انڈونیشیا میں سزائے موت کے پاکستانی قیدی کو بچانے کی سفارتی کوششیں

Indonesia Police

Indonesia Police

اسلام آباد (جیوڈیسک) انڈونیشیا میں منشیات رکھنے کے الزام میں سزائے موت پانے والے ایک پاکستانی شہری کی سزا پر عملدرآمد رکوانے کے لیے پاکستان نے اپنی سفارتی کوششوں کو تیز کر دیا ہے جب کہ انسانی حقوق سے متعلق قانونی معاونت فراہم کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم “جسٹس پراجیکٹ پاکستان” (جے پی پی) نے صدر مملکت سے درخواست کی ہے کہ وہ “ایک بے گناہ پاکستانی شہری” کی جان بچانے کے لیے انڈونیشیا کی حکومت سے اس معاملے کو اٹھائیں۔

52 سالہ ذوالفقار علی کو نومبر 2004ء میں جکارتا سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر 300 گرام ہیروئن رکھنے کا الزام تھا۔ اس مقدمے میں شریک ملزم گردیپ سنگھ نے ذوالفقار کے خلاف دیا جانے والا اپنا بیان یہ کہہ کر واپس لے لیا تھا کہ یہ اس سے زبردستی لیا گیا تھا۔

پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز ان دنوں جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں کی تنظیم “آسیان” کے اجلاس میں شرکت کے لیے لاؤس میں ہیں اور اطلاعات کے مطابق انھوں نے وہاں اپنے انڈونیشیائی ہم منصب ریٹنو مرسودی سے ملاقات میں ذوالفقار کے معاملے پر بات چیت کی۔

اسلام آباد میں تعینات انڈونیشیا کے سفیر سیودھئی امری کو بھی دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور انھیں اس معاملے پر پاکستانی تشویش سے اپنی حکومت کے عہدیداروں کو مطلع کرنے کا کہا گیا۔

12 سال سے قید کاٹنے والے ذوالفقار علی کی سزائے موت پر عملدرآمد کی حتمی تاریخ تو تاحال سامنے نہیں آئی لیکن شائع شدہ اطلاعات کے مطابق اس پر کسی بھی وقت عملدرآمد ہو سکتا ہے اور ان کے اہل خانہ کو 72 گھنٹے پہلے اس سے آگاہ کر دیا جائے گا۔

جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے مطابق انڈونیشیا کی پولیس مبینہ طور پر اس پاکستانی شہری کے خلاف ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہی ہے اور انھیں شفاف عدالتی کارروائی کے حق سے بھی مبینہ طور پر محروم رکھا گیا جب کہ دوران حراست ذوالفقار کو “بدترین تشدد” کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے علی چھ بچوں کے والد ہیں اور ان کی اہلیہ نے بھی حکومت پاکستان سے اپنے شوہر کو بچانے کے لیے درخواست کی ہے۔