ایران کی پروردہ حزب اللہ خطے میں فرقہ واریت کی جڑ ہے: عادل الجبیر

Adel al-Jubeir

Adel al-Jubeir

سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ترکی خطے میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ انہیں توقع ہے کہ بغاوت کی ناکام سازش کے بعد انقرہ موجودہ بحران سے جلد نکل آئے گا۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اور خلیج تعاون کونسل کے ممبر ممالک کے درمیان تاریخی اسٹریٹیجک تعلقات طویل عرصے سے قائم ہیں۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے سے خلیج تعاون کونسل اور یورپی ملکوں کے درمیان تعلقات متاثر نہیں ہوں گے کیونکہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علاحدہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔

شام کے تنازع پر بات کرتے ہوئے عادل الجبیر نے کہا کہ ’ہم شام میں ایسا نظام حکومت لانا چاہتے ہیں جس میں بشارالاسد کا کوئی کردار نہ ہو۔ ایک ایسا پرامن حل جو شام کے موجودہ بحران کو جلد سے جلد ختم کرے‘۔ انہوں نے کہا کہ داعش کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے جنگ جاری رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب پہلا ملک ہے جس نے داعش کے خلاف عالمی سطح کے اتحاد کے قیام کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

عادل الجبیر نے مزید کہا کہ شام کے تنازع کے حل کے حوالے سے امریکا اور سعودی عرب ایک ہی صفحے پر ہیں۔ کچھ تکنیکی نوعیت کے اختلافات ہیں جنہیں آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے۔ شام میں اسد رجیم ہی مذاکرات کی ناکامی کی اصل ذمہ دار ہے۔ شامی حکومت نے تنازع کے پرامن حل کی راہ روک کر شام قوم پر فوجی حل مسلط کیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ایران کی مداخلت کے باعث عراق بدترین فرقہ واررانہ کشیدگی اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔ سنہ 2014ء میں عراقی حکومت نے جن اصلاحات کا اعلان کیا تھا وہ عراق کو متحد رکھنے کی ضامن ہیں۔ عراق میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں عالمی برادری اور مقامی حکومت کے درمیان ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی عراق کی سرزمین دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ بالخصوص داعش کا مضبوط گڑھ عراق میں موجود ہے۔ ہم جہاں خطے کو داعش سے پاک کرنا چاہتے ہیں وہیں ہم شام میں بشارالاسد کے ناسور کو بھی ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔

یمن کے بحران کے حل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں سعودی وزیرخارجہ نے کہا کہ یمن کے بحران کا مناسب اور مثالی حل متحارب فریقین کا باہم بات چیت کے ذریعے کسی متفقہ لائحہ عمل تک پہنچنا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عرب خطے میں فرقہ واریت آیت اللہ خمینی کے ایران میں برسراقتدار آنے سے پھیلنا شروع ہوئی۔ ایران نے عرب ممالک میں فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے بیج بونے کے لیے حزب اللہ قائم کی اور اس کی مسلسل پرورش کرتا رہا۔

سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ “سنہ 1979ء میں ایران میں برپا ہونے والے انقلاب کے بعد سعودی عرب نے ایک بار بھی تہران کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن ایران کی جانب سے نہ صرف سعودی عرب بلکہ تمام خلیجی ریاستوں پر چڑھائی کرنے کی مذموم کوششیں کی جاتی رہیں۔ ایران نے عرب ممالک کے خلاف معاندانہ روش اپنائے رکھی۔ ایران پڑوسی ملکوں سے اچھے تعلقات چاہتا ہے تو اسے اپنی پالیسیاں بدلنا ہوں گی۔”

عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ایران میں حسن روحانی کے صدر بننے سے بھی ہمارے خلاف جارحانہ عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔