہلے طویل مذاکرات میں ادائیگی کا جو طریقِ کار طے ہوا تھا معاہدہ اس کے مطابق ہوا تھا۔ اِس ضمن میں اوباما انتظامیہ زبانی کلامی تو پاکستان کی حمایت کرتی رہی، لیکن عملاً ایف16طیاروں کا سودا منسوخ ہو گیا۔امریکی حکومت کے اس فیصلے سے پاکستان کو مایوسی ہوئی، کیونکہ پاکستان جس آپریشن ضربِ عضب میں مصروف ہے ،اس میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لئے یہ طیارے درکار تھے۔ پاکستان اور امریکہ کے مذاکرات میں نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا، اس مسئلے پر امریکہ بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے یہ ڈینگ بھی ماری ہے کہ پاکستان اور چین کو علاقے کا چودھری نہیں بننے دیا جائے گا۔ یہ بھی بھارت کے خبثِ باطن کا مظاہرہ ہے، جس کا ایک اظہار نریندر مودی پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت کر کے بھی کر چکے ہیں۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے ،وہ نہ صرف خطے، بلکہ دْنیا کی بڑی سیاسی اور اقتصادی طاقت ہے۔۔۔ دْنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور خود بھارت کے اندر چین20ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔چین دْنیا کی ایسی بڑی طاقت ہے جو عالمی اور علاقائی، سیاسی و فوجی تنازعات میں اْلجھنا پسند نہیں کرتا، اقتصادیات اس کی پہلی ترجیح ہے ،وہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کو نظر انداز کر کے وہاں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔دراصل مودی نے چین کے خلاف جن جذبات کا اظہار کیا ہے، وہ اِس وجہ سے ہے کہ چین کے جاندار اور ٹھوس کردار کی وجہ سے بھارت کو نیو کلیئر سپلائر گروپ کی رکنیت ملنا آسان نہیں رہا۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈال کر اسے احساس دلایا جائے کہ پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک کی کوششیں خطے کے استحکام کے لئے بہتر نہیں ہوں گی۔

Muhammad Ashfaq Raja

Muhammad Ashfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا