اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر دریویش کے غیر قانونی اقدامات

Islamic University

Islamic University

تحریر : عتیق الرحمن
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی عالم اسلام کی مایہ ناز علمی دانش گاہ ہے۔ جو گزشتہ ٣٠ سال سے زائد عرصہ سے علمی و تحقیقی خدمات کا مرکز ہے جہاں پر دنیا بھر سے طلبہ و طالبات آکر
علمی تشنگی بجھاتے ہیں۔اگرچہ یونیورسٹی کی تاسیس کے محرکات سے متعلق بہت سے سوالات ہیں۔کہ پاکستان ،امریکہ اور عرب ممالک کے بادشاہوں کی سرپرستی میں معرض وجود میں یہ یونیورسٹی قائم ہوئی جس سے متعلق کہا جاتاہے کہ دراصل امریکہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اس کو تختہ مشق بنائے اور امریکہ ڈالروں کی جھنکار سے عرب دنیا کو مرعوب کرتے ہوئے من پسند لوگوں کو اس جامعہ میںتعینات کراتاہے۔اس جامعہ کی قیادت ایک طویل عرصہ تک مصر و سعودی عرب کے شیوخ کے ہاتھ میں رہی ہے ۔تاہم ١١/٩ کے بعد جامعہ کے صدر پاکستانی بھی رہے مگر ان کو آزادانہ طورپر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے میں سنگ گراں سے گزرنا پڑا اور بلآخر ٢٠١٢ میں ایک بار پھر یونیورسٹی کا انتظام سعودی عرب کے حوالے کیا گیا۔

سعودی عرب کے ڈاکٹر احمد یوسف الدریویش کی تعیناتی اقرباپروری و کاسہ لیسی اور امریکی ڈالروں اور سعودی ریالوں کی چمک کی وجہ سے ہوئی اور دریویش کو پہلے دوسال تک غیر قانونی اور بعد میں ٤سال کیلئے قانونی صدر بنایا گیا۔ اہل حل و عقد بخوبی آگاہ و واقف ہیں کہ سعودی عرب کا مزاج و طرز عمل شورائی نہیں بلکہ آمرانہ ہے اور اسی طرح روح اسلام کی من پسند و شدت و تعصب پر مبنی سوچ کا حامل ہے اور ماسویٰ کو یک جنبش قلم مشرک و بدعتی کے طعنے دیکردیگر مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوجاتے ہیں اور اسی طرح وہ دین اسلام جو انسانوں کو عزت و عظمت کی ترقی پر پہنچانے کیلئے آیا کی ترویج و اشاعت اور اسلامی ریاست کے قیام میں سدود و روکاوٹیں ڈالنے میں سعودی قیادت پیش پیش رہی ہے۔

اسلامی یونیورسٹی چونکہ علمی دانش گاہ ہے تو لازمی بات تھی کہ یہاں کی زمام اقتدار معتدل الفکر ومتوسط المزاج کے حوالے ہوتی تاکہ وہ اس مادر علمی کی آغوش میں آنے والے ہر طالب علم کو اپنی آغوش میں پناہ دے سکتا مگر افسوس خالص فرقہ بندی کی بنیاد پر یونیورسٹی میں سلفیت و سفلیت کو فروغ دیا گیا اور ان کو جائز و ناجائز ہرذرائع سے ماعدا پر فوقیت دی گئی۔ غیر قانونی طور پر تقرریاں ہوئی تو کہیں غیر قانونی ترقیاں ،اسی طرح ریٹائر سلفیوں کو صرف اس لیے کنٹریکٹ پر اعلیٰ عہدوںپر برقرار رکھا گیا کہ صدر جامعہ میں سیاہ سفید کا کلادھن بآسانی طورپر چلا سکیں ۔خلاف ضابطہ و غیر قانونی طور پر مشیروں اور معاونین کی فوج ظفر موج مقررکی گئی،غیر متخصصین کو اہم وکلیدی منصب عنایت کیے گئے۔ حج و عمرہ اور سکالرشپ و پروموشن کی لالچ و رشوت دیکر طلبہ و اساتذہ اور ملازمین کی تنظیموں کی ہمدردیاں بٹوری گئیں۔یونیورسٹی کا پیسہ جاہ و حشمت اور عیش و عشرت اور پروٹوکول کے کاموں پر بہایا گیا اور بے فائدہ و بے مقصد کانفرنس و سیمینار اور ورکشاپس منعقد کی گئیں جن پر کروڑوں خرچ کیے گئے مگر عمل تو خود ہی نہیں کیا ان کانفرنسز کی سفارشات پر چہ جائیکہ ملک و ملت کی فکری و نظریاتی آبیاری ہوتی۔

یہی نہیں بلکہ سعودی نژاد صدرجامعہ کے عہد میں جامعہ ترقی کی بجائے تنزلی کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ میں گھر چکی ہے کہ جب موصوف تشریف لائے تو یونیورسٹی ملک کی پانچ بڑی یونیورسٹی میں شامل تھی مگر ڈاکٹر دریویش کی ناکام پالیسیوں اور سلفی و سفلی قسم کے لوگوں کی سرپرستی کی وجہ سے آج یہ یونیورسٹی ملک کی ٢٥ بڑی یونیورسٹی میں بھی شامل نہیں کہ اس کی علمی و تحقیقی استعداد و صلاحیتیں ماند پڑچکی ہیں۔طرفہ تماشہ ہے کہ ملک پاکستان کی واحد عالمی یونیورسٹی ہے مگر ایچ ای سی کی جانب سے جعلی ڈگریوں اور غیر متخصص اساتذہ و غیر معیاری اساتذہ ہونے کی بناپر ٢٥ سے زائد پی ایچ ڈی پروگرامز بند کردیے گئے۔ اس تباہی و بربادی کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر دریویش اور ان کے نااہل و ناہنجار مشیر ہیں۔

اسلام و مسلمانوں کا ازلی و ابدی دشمن اور لاکھوں فلسطینیوں کی عزت تار تار کرنے والا ملک اسرائیل جو کہ امریکہ کا دم چھلا ہے کا کلچر ڈے یونیورسٹی میں منایا گیا جس کا افتتاح خود ڈاکٹر دریویش کی اہلیہ نے کیا ۔ اسی طرح یونیورسٹی سے طلبہ و اساتذہ کو ذلیل و بے توقیر کرکے نکالا گیا ۔جب ان جیسے متعدد جرائم پر الیکڑانک و پرنٹ میڈیا نے آواز اٹھائی تو ان کی منہ بندی کیلئے چند بڑے صحافیوں کو اعلیٰ ضیافتوں سے نوازنے کے ساتھ اخبارات کو رشوتی اشتہارات دے دلاکر ان کے مالکان کو خریدا گیا۔اسی کے ساتھ ہی یونیورسٹی میں جعلی ڈگریوں کے حاملین کی مکمل سرپرستی کی جاتی رہی جس کا ثمر و انعام بھی یونیورسٹی کے سعودی نژاد صدرڈاکٹر احمد یوسف الدریویش کو اس طورپر ملا کہ ان کے بیٹے عبدالمجید الدریویش کو بی ایس آئی آر کی چارسالہ ڈگری ایک سمسٹر یونیورسٹی میں گذارنے اور بغیر امتحان و بغیر تعلم کے جاری کردی گئی۔ اس معاملہ کو ملک بھر کے میڈیا اور عالمی میڈیا خصوصاً عرب ٹی وی چینلز و ویب سائیٹ نے شدومد سے اٹھایا کہ سعودی نژاد صدر نے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو اعلیٰ ڈگری جاری کروائی جس کی تحقیقات کا حکم ریکٹر جامعہ ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے دے دیا ہے۔اس سب کے باوجود بھی ڈاکٹر یوسف الدریویش مصر ہیں کہ انہیں جامعہ میں مزید کام کا موقع فراہم کیا جائے۔

آخر کب تک پاکستان اور پاکستانی قو م امریکہ و سعودیہ کی غلام رہے گی اور اپنے ملک کی کریم اور باصلاحیت قوم کے جوانوں کو فرقہ پرستی و شدت پسندی اور گروہیت کے تعصب میں مبتلاکرکے اپنی ہی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی رہے گی ۔ یہ سوال حکومت پاکستان ،صدر پاکستان،چیف جسٹس آف سپریم کورٹ، وزیر تعلیم، وزیر داخلہ اور آرمی چیف کی توجہ کا متقاضی ہے کہ نسل نوکو اعلیٰ علمی تحقیقی و تخلیقی راہ پر گامزن کرنے والی جامعہ ہی تنازعات اور فسادات کا مرکز بن چکی ہے کیا وجہ ہے کہ ان ناہنجاروں کو کھل کھیل کھیلنے کی اجازت کیونکر دے رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک پاک میں امن و آشتی کی خاطر اٹھائے جانے والے تمام تر اقدامات بے فائدہ و لاحاصل ہیں تاوقتیکہ ملک کے اندر آنے والے ہر فرد وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، عرب ہو یا غیر عرب سب کی نقل و حرکت کو پاکستانی ہونے کی حیثیت سے جائزہ لیا جائے کہ مبادا وہ ہمیں اور ہمارے ملک کو بدنام و کھکھلا کرنے کی سازشوں میں مصروف نہ ہو۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی یونیورسٹی سمیت پاکستان کی تمام جامعات کا کنٹرول پاکستان کی آرمی کے پاس ہونا چاہیے کہ وہاں ملک و ملت دشمن سازشوں کا بھی سدباب ہو سکے۔

Atiq ur Rehman

Atiq ur Rehman

تحریر : عتیق الرحمن
0313-5265617
atiqurrehman001@gmail.com