کیا ہی وہ زمانہ تھا

Islam

Islam

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ستر کی دہائی ہے۔ اسلامی دنیا اپنے عروج پر تھی عرب ریاستوں میں تو تیل کی دولت پانی کی طرح زمین پر امڈ آئی ایران بھی اس سے مستفید ہوا۔ ساتھ ہمارا پاکستان بھی اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک اور زرعی ملک بن کر ابھرآیا ۔ ادھر شاہ فیصل مرحوم نے اپنا آپ منوایا۔ ادھر مرحوم ذولفقار علی بھٹو نے اپنا آپ دیکھایا۔ ادھر مصر کے حسنی مبارک نے لیبیاء کے کرنل قذافی شام کے حافظ اسد ،عراق کے صدام نے تعمیر سے ملک میں اپنا نام کمایا۔ دنیا بھر کے لوگ تارک وطن بن کر عرب ریاستوں کی طرف ٹوٹ پڑے ۔ حتی کہ یورپ اور امریکہ کے گورے بھی نوکر وملازم بن کر عرب ریاستوں میں پہنچ گئے۔ وہاں تعمیر و ترقی کا ایک انقلاب آگیا۔ عرب صحرا یورپ ، پیرس کے ترقی یافتہ شہروں میں بدلنے لگے۔ جدہ، ریاض ، ابو ظبہی ، دبئی ، قطر ، امان بھی سکندر یہ قاہرہ اور حمعص شام ، بغداد ، بصرہ کے شہر بھی فلک بوس عمارات اگلنے لگے ان ریاستوں کے ساحل دنیا کے جدید ترین ساحل بن گئے مغربی ممالک کے گورے سیاح بن کر اس طرف ٹوٹ پڑے ۔ ساتھ ان مسلم ممالک کے دانشور سربراہان نے اسلامی سربراہی کانفرنس کی صورت میں اپنے اپنے سر جوڑ لئے ۔ کبھی لاہور میںاور کبھی طائف میں یہ حاضری دینے لگے۔ یورپ وامریکہ سے دامن چھڑانے بچانے اورمتحدہ اسلامی کونسل بنانے کا سوچنے لگے تب پھر دشمنان اسلام اور رقیب روساء کے کان کھڑے ہو گئے۔ پہلا وار انہوں نے اسلامی دنیا کے سب سے بڑے ملک پاکستان کو دو ٹکڑے کر کے کیا۔

سعودی مملکت اور مسلمانوں کے خیر خواہ مدبر ودانشور عظیم رہنما۔ شاہ فیصل کو ٹھکانے لگا دیا۔ ادھر ہمارے روشن دماغ ذولفقار علی بھٹو کو ہم سے چھین لیا۔ ایران ، عراق کو لڑایا ۔ ایک عشرہ بھر ان دونوں کو گتھم گھتا رکھا۔ تباہ کیا برباد کیا۔ ایرانی اسلامی انقلاب کا گلہ دبادیا۔ اورپھر ابھی وہ سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ صدام کو کویت پر چڑھادیا۔ اس کا حوا بنا کر تمام اسلامی ریاستوں کو اس کے مقابل لا کھڑا کردیا۔ اسکے دوچار دیسی میزائل کو سعودی مملکت کی طرف رخ کر کے ۔ اسکی آئل فیکٹریوں کو جوہری پلانٹ ثابت کر کے اقوام عالم کی افواج کا جتھا بنا کر چڑھائی کر دی۔ بس اپنا کھربوں کا اسلحہ اور کرائے کے یہاں فوجی بٹھا دیئے۔ تیل کنویں خشک ہو نے لگے انکی آمدن کرائے کے فوجیوں اور سالوں گوداموں میں پڑے انکے پرانے اسلحے کی نظر ہونے لگی ۔ عراقی افواج میں بغاوت اور دن رات کی گولہ باری میزائل باری نے بغداد بصرہ کو پھر سے اجاڑ دیا ۔ کھنڈرات بنا دیا۔ للکارنے والے صدام کو سولی چڑھا کر وہاں مالکی اور مقتدر کو بٹھا دیا۔ شیعہ سنی ہی نہیں کردستانی ھوا بھی کھڑا کر دیا۔ سالوں اکڑنے والے اور لاکر بی طیارے کے مجرموں کو پناہ دینے والے قذافی کو کمند ڈال کر عوامی انقلاب کے نام پر لیبیاء کی اینٹ سے اینٹ بجادی تیونس کے بورقبیہ اورمصر کے چالیس سالوں سے مسلط حسنی مبارک کا بھی دھڑن تختہ کر وادیا۔ وہاں اسلامی انقلابی حکومتیں قائم ہونے پر وہاں بھی اپنے زر خرید۔

سیسی جیسے جنرلوں کو بیٹھا دیا۔ ادھر روس کے خلاف پگڑ پوش طالبان اور ان کی پشت پر پاکستان کو کھڑا کر کے دوسری بڑی سپر پاور کو گھر بیٹھا دیا۔ افغان میں اسلامی انقلاب لانے والے طالبان کو حوا بنا کر ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے اپنے جہاز ٹکرا کر اقوام کی افواج کا جتھا وہاں بیٹھا دیا۔ زرخرید بے ضمیر کرزئی کو تاج و تخت دیکر سارے افغانستان کا تورا بورا بنا دیا۔ اور پھر اسلامی دنیا کی واحد اور دنیا کی ساتویں جوہری قو ت کے حامل پاکستان کے خلاف اپنے سازشی بنا کر اسے دہشت گردی کی دلدل میں پھنسا دیاگیا۔ ایک لاکھ سے زائد سول اورفوجیوں کی زندگیاں چھین لیں ۔ معاشی ہی نہیں دفاہی لحاظ سے بھی داخلی سرحدوں کو ایک نہ ختم ہونے والی بے مقصد جنگ میں پھنسا دیاہے۔ ادھر سوریا کے نئے حکمران کو اپنے ہی عوام اورملک کی بربادی اور قتل عام پے لگا دیا۔ کئی سال گزرنے کے باوجود لاکھوں عوام کا قتل عام اور گھروں نے بے گھر ہونے والوں کو دربدر چھوڑکر ان کے جدید ترین شہروں کو کھنڈرات بنا دیا ہے۔ قارئین ادھر واحد بچ جانے والی اسلامی ریاست مملکت سعودیہ کے امن وسکون کو تاراج کر کے انہیں یمن پر چڑھادیں ہیں۔ مقابل میں انکے اپنے ہی برادر ملک ایران کو لا کھڑا کردیاہے۔

Syria Blast

Syria Blast

یمن ہو یاشام عراق ہو یا لبنان شیعہ سنی کو آپس میں گتھم گتھا کرا دیا۔ او رانکے بغل بچہ غاصب اسرائیل کو تحفظ فراہم کردیا گیا ہے نتیجتا تمام عرب ریاستوں کو داخلی انتشار میں مبتلا کر کے انکی تیل کی دولت لوٹنے کا انتظام اور لاکھوں افریقہ اور ہمارے برصغیر سے گئے ہوئے محنت کشوں کو اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کا سبب بنا دیاگیا ہے۔ قارئین عربوں پر اسرائیل کو مسلط اور برصغیر جنوبی ایشیا میں انڈیا کو ٹھیکیدار بنا دیا گیاہے۔ جس کے ذریعے دن رات ہماری داخلی اور خارجی سرحدوں پر اور ملک بھر میں دہشت گردی اور دھماکوں کا طوفان کھڑا کر دیا گیاہے۔ ساتھ افغانیوںکی پیٹھ ٹھونک کر ہم پر ہمارے شہریوں پر ایک نہ ختم ہونے والے شب خون مارے جارہے ہیں چالیس سالوں سے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کی مہربانی روس کے خلاف انکی پشت پر کھڑے ہونے کی قربانی بھی وہاں کے کرزئیوں کو ہمارے مخالف بلاک میں کھڑا ہونے سے نہ روک سکی۔ آج ہمارے شہر شہر قریہ قریہ مسجد یں خانقاہیں بھی ان کی اور ان کے پیدا کردہ دہشت گردوں کی دہشت گردی سے محفوظ نہیں بلوچستان ہو یا کراچی سندھ کے پی کے ہو یا پنجاب وہاں گزشتہ دنوں دھماکوںکی سیر یز نے سینکڑوں جانوں بے گناہ شہریوں کے ضیاء نے ساری قوم کو مفہوم نیا دیا ہے۔ گھر گھر ماتم کہاں ہیں۔ ہماری سرحدوں پر آئے روز ان کی گولہ باری اور سرحدی شہریوں کی جانوں کا ضیاع ان ہی کی سازشوں عداوتوں شرارتوں کا نتیجہ ہے۔

درحقیقت پہلے انہیں ہماری جوہری قوت ہضم نہیں ہو رہی تھی جوکہ دن بدن لاتسخیر بن چکی ہے۔ اور اب پاکستان کو معاشی حب بنانے والے سی پیک منصوبے نے ان کے اوسان خطا کردیئے ہیں جس میں چائنہ روس اور ایران کی امکانی شمولیت ان کے سازشی ذہنوں پر ایک طمانچہ ہے اب واحدرہ جانے والی سپر پاور کو بھی چائنہ روس کا یہاں گرم پانیوں تک پہنچانا کنٹرول حاصل کرنا ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے یہ بدخواہ یادرکھیں ۔ انشاء اللہ ہم دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ معاشی قوت بھی بن کر رہیں گے اور اپنے خیر خواہ ہمسایوں کوبھی ساتھ لیکر چلیں گے۔ ان کی داخلی اور خارجی سرحدی شرارتوں کے قلع قمع کر نے کے ساتھ داخلی موجودہ دہشت گردی کے خاتمے کو بھی ممکن بنا کر اپنے ملک وعوام کو امن کا گہوارہ بنائیں گئے اور کشمیر اور فلسطین کی آزادی کا حصول بھی ممکن بنائیں گے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج تمام اسلامی ریاستیں اور انکے حکمران اپنے اپنے داخلی قضیوں فتنوںمیں اسقدر مبتلا ہیں کہ انہیں اپنے کسی برادر ملک کا قضیہ نظر آتا نہیں سب کے اپنے گھروں میںآگ لگی ہے۔ انہیں اپنی مظلومیت کے سوا کسی دوسرے کی مظلومیت نظر نہیں آتی۔

بیرونی سازشوں نے فتنوں نے گھر گھر ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ا ور اس پر ہماری صفوں میں ہر جگہ ہر خطے اور ہر ریاست میںانہیں میر جعفر اورمیر صادق باآسانی میسر ہیں۔ لیکن انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا۔ جب ستر کی دہائی کی طرح ہمارے مدبر ومفکر اور مسلم حکمران پھر سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور آپس میںملکر دشمنوں کی چالوں فتنوں سے جان چھڑائیں گے۔ اور ایک دوسرے کی اخلاقی سپاہی وسفارتی مدد کو آن کر پھر سے شاہ فیصل بھٹو ، ضیا الحق اوراپنے سابق مسلم اکابرین جیسی اسلامی دنیا بنائیں گے آباد کریں گے۔ انشاء اللہ جو بدقسمتی سے آج اپنا وزن انڈیا جیسے غاصب ملک کی جھولی میں ڈالے ہوئے ہیں۔ کشمیر فلسطین کے دیر ینے قضیوں کو نظر انداز کر کے وہاں کی عوام کی مدد کے بجائے انڈیا کے ساتھ تجارتی معاہدوں کی صورت میں اس کی معیشت کو مضبوط سے مضبوط کرتے جا رہے ہیں۔ اللہ ہی ان کو ہدایت دے اور امت کا خیر اخواہ بنائے آمین۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے نیل کے ساحل سے لیکر کاشغر تابخاک

Haji Zahid Hussain

Haji Zahid Hussain

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
hajizahid.palandri@gmail.com