کون بدلے گا نظام

Changes

Changes

تحریر : منظور احمد فریدی

اللہ کریم جل شانہ کی بے پناہ حمد ثناء ذات کبریا جناب محمد مصطفی رحمة للعالمین پر درودوسلام کے نذرانے پیش کر کے راقم نے حالیہ ملکی انتخابات میں اپنے ذاتی مشاہدہ اور تجربہ کی بنیاد پر چند سطور قارئین کے لیے ترتیب دی ہیں قارئین کی میٹھی کڑوی آراء کا انتظار رہے گا۔

وطن عزیز ملک پاکستان اقبال کا اسلامی جمہوریہ پاکستان دنیا بھر میں مقیم امت محمدیہ ۖ کا وہ محفوظ قلعہ جسے وہ آج بھی اسلام کا قلعہ سمجھتے ہیں وہ پاکستان جسے آج اسلامی لکھتے ہوئے شرم آتی ہے اور جمہوریت تو محض ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں۔انگریز سے آزادی حاصل کرنے کے ساتھ ہندئو سامراج سے علیحدگی اختیار کرنے کا مقصد کیا یہی تھا کہ مسلمانوں کو غیر مسلم کے بجائے نام نہاد مسلمان کچلتے رہیں ہر گز نہیں بلکہ پیش نظر وہ ایک ریاست تھی جو تاجدار انبیاء جناب سرور کائنات محمد ۖ نے تشکیل فرمائی تھی جہاں آپ ۖ کے فرمان کے مطابق کسی کو کسی پر برتری حاصل نہ تھی مگر اس ریاست کی بد بختی اسکے حصول کے ساتھ ہی شروع ہوگئی جب ایک ایسا گروہ تحریک میں شامل ہوگیا جسکا مطمع نظر صرف اقتدار ہی تھا اور آج تک وہی گروہ کسی نہ کسی شکل میں مقتدر طبقہ میں شامل ہے اس گروہ میں سے جس نے بھی ریاست کی خیر خواہی کی انڈر ورلڈ کے قانون کی طرح اسے عدم میں پہنچا دیا گیا اسلامی جمہوریہ پاکستان جسے آزاد ہوئے ستر سال سے زائد عرصہ بیت گیا آج تک بیشتر معاملات میں قانون سازی ہی نہ کر سکا ہماری عدالتوں میں رائج قوانین میں سے اکثریت آج بھی غیر شرعی اور انگریز کے بنائے ہوئے قوانین کی ہے اب ہماری قوم پھر اپنی قیادت منتخب کرنے جا رہی ہے۔

انتخابات ہو رہے ہیں اور امید وار وں میں کون کون شامل ہے وہی پرانے چہرے اگر میاں صاحب مر چکے تو انکے بیٹے بیٹا اگر اہل نہیں تو بیٹی ،مڈل کلاس سے کون آیا میدان میں پورے پاکستان میں کسی مولوی گروپ نے تو کسی مزدور کو پارٹی ٹکٹ دے دیا ہو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا مگر اس وقت تبدیلی کے دعویدار سب سے بڑے لیڈر عمران خان صاحب نے بھی ٹکٹ تقسیم کرتے وقت پارٹی کو متعارف کروانے والے پرانے کارکنان کو نظر انداز کرکے ان لوگوں کو بھرتی کیا جن کا شمار مذکورہ بالا گروہ میں ہوتا ہے ایک مولوی نے ختم نبوت کے حساس موضوع کو گرما کر سیاسی رنگ دیا اور وقتی طور پر قوم کے ایمان کو اتنا جوش دیا کہ قوم سڑکوں پر نکل آئی مشہور درگاہوں کے سجادگان کی حمایت بھی حاصل کرلی حتیٰ کہ برصغیر کے نامور صوفی بزرگ زہد الانبیاء حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے سجادگان اور جگر گوشہ ء مولا حسن علیہ السلام پیر مہر علی شاہ صاحب کے مرشد کے سجادہ نشین پیر صاحب آف سیال شریف جو کہ پیرانہ سالی میں ہیں وہ بھی حجرہ نشینی چھوڑ کر میدان میں آگئے ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کرنے والے بھی اسی صف میں ہیں اور تبدیلی کے جرم کو ہائی لائٹ کرکے سیاست میں آنے والے ملاں بھی اسی صف میں شامل ہیں کئی جگہ پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی ہو چکی ہے کئی مولوی ن لیگ کے امیدواروں کے ہاتھ پر بیعت کر چکے اور کئی پی ٹی آئی کے امیدواروں کو اپنا گرو استاد مان چکے ہیں جو ایسا نہیں کر سکے وہ ممکن ہے آپس میں لڑ لڑ کر ہی گروہ بندی کا شکار ہو جائیں اور گرو استادوں کا منتر کام کر جائے جیسے کہ قصور میں مذہبی جماعتوں کے کارکنان نے کر بھی دکھایا ہے۔

قارئین کرام حصول پاکستان کی تحریک زوروں پر تھی مولانا شبیر احمد عثمانی ( انکا تعلق کسی بھی مسلک سے تھا اس بات سے قطع نظر) قائد اعظم محمد علی جناح کے شانہ بشانہ چل رہے تھے ہر جلسہ میں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ انہی کی زبان سے نکلتا تھا وہ قرآنی آیات سے برصغیر کے مسلمانوں کا لہو گرماتے رہے اللہ نے مہربانی کی اور وطن عزیز معرض وجود میں آگیا قائد اعظم محمد علی جناح کی سربراہی میں چھوٹی سی کابینہ کا اجلاس کراچی میں ہورہا تھا مولانا شبیر احمد عثمانی بھی شیروانی پہن کر اجلاس میں شرکت کے لیے تشریف لے آئے آتے ہی انہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے پوچھا آئیے مولانا کدھر آنا ہوا وہ حیرانگی سے بولے آج اجلاس نہیں ہے تو قائد اعظم مسکرائے اور کہا کہ اجلاس میں کوئی شرعی مسئلہ پوچھنا ہوا تو آپ کو بلا لیا جائے گا آپ تشریف لے جائیں۔

آج کا مولوی بے چارہ جس نے کوئی محنت ہی نہیں کی اور اسمبلی میں بیٹھنے کے خواب دیکھ رہا ہے اس کے لیے علماء کرام کو ایک سمندری لہر کی طرح جوش میں آ کر بیٹھ جانے کی پالیسی چھوڑنا ہو گی بلکہ امت کو ایک قوم بنانا ہوگا جسے وہ خود منتشر کر چکے ہیں علماء کرام کو مستقل میدان میں رہ کر اسلام کے لیے رول ماڈل بننا پڑے گا ایک دوسرے پر کفر کے فتوے چھوڑنے پڑینگے ایک دوسرے کے خلاف غلیظ زبان بند کرنا پڑے گی اور قوم کو ایک اللہ ایک رسول ایک قرآن کا سچا پیروکار بنانا پڑے گا اسکے لیے اگر روٹی سے ہاتھ دھونا پڑیں تو دھو ڈالیں قوم کو گروہی تقسیم سے نکال کر سچی اور کھری امت محمدیہ بنا لیں تو پھر ممکن ہے کہ اس ملک میں اسلام کا نفاذ ہو ورنہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی بھڑوں کے چھتے سے شہد ٹپکنے کا نتظار کر رہا ہو کون بدلے گا نظام عورتوں کو جلسے میں ڈانس کروانے والا عورت کو اسلامی حدود سے آزاد کر کے آج اپنے ساتھ جیل لے جانے والا یا بھٹو کی بیٹی کی تصویر کو دکھا کر بھی قوم کو بے وقوف بنانے والا ارے یہ تو وہی گروہ ہے جس نے قیام پاکستان سے آج تک قوم کو اپنا غلام بنا کر رکھا ہوا ہے۔ والسلام

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی