ایران کی امریکا اور یورپ میں “پاسداران انقلاب” کی تشکیل کی دھمکی

Iran Colonel

Iran Colonel

لندن (جیوڈیسک) ایرانی کرنل سالار آبنوش نے “ولایت” کے دفاع کے واسطے براعظم یورپ اور امریکا میں نئے پاسداران انقلاب تشکیل دینے کی دھمکی دی ہے۔ آبنوش ایرانی پاسداران انقلاب کے زیر انتظام “خاتم الانبیاء” عسکری صدر دفتر کے کوآرڈی نیٹر جنرل کے معاون ہیں۔

ایرانی سکیورٹی اداروں کے نزدیک شمار کی جانے والی ویب سائٹ “تسنیم” کے مطابق آبنوش کا کہنا ہے کہ “ولایت کے فدائین ہمیشہ ولایت (مرشد اعلی خامنہ ای) کے حکم کے ماتحت ہوتے ہیں اور وہ اس کی حفاظت کی خاطر سرحدوں کو بھی تسلیم نہیں کرتے”۔

آبنوش نے مغرب کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے ایرانی حکومت کے ارادے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ “ہمارے اندر ہی ایسے عناصر ہیں جو ہماری کامیابیوں کے خلاف کام کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مسائل کے حل کے لیے دشمن کے ساتھ مذاکرات اور رابطے جاری رہنا چاہئیں اور جب ہم ان کو خبردار کرتے ہیں تو وہ ہم پر انتہا پسندی کا الزام عائد کرتے ہیں”۔

اس سے قبل ایرانی عسکری ذمے داران پاسداران انقلاب کے زیرانتظام ایک دوسری عسکری توسیع کا اعلان کر چکے ہیں جس کو “الفاتحین بریگیڈز” کا نام دیا گیا۔ اس کے ساتھ یہ دھمکی بھی دی گئی کہ وہ سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور ان کا بنیادی مشن ایران اور اس کے بیرون ولایت کا دفاع کرنا ہے۔

ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر محمد علی جعفری نے باور کرایا کہ مذکورہ عسکری ادارہ “الفاتحين” فورسز کے اڈے کو قم شہر اور دارالحکومت تہران تک محدود رکھنے کے بجائے ایران کے تمام علاقوں میں وسیع کرنے کا خواہش مند ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے مرشد اعلی خامنہ کو ایک رپورٹ بھی پیش کر دی ہے۔

حالیہ عرصے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قیادت کی جانب سے اس عسکری ادارے کی قوت مزاحمت کے بارے میں بیانات میں اضافہ ہو گیا ہے بالخصوص جب کہ ایران میں آنے والے دنوں میں صدارتی انتخابات کا انعقاد ہونا ہے۔ اس طرح 2009 کے احتجاجوں کی یاد پھر سے تازہ ہوگئی ہے جب پاسداران انقلاب ان احتجاجی مظاہروں کو کچلنے اور اس کی قیادت کرنے والی شخصیات کو حراست میں لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔

پاسداران انقلاب ان دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے یہ بھی چاہتے ہیں کہ غیر حل شدہ معاملات کے حوالے سے مغرب کے ساتھ مستقبل میں کسی بھی قسم کے مذاکرات سے متعلق فیصلے میں اس کا بڑا کردار رہے۔ ان معاملات میں انسانی حقوق اور بیلسٹک میزائل کے متنازعہ تجربات شامل ہیں۔ واضح رہے کہ حسن روحانی کی حکومت نے گزشتہ روز یہ اعلان کیا ہے کہ وہ یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے واسطے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔