انسانی ہمدردی پر گلبھوشن کی فیملی سے ملاقات اور بھارتی تعصب

kulbhushan Yadav

kulbhushan Yadav

تحریر : میر افسر امان
بھارت کے حاضر سروس نیوی کے فوجی گلبھوشن یادیو جاسوس کو پاکستانی سیکورٹی ایجنسیز نے بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا۔گلبھوشن نے اپنے جرم کا ویڈیو بیان میں اعترف کیا تھاکہ بھارت کی جاسوس ایجنسی را نے پاکستان میں جاسوسی کے لیے متعین کیا تھا۔ وہ را کے فلاں فلاں افسر کو جواب دہ تھا۔کراچی میں غدار وطن الطاف حسین کی قوم پرست ،لسانی اور فاشست جماعت متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان میں علیحدگی پسند بلوچ پارٹیوں کے دہشت گردوں کو پیسوں اور ہتھیاروں سے مدد کر تا رہا۔ اس نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ کئی بارجعلی ناموں اور پاسپورٹ کے ذریعے پاکستان کے دورے کرچکا ہے ۔ جہاں یہ یادرکھنا چاہیے کہ غدار وطن الطاف حسین کے کارکنوں نے بھارت سے ٹرینیگ اور فنڈ لینے کا اعتراف کیا ہوا ہے۔ پاکستان کا غدار بلوچ براہم داغ بگٹی بھارت میں موجود ہے ۔ جاسوس گلبھوشن کے خلاف پاکستان میں ملٹری عدالت میں جاسوسی کرنے کے خلاف مقدمہ چلا۔ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق اس کو وکیل کی سہولت فراہم کی گئی۔ جرم کے اعتراف میں اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ پہلے بھارت نے اس کواپنا شہری ہی تسلیم نہیں کیا۔ پھر معمول کے مطابق بھڑکیں مارتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ نے بیان داغ دیا تھا کہ گلبھوشن بھارت دھرتی کا بیٹا ہے۔

اس کو واپس بھارت لانے کے لیے کسی بھی حد تک بھی جائیں گے۔ پاکستان پر دبھائو ڈالتے ہوئے،بھارت نے گلبھوشن کے ساتھ کونسلر رسائی کی درخواست کی۔ جبکہ بین الا قوامی طور پر منظور شدہ قانون کے مطابق کسی ملک کے خلاف کسی دشمن ملک کے حاضر سروس فوجی جاسوسی کرتا پکڑا جائے تو اُس تک کونسلر رسائی ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے پاکستان نے بھارتی درخواست رد کر دی۔ پھر گلبھوشن کی سزائے موت رکوانے کے لیے بھارت عالمی عدالت انصاف گیا۔ جس میں ابھی بھی اسکا مقدمہ چل رہا ہے۔ بھارت نے انسانی ہمدردی کے تحت گلبھوشن سے اس کی فیملی کی ملاقات کی درخواست کی۔ جس کو پاکستان نے منظور کیا۔ گلبھوشن سے ملاقات کے لیے اس کی بیوی اور ماں پاکستان تشریف لائیں۔ پاکستان کے دارلخلافہ اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے دفتر میں گلبھوشن سے اس کی فیملی کے ملاقات کرائی گئی۔ سیکورٹی کے لیے گلبھوشن کی فیملی کے ذاتی سامان کو چیکنگ کے بعد واپس کر دیا۔ اسکینیگ مشن میں گلبھوشن کی بیوی کے جوتے کلیئر نہیں ہوئے۔جوتوں میںکسی دھاتی چیزکی نشان دہی ہوئی۔

گلبھوشن کی بیوی کو فوراً دوسرے جوتے فراہم کیے گئے۔اُس کے جوتوں کو مذیدچیکنیگ کے لیے روک لیا گیا۔ملاقات کے دوران طے شدہ وقت ختم ہو گیا، تو گلبھوشن کی درخواست پر وقت بھی بڑھا دیا گیا۔ ملاقات کے بعدگلبھوشن کی والدہ صاحبہ نے پاکستان کے اچھے رویے پر حکام کا شکریہ بھی ادا کیا۔ ایئر پورٹ پر پاکستان کے نجی ٹی وی کی خاتون روپورٹر نے گلبھوشن کی فیملی سے سوال بھی کیا۔ ملاقات کے ٢٤ بعد گھنٹے ،جب گلبھوشن کی فیملی واپس اپنے وطن پہنچ گئی تو بھارت نے شور مچانا شروع کر دیا۔ بھارت کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر گلبھوشن سے فیملی کی ملاقات کرانے پر پاکستان کا روائیتی طور پر ہی سہی شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا۔ مگر حسب روایت پاکستان کے خلاف تعصب سے بھرا پروپگنڈا شروع کر دیا ۔ کہا کہ سامان کوچکینیگ کر کے ہماری شہری خواتین کی مذہبی اور روائتی اقدار کا خیال نہیں رکھا گیا۔ بھارتی میڈیا نے اپنی پاکستان دشمنی برقرار رکھتے ہوئے، میڈیا پر طوفان اُٹھا دیا ۔پاکستانی میڈیا خاتون کی رپورٹر پر اعتراض کیا اور کہا کہ اس نے پلائنتڈ سوال کیوں کیے۔ ارے بھارت کے عقل کے اندھدے متعصب میڈیا کے لوگوں ۔ میڈیاکا کام سوال کرنا نہیں تو اور کیا ہوتا ہے؟

پاکستانی انگلش پرنٹ میڈیا کی روپورٹ کے مطابق، بھارت کی مذہبی انتہا پسند پارٹی ،بی جے پی (بھارتی جنتا پارٹی) کے ایم پی سبرامینین سوامی نے ایک اور بھڑک ماری۔ کہا کہ پاکستان نے ہماری شہری خواتین کے ساتھ ہمارے مذہب اور ثقافت کے خلاف اور ناروا سلوک کیا۔ اس کا اب ایک ہی حل ہے کہ پاکستان پر جنگ مسلط کر کے اس کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ اس سے قبل پٹھان کوٹ پر خود ہی دہشت گردی کروا کر بھارتی وزیر داخلہ بھی بھڑک مار چکا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردری ختم نہ کی ،تو بھارت نے اس کو پہلے دوٹکڑوں میں تقسیم کیا تھا۔ اب اس کو دس ٹکڑوںمیں تقسیم کریں گے۔ پاکستان کی وزات خارجہ کے سپوک پرسن ڈاکٹر محمد فیصل صاحب نے میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارتی حکام کے من گھڑت پرپیگنڈے کی طرف توجہ نہیں دیتا۔پاکستان نے بھارت کی درخواست پر جاسوس گلبھوشن کی فیملی کی انسانی ہمدردی کے تحت ملاقات کروائی۔ سیکورٹی مقصد کے لیے خواتین کے ذاتی سامان کو چیک کیا۔ چیکنیگ کے بعد سارا سامان واپس کر دیا گیا۔ اسکرینگ میں میں گلبھوشن کے بیوی کے جوتوں میں کسی دھاتی چیز کی نشان دہی ہوئی۔ خاتون کو متبادل جوتے پیش کر دیے گئے۔ مشکوک جوتوں کو مذید چیکینگ کے لیے رکھ لیا گیا۔ مہمان خواتین شکریہ ادا کے اپنے وطن چلی گئیں۔ ملاقات کے دوران اگر کوئی تکلیف محسوس کی گئی تھی تو اُس وقت میڈیا موجود تھا جس میں اس اظہار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ٢٤ گھنٹے بعد من گھڑت پروپیگنڈا شروع کیا گیا۔ ہم اس لایعنی تکرار میں نہیں پڑنا چاہتے۔

صاحبو! بھارت پاکستان سے اڑے ہوئے کبوتر کو پاکستانی جاسوس تصور کے اس کی سکرینیگ کرتا ہے۔ پاکستان کے اُونچے جھنڈا اسے جاسوس لگتا ہے۔ کیا گلبھوشن کی بیوی میں ابتدائی طور پر دھات کی کچھ چیز ملنے پر پاکستان پرپیگنڈا نہیںکر سکتا تھا۔ کہ اس میں آواز ریکارڈ کرنے والا یا کچھ اور چپ لگی ہوئی ہے۔مگر پاکستان نے صرف مذید چیکنیگ کے لیے خاتون کے جوتے روک رکھے تو بھارت سورمائوں نے جنگ تک کی دھمکی دے ڈالی۔یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ بھارت نے ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ رہا ہے۔ مگر ہمارے نا اہل وزیر اعظم نے کبھی بھی بھارت کے خلاف منہ نہیں کھولا تھا۔بھارت پاکستان کو اعلانیہ دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ جبکہ خود دہشت گرد ہے اورپاکستان میں دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اس کے ساتھ امریکا اور اسرائیل بھی شامل ہیں۔لگتا ہے بھارت نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس وقت پاکستان کو وہ کمزور کر چکا ہے۔ لہٰذا اس پر حملہ کر کے اپنے ناپاک عزاہم کوپورا کرے۔ مگر اسے یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہادی پس منظر رکھنے والے مسلمانوں سے کبھی بھی کھلی جنگ کر کے جیت نہیں سکتا۔ اس وقت تو پاکستان ایٹمی اور میزائل وقت ہے۔ بھارت کو اپنا رویہ درست کر لینا چاہیے۔ اس میںاسی کابھلا ہے۔ پاکستان کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر گلبھوشن کی فیملی سے ملاقات کو تعصب میں رنگ کر پاکستان سے کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ انشاء اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان