داعش کے علاقوں میں غربت عام اور قیمتیں آسمان پر

Children

Children

واشنگٹن (جیوڈیسک) پیش مرگہ نے موصل میں داعش کی فوجوں کے لیے رسد کا راستہ کاٹ دیا۔ لیلی تین بچوں کی ماں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اُن کا گائوں موصل اور حجواہ کے درمیان واقع ہے، جہاں چینی کی قیتیں 30 گنا بڑھ چکی ہیں۔

اُنھوں نے بتایا کہ داعش کی دو برس کی آمرانہ عمل داری کے دوران، وہ دو فضائی کارروائیوں میں بال بال بچی ہیں۔ لیکن، چند ماہ کے بعد، اُن کے پاس نہ تو خوراک باقی تھی نا ہی کوئی رقم۔

اُنھیں ڈر تھا کہ اُن کے بچے فاقہ کشی کے باعث ہلاک ہوجائیں گے۔ اِس لیے، کافی اور لوگوں کی طرح، وہ ایک مہاجر کیمپ کی جانب چلی گئیں، جہاں بہت سارے لوگ اکٹھے تھے۔

ایسے میں، اُنھوں نے دو ہفتے قبل، داعش کے ایک عسکریت پسند کو 300 ڈالر دیے، تاکہ اُنھیں یہ بتایا جائے کہ گائوں کے اطراف میں کہاں کہاں بارودی سرنگیں لگائی گئی ہیں، تاکہ جب بھاگ نکلے کا موقع میسر ہو تو وہ جان بچا کر نکل سکیں۔

بقول اُن کے، حالیہ دِنوں کے دوران، جب داعش والے بھاگ نکلنے کی کوشش کرنے والے کسی شخص کو پکڑ لیتے تھے، تو وہ اُس کے پائوں پر اتنی چوٹیں مارتے تھے کہ وہ چلنے کے قابل نہیں رہتے۔

تاہم، شدید غربت کے باوجود، جس کا باعث داعش کی بے رحم کارروائیاں تھیں، ویسے وہ ابھی تک لڑائی کی حامی ہیں۔ تاہم، اُن کا کہنا ہے کہ ”اگر دولت اسلامیہ کا دور جاری رہتا ہے تو یہ ایک بڑا المیہ ہوگا”۔

ایک ہفتے سے جاری حملوں کے دوران، عراقی اور کرد افواج اس گائوں پر قبضے کے حصول کی جنگ لڑی رہی ہیں، جو تب تک جاری رہے گی جب تک موصل کو فتح نہیں کیا جاتا، جو عراق کا دوسرا بڑا شہر ہے۔

لیکن، جب گائوں کے گائوں خالی کرائے جارہے ہیں، داعش لڑائی کے نئے نئے محاذ کھڑے کر رہا ہے، جس طرح کرکوک کی لڑائی، جو تیل سے مالا مال شمالی شہر ہے۔ آج لڑائی کو تیسرا روز ہے۔

دریں اثنا، داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں خاندان کے خاندان رفتہ رفتہ مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ بات فاطمہ نے بتائی ہے، جو 11 دِن قبل اس کیمپ میں آئی تھیں۔

اُن کے 15 بچے ہیں جو اُن ہی کے گائوں میں رہتے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ جب وہ باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُنھیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ دوسرے مقامات پر، اِسی بات پر، لوگوں کے سر قلم تک کیے گئے ہیں؛ یا پھر اُنھیں اذیت دی گئی ہے یا قید کیا گیا ہے۔