معلومات تک رسائی کا قانون اور عوامی فوائد

Access to Information

Access to Information

تحریر : محمد شفیع ثاقب
جمہوری عمل میں معلومات تک رسائی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، معلومات تک رسائی کی بابت بہتر طرزِ حکمرانی، کرپشن میں خاطر خواہ کمی اور حکومتی اداروں پر عوامی اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ 1946 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پہلے سیشن میں معلومات تک عوامی رسائی (حقِ معلومات) کو بطور بنیادی انسانی حق قراردیا جس کو یو ۔این کی قرارداد( (59-I کے تحت پوری دنیا میں بطورانسانی حق برائے آزادیِ معلومات درج کیا گیا ہے۔

مجھے یہ بات واقعی فخر سے کہنے میں کوئی مذائقہ نہ ہے کہ پاکستانی قوم کو یہ حق اپنی آزادی کے بعد آدھی صدی گذرنے کے بعد حاصل ہو ا ہے! خیر بعض لوگوں کو تو میری اس پات سے بھی اختلاف ہوگا گہ ہم ایک آزاد قوم ہیں ، جبکہ بہت سے حلقے اس کے بر عکس ہیں،یہ واقعی حقیقت ہے کہ پاکستان سائوتھ ایشا ء کا پہلا ملک ہے جس میں معلومات تک عوامی رسائی کے قانون کی 2002میں بنیادرکھی یہ قانون مشرف کے دورِ حکومت میں لاگو کیا کیا جو کہ بنیادی اعتبارسے خاطر خواہ کمزور ترین تھا بعد ازاں 2005میں بلو چستان اور2006میں سندھ میں بھی اسی طرح کے قوانین متعارف کروائے گئے جو کہ غیر مفید ثابت ہوئے۔

2010میں پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے معلومات تک رسائی پاکستانی شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کیا گیاہے اس کے بعداس پر موئثر قانون سازی کی گئی جس کے نتیجہ میں 2013میں پاکستان کے دو صوبوںجن میں خیبر پختونخواںاور پنجاب نے باقاعدہ Act (RTI) Right to Information کی بنیاد رکھی جو کہ KPKمیں RTI 2013 اور پنجاب میں Transperancy and Right to Information Act 2013 وجود میں آیا۔RTI کی اہمیت کو واقع ہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جہاں تک کرپشن کے خاتمے کا سوال ہے یہ قانون حقیقت میں کافی حد تک کارآمد اور موئثر ہے جیسا کہ راناانور صاحب جن کا شمارپاکستان کے سینئیر ترین وکلا میں ہوتا ہے جو کہ سیاسی و سماجی رہنما ہیں جو پاکستان کی موجودہ صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں ، انکا کہنا ہے کہ یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ نئے قوانین کا بننا عوام کیلئے ریلیف کا بہترین موجد ثابت ہو سکتا ہے معلومات تک رسائی کا حق ہر پاکستانی شہری کو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19-Aکے تحت فراہم کیا گیا ہے ، جیسا کہ کینڈا کے ادارے سینٹر فار ڈیموکریسی کے ایگزیکٹو) (Toby Mendel نے کہا ہے کہ پاکستان میں RTI کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے جس کے ذریعے عوام کو آزادیِ معلومات کا جو حق دیا گیا ہے اسی وجہ سے یہ قانون دنیا بھر میں بہترین رینکنگ حاصل کر پایا ہے۔

اگر پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی مروجہ طریقہ سے اس قانون کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے تو پاکستان میکسیکو اور سربیا کے مقابلے میں دنیا بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کر لے گا ،رانا صاحب نے اس قانون کی اہمیت کے بارے میں بتایا کہ اس قانون کے ذریعے اب عام شہری حکومتی اداروں کے متعلق معلومات حاصل کرسکتا جو قا نونی اعتبار سے اسکا حق تصور کیا جائے گا،اس قانون کے لاگو ہونے کے بعد ہر حکومتی ادارے میں ایک پبلک انفارمیشن آفیسر مقرر کیا گیاہے جو کہ عوام کو ہر طرح کی معلومات فراہم کرنے کا پابند ہو گا جس کے بارے میں شہری سادہ کاغذ پر ایک درخواست متعلقہ ادارہ کے سربراہ کے نام لکھے گا ، درخواست دہندہ دی گئی درخواست کے متعلق کسی بھی قسم کی وضاحت کا پابند نہیں ہوگا،درخواست دہندہ کو انفارمیشن آفیسر رسید جاری کرنے کا پابند ہوگا ، صوبہ پنجاب میں دی گئی درخواست پر سرکاری ادارہ 14دن کے اندر جواب دینے کا پابند ہوگاجبکہ KPKمیں یہ مدت 10 دن ہے اگر یہ معلومات کسی بھی جانی ومالی نقصان سے بچائو کے متعلق ہیں تو یہ معلومات دو ایام کے اندر فراہم کی جائیں گیں۔

Corruption

Corruption

درخواست دہندہ کیلئے یہ جاننابھی ضروری ہے کہ وہ کن معاملات میں سرکاری ادارہ سے معلومات حاصل کرسکتا ہے جن میں حکومتی قوانین، ذیلی قوانین، نو ٹیفیکیشنز، حکومتی پالیسیاں،راہنما اصول اور حکومت کے جاری کردہ احکامات، کسی بھی سرکاری ادارہ کے اختیارات و فرائض جوکہ عوام کیلئے مہیا کردہ سہولیات کے متعلق ہوں،کسی بھی ادارہ کے اپنے فرائض کی ادائیگی کیلئے بنایا گیا بجٹ اور اخراجات کی تفصیل ،لائسنسوں کے اجراء کے بارے میں معلو مات ،پرمٹ اورایسے معاہدات جو کسی سرکاری اداروں نے کئے ہوں، اس کے علاوہ درخواست دہندہ کیلئے یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ جن معلات میں وہ سرکاری اداروں سے معلومات حاصل نہیں کر سکتا جن میں ایسی معلومات جو کہ بین لاقوامی تعلقات یا قومی سلامتی کے ایسے معاملات جن سے شدید اور نا قابل تلافی خطرہ لاحق ہو،ایسی معلومات جس سے کسی شخص کو جانی نقصان کا خطرہ لاحق ہو،وہ معلومات جس کو مکمل طور پر قانونی تحفظ حاصل ہو چکا ہواور ایسی معلومات جوکہ حکومت کی معشیت سنبھالنے کی صلاحیت سے متعلقہ ہو ان کے بارے میں پبلک انفارمیشں آفیسر معلو مات فراہم کرنے کا پا بند نہ ہو گا اور ان پر RTIکا اطلاق نہ ہوگا۔ 2013 سے RTI کے قوانین کا اطلاق صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواں میں ہو چکا ہے جس کے مطابق یہ ضروری ہے کہ اس قانون کے لاگو ہونے کے 60 دن کے اندراندرصوبہ پنجاب میں جبکہ 120دنوں کے اندر اندر صوبہ خیبر پختونخواں میں تمام سرکاری محکمہ جات کو پابندکیا گیا ہے کہ وہ اپنے محکمہ میں کسی بھی آفیسر کو بطور پبلک انفارمیشن آفیسر مقرر و نامزد کریں تا کہ اس ایکٹ کے تحت درخواستیں دی جا سکیں۔

پبلک انفارمیشن آفیسر کی تعیناتی عوام تک معلومات کو یقینی بنانے لئے عمل میں لائی گئی ہے اور مقرر کردہ آفیسر اس بات کا پابند ہے کہ وہ عوام کے وسیع تر مفاد میں درخواست کردہ معلومات فراہم کرے جس سے حکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ محکموں کی جانب سے اوور چارجنگ، کلیریکل فیسز کا خاتمہ جو کہ کرپشن کی بنیادی وجوہات ہیں،RTIکے تحت عوام الناس کو یہ اختیار مل چکا ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے حکوتی اداروں کے اہلکاروں کا احتساب کر سکیں مثلاََکسی کام کی غرض سے اگر ادارہ سائل کو گمراہ کرتا ہے یا اضافی رقم بٹورنی چاہتا ہے تو عوام کو حق حاصل ہے کہ اس کے متعلق ادارہ کے انفارمیشن آفیسر سے یہ معلومات حاصل کرے تا کہ یہ معلومات ایک قانونی حثیت کی دبدولت کسی بھی وقت بطور ثبوت پیش کی جا سکے اور موقع پر کرپٹ افسران کا محاسبہ کیا جا سکے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے بنائے گئے معلومات تک رسائی کے قوانین انتہائی موضوع اور مفید ہیں جیسا کہ سینئر ایڈووکیٹ جناب رانا انور صاحب نے بیان کیا جوکہ انٹر نیشنل شہرت یافتہ ماہر قانون ہیں ،میں مکمل طور پر اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اس طرح کے قوانین کا پاکستان میں وجود میں آنااس بات کی واضع شہادت ہے کہ حکومت کسی حد تک عوامی مسائل کے حق کیلئے سنجیدہ ہے خواہ ایسے اقدامات بیرونی دبائو میں کیئے جارہے ہیںجن سے جمہوریت کی راہ ہموار ہو۔بیشک اگر پاکستانی عوام ان قوانین پر عمل پیرا ہوتی ہے تو یقیناََحکومتی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتاہے اس طرح کے مزیدقوانین مستقبل میں حکومتی اداروں کا بروقت احتساب اور حکومت کی عوام دوست پالیسیاں مرتب کرنے کیلئے انتہائی اہم ترین اقدام تصور کیا جائے گا جو کہ عوامی مفاداورجمہوری اقدار کو تقویت بخشے گا جس سے عوام کا حکومت پر اعتماد بڑھے گا جوکہ ملکی سالمیت کیلئے ایک خوش آئند بات ہے۔

Mohammad Shafi Saqib

Mohammad Shafi Saqib

تحریر : محمد شفیع ثاقب