اقبال ہم شرمندہ ہیں

Allama Muhammad Iqbal

Allama Muhammad Iqbal

تحریر: ملک عبدالصبور
پاکستان کا خواب دیکھنے والے برصغیر کے مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے والے کوئی اور نہیں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال تھے. آج جس آزاد فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ اسی شخصیت کی تعلیمات اور فکر کی بدولت ممکن ہوا. علامہ محمد اقبال کی شان میں لکھنے کے لیے میرے پاس الفاظ ہی نہیں اور نہ ہی میں اس قابل ہوں کہ اقبال کے افکار کو آپ تک پہنچا سکوں. پاکستان بننے سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی ایسی 9 نومبر آئی ہو جب پاکستان میں اقبال ڈے پر عام تعطیل نہ ہو. اقبال ڈے پر پورے ملک میں چھٹی قومی یکجہتی کا نمونہ تھی جس پر قوم ہر فرد متفق تھا۔

پہلے تو 2 عید کرنے کی روایت عام تھی اور اس بار اقبال ڈے پر بھی قوم کو تقسیم کر دیا گیا. ایک صوبے میں تعطیل جبکہ وفاق اور دوسرے صوبوں میں اسے کینسل کر دیا گیا. حکمرانوں کو اس دن پر کام کرنے کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا. کیونکہ اس دن اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنا وقت کا ضیاع اور فضول کام تھا. خیر اقبال ڈے کے موقع پر مجھ سمیت اقبال کے سب چاہنے والوں کا یہ ہی حال ہوگا۔

Poetry of Allama Iqbal

Poetry of Allama Iqbal

میں اس اہم دن پر اپنے پڑھنے والوں کی توجہ ایک اور اہم ایشو پر دلانا چاہتا ہوں. وہ یہ کہ آج کے دور میں اقبال کو پڑھنا اور پڑھانا ختم ہی ہو گیا ہے. جب ہم سکول پڑھتے تھے اس وقت باقاعدگی سے اقبال کی شاعری کو پڑھایا اور سمجھایا جاتا تھا. اقبال کی شاعری کو دین و دنیا کی تعلیمات سمجھا جاتا تھا. لیکن آج افسوس کہ ہم نے اپنے عظیم رہنما کی تعلیمات کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا. میرے خیال میں پاکستان کو درپیش مسائل کا واحد حل اللہ اور اس کے رسول محمد کے بتائے ہو ئے راستے پر چلنے اور اس کے بعد اقبال کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہی ہے۔

آج مجھ سمیت میری ہم عمر نسل کو اقبال کی سوچ اور فکر سے آگاہی ہی نہیں آنے والی نسل کو تو ہمارے حالیہ فیصلوں کی بدولت شاید نام بھی نہ یاد رہے. ہم نے تو یہ ہی پڑھا اور سنا کہ جو قومیں اپنے محسن کو بھول جاتی ہیں ان کا مقدر تباہی اور بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں. آج کے دن تو یہ اعلان ہونا چاہیے تھا کہ آج کے بعد پاکستان کے تمام سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں صبح اسمبلی میں جہاں قومی ترانہ لازم ہے وہاں روزانہ اقبال کا ایک شعر پڑھایا اور سمجھایا جائے. تاکہ آنے والی نسل کو اقبال کی سوچ اور فکر سے آگاہی حاصل ہو سکے۔

Youth

Youth

غلامی کی خود ساختہ قید سے رہائی حاصل کر سکے. میرا دعوٰی ہے کہ ایسا کرنے سے معاشرے میں موجود بڑی برائیوں کا خاتمہ ہو جائے اور ہم ایک عظیم قوم بن کر ابھرے. میری سوچ شاید غلط ہو .جو میں نے راہ تجویز کی شاید نوجوان نسل کو نہ پسند ہو. لیکن جس کو پسند ہو وہ عہد کر لے کہ کل سے جہاں وہ نماز و قرآن پڑھے گا وہاں وہ اقبال کا ایک شعر بھی پڑھے اور سمجھے گا. اور میرے اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگو تک پہنچائے گا. شکریہ۔

تحریر: ملک عبدالصبور