انٹرنیٹ، دھوکے اور فریب کی دنیا

Internet

Internet

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

بیشک آپ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر سے منسلک ہیں آپ کو پل بھر میں دنیا جہان کی خبریں اور معلومات گھر بیٹھے حاصل ہو جاتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ اس کے مضمرات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے یہ معلومات کے ساتھ ساتھ آپکی بے لگام خواہشوں کو زبان دیتا ہے لگام نہیں ،کیونکہ نعوذباللہ یہ کوئی آسمانی صحیفہ نہیں جس پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیں یہ تحریریں یہ تصویریں یہ معلومات انسانی ہاتھوں کی لکھی ،بنائی یا گھڑی ہوئی ہوتی ہیں ان پر قران حدیث کی طرح یقین نہیں کیا جا سکتا آپ کو غلط معلومات کے ذریعے گمراہ کیا جا سکتا ہے اب تو اکثر لوگ انٹر نیٹ سے ملنے والی معلومات پر خبر یا کالم بناتے ہیں اور سینڈ کر دیتے ہیں خبر کی تلاش میں محنت اور تحقیق دم توڑ رہی ہے لوگ اپنا نکتہ نظر بھول گئے ہیں بس انٹر نیٹ سے خبر پکڑو اور آگے پھیلا دو جب تک خبر کی تصدیق یا تروید ہوتی ہے داستان الف لیلہ بن چکی ہوتی ہے اب اس کو کیا کہیں کہ جو جتنا بے شرم بدتمیز اور لمبی زبان والا ہے اتنا مقبول ہے اس سے اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں ایک اور بھیانک سلسلہ جو لائیو وڈیو بنانے کا چل نکلا ہے۔

ان کی تحقیق ہونی چاہیے یہ ایک ایسی بیماری ہے جو بڑھتی جا رہی ہیکوئی خون میں لت پت پڑا ہے اور وڈیو بن رہی ہے کوئی جلتا ہوا شخص مدد کے لیے بھاگتا پھر رہا ہے لیکن اسکی مدد کرنے کی بجائے وڈیو بنائی جا رہی ہے کسی الٹے لٹکے شخص پر بہیمانہ تشدد ہو رہا ہے اور وڈیو بن رہی ہے کسی کو ننگا کر کے وڈیو بن رہی ہے تو کسی باریش بوڑھے کو پانچ سالہ بچی کے ساتھ گھنائونے فعل کی وڈیو بنا کر دکھائی جا رہی ہے پچھلے دنوں مجھے میسنجر پر ایک وڈیو موصول ہوئی جس میں ایک مکان کی چھت کا منظر تھا ایک عورت کے ہاتھ پیچھے باندھ کر اسے ایک مرد بیدردی سے پیٹ رہا تھا بلکہ اسے پھانسی دینے کی تیاری کر رہا تھا اس کے گلے میں دوپٹہ بندھا تھا اور اوپر راڈ سے لٹکانے کی تیاری تھی پس منظر میں وازیں بھی تھیں جو تین سے زائد لوگوں کی تھیں کہ نہ مارو سوال یہ پیدا ہوتا ہے تین چار لوگ موجود ہیں وڈیو بھی بن رہی ہے بلکہ دھوپ کی وجہ سے وڈیو بنانے والے کا سایہ بھی نظر آ رہا تھا کہ کتنے سکون سے وہ اس ڈرامے کی وڈیو بنا رہا ہے یہ وڈیو کسی کی وال پہ لگی تھی مطلب وائرل ہو رہی تھی اس پر بیشمار کمنٹس آئے ہوے تھے لعنت ملامت ،دھمکیاں ظلم کی دہائی ،گالیاں ،کوسنے ،لیکن کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی تین چار لوگ تو وڈیو میں نظر بھی آ رہے ہیں کیا یہ سارے اتنے بے بس ہیں ایک ظلم کرتے شخص کو روک نہیں سکتے؟ اس عورت کو چھڑا نہیں لیتے؟ صاف ظاہر تھا کہ اب یہ کاروبار بن چکا ہے جس میں غریب لوگ استعمال ہو رہے ہیں ان کرداروں کو کہا جاتا ہے یہ وڈیو چینلز یا یو ٹیوب پر چلے گی جتنی وائرل ھو گی اتنے پیسے بنیں گے اور تم کو حصہ ملے گا معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور لا قانونیت کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم ایمان کے کمزور ترین درجے سے بھی نکل چکے ہیں کہتے ہیں۔

ظلم کو ہاتھ سے روکو ورنہ زبان سے روکو نہیں روک سکتے تو کم از کم دل سے برا جانو یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے لیکن ہم نے اسے بھی بھلادیا ورنہ کم از کم گناہ کو پھیلانے کا ذریعیہ تو نہ بنتے اس طرح وڈیو بنا کر پھیلانے سے انسانیت پر سے اعتبار اُٹھ رہا ہے حتی کہ انٹر نیٹ پر صرف ایک لفظ ”سیکس ” لکھیں اور اس کے بعد تماشہ دیکھیں میں اپنی سرچ میں بہت احتیاط کرتی ہوں کیونکہ اپنے گناہ سے بھی زیادہ گناہ دوسروں کا گناہ دیکھنا ہے آپ جو سرچ کرتے ہیں و ہ آپ کو وہی چیزیں مہیا کرنا شروع کر دیتے ہیں ،میں سیاست ،کپڑوں کی ڈیزائننگ،میک اپ ،اور پاکستان سے متعلق مضامین یا ہسٹری سرچ کرتی ہوں اور مجھے وہی کچھ بھیجا جاتا ہے یوں سمجھ لیں نیٹ کی دنیا آپ کے رحجانات پہچانتی ہے دنیا بھر میں نیٹ سرچنگ ہوتی ہے ہر کوئی اپنی مرضی کا مواد حاصل کرتا ہے بلکہ اب تو کاروبار بھی نیٹ کے تھرو چل رہے ہیں آن لائن شاپنگ کا رواج بڑھتا جا رہا ہے بلکہ اب تو تقریباًہر برانڈ یہی طریقہ اپنا رہا ہے حتی کہ شاپس پر بھی اب اتنی پروڈکٹس نہیں ملتیں جتنی آن لائن ملتی ہیں اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ آپ کو گھر بیٹھے چیز مل جاتی ہے اگر آپ کوالٹی کانشس نہیں ہو تو ،کیونکہ بعض اوقات آپ سے دھوکہ بھی ہو جاتا ہے لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ غلط چیز ملنے کی صورت میں آپ کو اتنی خواری اٹھانی پڑتی ہے کہ آپ اس کو قبول کر لینے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں خیر میں تو اپنی ازلی لاپرواہی کی وجہ سے نقصان اٹھاتی ہوں جیسے ہم گیگا مال گئے تو جس ڈریس کی خاطر میں گئی وہ ان کے پاس تھا نہیں انہوں نے کہا آپ پری بکنگ کروا لیں ڈریس آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔

میں نے اس خیال سے کہ فون نمبر اور ایڈریس دینا پڑے گا انہیں کہا نہیں جو سٹاک میں ہیں وہی لے لیتی ہوں میری غلطی میں نے سرسری دیکھ کر لے لیء یاسلام آباد سے گھر واپس آ کر بھی کھول کے نہ دیکھا کئی دن بعد ٹیلر کو دینے کے لیئے کھولے تو ایک شرٹ پر چڑیاں اور طوطے بنے تھے ایک پر اگلے فرنٹ پر چرچ کی شبیہ اور بیک پر مسجد نما شبیہ اتنے مہنگے جوڑوں کی اس ہیبت کذائی پر میں تو ششدر رہ گئی تب مجھے سمجھ آئی کہ یہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے ہمیں ہستہ آہستہ مذہب سے دور کیا جا رہا ہے اور بتدریج کئی سالوں سے ہم تو یہ جانتے ہیں تصویروں اور شبیوںوالے کپڑوں میں نماز نہیں ہوتی ہم جتنے بھی ماڈرن اور لبرل سوچ رکھنے والے ہوں کچھ پرانی اقدار ہمارا دامن کھینچ لیتی ہیں شائد ہم سے اگلی نسل اس چیز کو قبول کر لے یا کر چکی ہے۔

میں ملتان میں ہی ایک مشہور برانڈ پر گئی تو دور سے دیکھا ایک سٹیچو نے بڑی خوبصورت شرت پہنی ہوئی تھی لیکن قریب جا کے دیکھا تو اس پر انسانی صورتیں بنی ہوئی تھیں میری طرح کئی دوسری خواتین بھی شوق سے اس کی طرف بڑھیں لیکن کسی نے نہ لی سیلزمین بغور یہ چیز دیکھ رہا تھا اس نے کائونٹر کے پیچھے بیٹھے دمی سے کوئی بات کی تو اس نے سر ہلا دیا تھوڑی دیر بعد ہم وہاں سے گذرے تو اس کے بدلے کوئی اور شرٹ تھی شائد اب اس کا حل یہی نکالا گیا ہے کہ پری بکنگ کر کے پیسے وصول کر لو اور چیز گھر پہنچا دو پھر کس کی جرت ہے واپس کرے باہر کے ملکوں میں اگر آپ کو کوئی کمپنی غلط چیز بھیجے تو نا صرف اس کو واپس لیتے ہیں بلکہ زہنی کوفت کا جرمانہ بھی بھرتے ہیں ہم ابھی اتنے مہذب نہیں ہوئے ابھی ایسی چیزوں سے ذہنی کوفت ہوتی ہے پھر شائد یہ بھی نہیں ہو گی انڈین کلچر ہم میں سرائیت کرتا جا رہا ہے وہ بھی آرٹ کے نام پر اب جو لوگ ایسے اعتراضات کریں کہ گھر میں بت کیوں رکھے ہوئے ہیں یا فرنیچر پر جانور اور بت کندہ ہوتے ہیں تو لوگ ایسے دیکھتے ہیں کہ کیا جاہلانہ سوچ ہے آرٹ کی دشمن اور وہ چیز بھی لاکھوں میں ہوتی ہے تو ان سب چیزوں کو رواج دینے میں انٹرنیٹ کا بنیادی کردار ہے ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل ہے اور ہر موبائل پر انٹر نیٹ ،جس طرح بندر کے ہاتھ میں استرا تھما دو تو وہ اپنا ہی گلہ کاٹ لیتا ہے ہم بھی اپنی ہی تہذیب کا گلہ کاٹ رہے ہیں اللہ ہم پر رحم کرے !

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی