اسلامی معاشرہ اور فرض تعلیم

Education

Education

تحریر : منظور احمد فریدی
اللہ جل شانہ کی بے پناہ حمد و ثناء اور تاجدار انبیا ء جناب محمد مصطفی کریم ۖ کی پاک ذات پر کروڑوں بار درود وسلام بھیجنے کے بعد راقم نے آج جس موضوع کو اپنایا ہے فی زمانہ ایک سلگتا ہوا موضوع ہے جس پر اسمبلی کے اندر اور عوام کے اجتماعات پر بحث ہوتی رہتی ہے ۔میرا آج کا موضوع علم ہے اللہ کریم نے انسان کو تخلیق فرمایا تو ساتھ ساتھ اس پر فرائض اور دوسروں کے حقوق عطا فرما کر اس فانی دنیا میں بھیجا علم کی فرضیت کے متعلق متعدد احادیث میں حکم ہے اللہ کے پاک رسول ۖ نے فرمایا کہ علم کا حاصل کرنا ہر مرد و عورت پر فرض ہے علماء کرام نے اس حدیث شریف سے بہت روپیہ کمایا کئی ایک نے تو اپنے اپنے سکولز تک کھول کر مین گیٹ پر یہی حدیث شریف لکھ دی علم کے لغوی جاننے کے ہیں اللہ کریم نے قرآن پاک میں کھلے الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ انسان کو تخلیق کیا اور اسے وہ علم عطا فرمایا کہ جسے وہ نہیں جانتا تھا اسی طرح جناب آدم علیہ السلام کو علم عطا فرما کر انہیں فرشتوں پر فضیلت عطا فرمائی اللہ کی طرف سے جس علم کو فرض قرار دیا گیا وہ ایسا علم ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول کی پہچان ہو دین کے احکامات کا علم ہو اور اپنی حیثیت کے مطابق بنیادی مسائل سے آگاہی ہو۔

مگر ہمارے معاشرہ میں کسب ہنر کو علم کے معنی میں لیا جانے لگا اور انگریز کی اندھی تقلید میں قوم کے جوانوں کو دین سے اتنا بے خبر کردیا گیا کہ آج ہمارے بیرسٹر اعتزاز احسن صاحب کو سورة اخلاص تک نہ آئی انکا قانون کا علم انکی دنیا کے لیے تو کافی ہے وہ اپنی واہ واہ کروا سکتے ہیں مگر قبر میں فرشتوں نے ان سے قانونی مسائل کا حل نہیں پوچھنا بلکہ وہی کچھ پوچھنا ہے جو انہیں نہیں آیا ہم یورپ کے زیر تسلط رہ کر انکی تقلید میں اس قدر اندھے ہو گئے کہ اپنے دین اسلام سے بے فکر اور بے خبر ہو گئے اور دنیا تو خراب کرہی لی آخرت بھی تاریک کرلی یا پھر ہمیں اپنی دنیا کی زندگی ہی اتنی مضبوط لگنے لگی کہ روز قیامت پر ہمارا ایمان ہی نہ رہا۔

آج کا جوان کلین شیو لمبے بال جینز پہن کر اپنے آپ کو معاشرہ کا مہذب ترین شخص گردانتا ہے مگر اسے اسوقت نماز جنازہ کی دعا نہیں آرہی ہوتی جب اسکے باپ کی میت سامنے پڑی ہو افسوس کہ ریاست کی باگ ڈور بھی ایسے ہی افراد کے ہاتھ میں رہ گئی جنہوں نے دین کو اور دین کے جاننے والوں کو مذاق کا نشانہ بنایا اور علوم عصری اور یہود و نصاریٰ کے علم سیکھنے پر انعامات دیے حالانکہ اسلامی ریاست میں اسلامی معاشرہ میں علم کے وسائل اس قدر وسیع ہونے چاہیئں کہ ہمارے اداروں فراغت حاصل کرکے معاشرہ اور ملت اسلامیہ کے مفید شہری ثابت ہوں مگر ہم نے مخلوط تعلیم عام کرکے رہتی سہتی کسر بھی ختم کردی۔

Girls

Girls

آج ہماری یونیورسٹیاں یورپی ممالک کے معاشرہ کو شرمندہ کررہی ہیں لباس کا خیال رہا نہ کردار کا بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے رواج نے ان والدین کو کیا دیا جنہوں نے جانے کتنے ارمانوں سے اولاد کو پالا پوسا اور اپنی کمائی جس کے لیے انہیں جانے کیا کیا پاپڑ بہلنے پڑتے ہیں سے انکو ایسی یونیورٹیوں میں داخل کروایا اور جب لو میرج کرکے لڑکی نے عدالت میں والدین کو ظالم اور انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والا قرار دیا تو اس والد کے دل پر کیا گزری اسلام غیر محرم عورت سے اور عورت کو غیر محرم مرد سے ملنے کی اجازت ہی نہیں دیتا مگر ہماری اسمبلیوں میں موجود قیادت تو آئے دن یہ بیان دیتی رہتی ہے کہ مولویوں کو اس ملک میں رہنے ہی نہیں دینا اور دیگر اسی طرح کے متضاد بیانات آئے دن میڈیا پہ سنتے رہتے ہیں جن سے دین دار طبقہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔

تصوف کی دنیا کے بے تاج بادشاہ حضرت بایزید بسطامی سے کسی نے پوچھا کہ عورت اپنے غیر محرم سے پڑھ سکتی ہے؟ تو جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ ،،،مدرسہ صحن حرم ہو نصاب قرآن پاک ہو اور پڑھنے والی رابعہ بصری ہو پڑھانے والا بایزید ہو تب بھی منع ہے،،، آج ہم کیا بونے جارہے ہیں ہمارا نصاب تک تبدیل کردیا گیا نبیۖ کی پاک سیرت کے بجائے یہود ہنود کے بڑوں کے تذکرے شامل کردیے گئے شجاعت حیدری کی جگہ لارڈ مائونٹ بیٹن اور جناب فاطمہ کی جگہ امریکہ کی سائنسدان ہمارے نصاب کا حصہ بن گئی تو ہمارے گھروں میں صلاح الدین ایوبی نور الدین زنگی پیدا ہونے کی امید ایسے ہی ہے جیسے بابا بلھے شاہ نے فرمایا کہ ،،، کیکراں دے بیج گڈ کے کتھوں لبھنا ایں پشاوری ناکھاں ،،،یعنی کیکر کے بیج بو کر پھل ناشپاتی کھانے کی امید رکھنا ایسے ہی ہم نے اپنے معاشرہ میں اپنی اولادوں کو اسلام کا درس دینے کے بجائے دنیا کو کافی جانا آخر میں ایک واقعہ عرض کرتا چلوں۔

امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے بیٹے حضرت عبد اللہ جو کہ صحابی بھی ہیں کی بیوی نے اپنے سسر حضرت عمر کو بد تمیزی سے بلایا تو رسول اللہ کی بارگاہ میں جا کر عمر رونے لگے آپۖ نے حیرانگی سے دریافت فرمایا کہ میرا عمر کیوں رو رہا ہے تو آپ نے اپنی بہو کے ناروا رویہ کی شکائت کی تو نبی آخر الزمان نے حضرت عبد اللہ کو دربار رسالت میں طلب فرما کر اسی وقت اس عورت کو طلاق دینے کا حکم دیا جسے جناب عبد اللہ نے من و عن تسلیم کیا اور اپنی بیوی کی بات سنے بنا طلاق ہاتھ میں دیکر گھر سے فارغ کردیا آج کوئی سسر اپنی بہو پر کوئی باپ اپنے بیٹے پر اتنا حق رکھتا ہے ہرگز نہیں کیونکہ سب کی اپنی اپنی زندگی ہے والسلام۔

Manzoor Faridi

Manzoor Faridi

تحریر : منظور احمد فریدی