اسرائیل ! ناجائز بچہ اور دہشت گرد ہے !

Israel

Israel

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا

اسرائیل ناجائز بچہ ہے۔ اس ناجائز بچے کو کس نے پیدا کیا اور اس کی پرورش کون کر رہا ہے ۔ اس کو سمجھنے کے لئے تاریخ کی ورق گردانی بتاتی ہے کہ، جب مشرق وسطیٰ میں عثمانیہ سلطنت کو شکست دے کر ختم کردیا تو برطانیہ اور فرانس نے 1916ء کے معاہدہ ”سائیکس اور پیکاٹ” کے تحت مشرق وسطیٰ کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس معاہدے کے مطابق فلسطین برطانیہ کے حصے میں آیا۔ برطانیہ نے فلسطین پر 1918ء میں قبضہ کر لیا اور دو سال بعد ”سن رومیو” امن کانفرنس میں فلسطین پر اپنا منڈیٹ حاصل کر لیا۔

فلسطین پر منڈیٹ کا ایریا (Mediterranean) سمندر سے لے کر دریائے اژون تک پھیلا ہوا تھا۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بلفور نے یہودیوں کی ڈائنٹ تحریک سے وعدکیا تھا کہ حکومت برطانیہ فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لئے ایک الگ قومی ریاست کے قیام کے لئے مدد کرے گی( یعنی ناجائز بچے اسرائیل )۔ اسی وجہ سے اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے لئے ”بلفور اعلامیہ” کو اہم سمجھا جاتا ہے۔

کتنا بھیانک ظلم ہوا ہے کہ1922ء میں فلسطینیوں کی آبادی سات لاکھ تھی اور یہودیوں کی آبادی صرف اسی ہزار تھی۔ لیکن 1948ء میں جب اسرائیل معرض وجود میں آیا تو فلسطینی مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ملین تھی اور فلسطینی یہودیوں کی آبادی چھ لاکھ تھی۔ انگریزوں کا مینڈیٹ فلسطین پر اس وقت ختم ہوا جب اسرائیل کو معرض وجود میں لایا گیا۔ اس وقت کے وزیر خارجہ آرتھر بلفور نے ایک خط بنکنگ کے امیر ترین یہودی لارڈ راتھ چائلڈ کو لکھا تھا۔ اس خط میں وزیر خارجہ نے یہودیوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی حکومت فلسطین میں یہودی ریاست قیام کرنے میں پوری مدد کرے گی۔ خط کا متن اس طرح تھا:

”ہز میجسٹی کی حکومت فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کے لئے قومی ریاست قائم کرنے کے حق میں ہے اور یہودی ریاست قائم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گی۔ اور تمام سہولیات بھی فراہم کرے گی۔ اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس ریاست کے اندر غیر یہودی آبادی کے خلاف کوئی ایسی بات نہیں ہوگی کہ جس سے غیر یہودی آبادی کے سیاسی سٹیٹس یا انسانی حقوق میں کسی قسم کا تعصب برتا جائے”۔دنیا نے دیکھا اسرائیل کا فلسطین کی دھرتی میں 14مئی 1948ء سے آغاز ہو گیا۔ ایک دستاویز بھی شائع ہوئی جس کے ذریعے یہودی ریاست ”اسرائیل” کا اعلان ہوا۔ اس دستاویز کی رو سے اسرائیل کے سب شہریوں کے معاشرتی مذہبی سیاسی حقوق بلا امتیاز نر و مادہ کے مساوی رکھنے کا اعلان کیا گیا اور برابری کے سلوک کا ذکر تھا۔ نسلی امتیاز کے خلاف بھی ذکر کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ اس فلسطین جس کو اسرائیل میں تبدیل کیا جارہا تھا۔ وہاں کی آبادی کا بڑا حصہ فلسطینی مسلمانوں کی آبادی کا تھا۔ اور مسلمان عربی نسل کے مقامی باشندے تھے۔

اس اعلامیہ میں یہ وعدہ بھی درج تھا کہ اسرائیلی حکومت ایک واضع طریقے سے آئین سازی کرکے اپنا آئین اکتوبر 1942ء سے پہلے مرتب کرے گی۔مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے کے مترادف لیکن اسرائیل نے یہ وعدہ آج تک پورا نہیں کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ غیر قانونی ہتھکنڈوں سے فلسطینیوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں اور نہیں چاہتے کہ آئین کی رو سے وہ عدالتوں میں چیلنج ہو سکیں ۔ اسرائیل کے اندر فلسطینیوں کے شہری حقوق سلب کئے جارہے یا جارے ہیں۔اپنے ہی ملک میں فلسطینوںکو تحریر تقریر، صحت، تعلیم، ملازمت اور باقی تمام معاشرتی حقوق غصب ہیں۔ جو بین الاقوامی قوانین کی بڑی خلاف ورزی ہے۔مگر اس اسرائیل ناجائز بچہ اوربڑے بڑے ملکوں کی پشت پنائی اور آشیرباد حاصل ہے۔ دنیا کے یہودیوں کی تعداد تقریباً کل 14ملین کے قریب ہے۔ تقریباً چھ ملین یہودی اسرائیل میں رہتے ہیں۔ تقریباً پانچ ملین یہودی نارتھ امریکہ میں رہتے ہیں دو ملین یہودی یورپ میں رہتے ہیں۔ ان کی اکثریت برطانیہ اور فرانس میں ہے۔ ۔ اسرائیل کے اندر اس وقت پوری آبادی کا پانچواں حصہ فلسطینیوں کا ہے جو برائے نام اسرائیلی شہری ہیں۔ ان کو اسرائیلی حکومت ”عرب اسرائیلی” کے نام سے منسوب کرتی ہے۔

یہودی یہ بھی دعوے کرتے ہیں کہ فلسطین اور اس کے ارد گرد کا علاقہ ان کے لئے عطیہ خداوندی ہے۔

سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسرائیل کی بنیاد رکھنے سے پہلے برطانیہ، امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں نے یہودی مطالبات کے مطابق دنیا کے کئی ممالک سے یہودیوں کو فلسطین میں داخل کیا گیا۔ دنیا بھر سے یہودیوں نے فلسطین میں داخل ہوکر خوفناک فسادات اور افراتفری میں بے چینی اور دہشت گردی کی آگ کے شعلے خطرناک حد تک بھڑکا دئیے ۔فلسطین کے اندر مقامی یہودیوں سے مل کر باقاعدہ گوریلا جنگ شروع کر دی اور قتل و غارت کو روزمرہ کامعمول بنا دیا۔ باہر سے نئے آنے والے یہودی اور مقامی یہودی بہترین ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ ان کو بڑی طاقتوں کی حمایت اور آشیرباد بھی حاصل تھی جنہوں نے عربوں کے فلسطین میں یہودیوں کا ملک بنانے کی حکمت عملی تیار کی تھی۔ وہ اس پروجیکٹ کو فیل نہیں ہوتے دیکھ سکتے تھے۔ نئے اور پرانے مقامی یہودیوں نے مل کر فلسطینیوں کو قریہ قریہ، گاؤں گاؤں اور گلی گلی دہشت گردی کانشانہ بنا کر قتل و غارت کا بازار گرم کردیا۔ فلسطینیوں کے پاس سامان حرب سرے سے تھا ہی نہیں۔ یہودیوں کو کئی ذرائع سے مسلح کیا جارہا تھا۔ یہودی پشت پر مغرب کا دستِ شفقت تھا۔ فسلطینی نہتے، پس ماندہ، بے سہارا اور بے یار و ماددگار تھے۔ فلسطینی بھی بہادری سے لڑے لیکن ان کی حکمت عملی ناقص تھی اور لیڈر شپ ناپید۔ یہودی پڑھے لکھے امیر اورتجربہ کارتھے۔
فلسطین کا بچہ بچہ کل بھی ذہنی آزاد تھا اور آج بھی ذہنی طور پر آزاد ہے ۔فلسطینی خالی ہاتھ، پتھر، کنکر اور غلیلوں سے دنیا کے جدید اسلحہ ، ٹیکنالوجی، مزائل۔ گنوں، بموں،کا جانفشانی سے مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرماکر سرخروہوجاتے ہیں یہ وہ ہی فلسطین ہے جس کے متعلق۔ حضرت ابوذرسے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دنیا میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ ۖ نے فرمایا (مکہ کی) مسجد حرام میں نے عرض کیا پھر کون سی؟ آپ ۖنے فرمایا (بیت المقدس کی) مسجداقصی، (صحیح بخاری)

خانہ کعبہ کو روئے زمین پر خدا کے پہلے گھر ہونے کا شرف حاصل ہے جبکہ بیت المقدس اس کے ٣١ سو برس بعد حضرت سلیمان کے ہاتھوں تعمیر ہوا۔جسے بیت الحرم سے 40منزل دور کہا گیا۔نبی کریم ۖ نے سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگیا۔امیر المومنین علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں: دنیا میں چار جنتی قصر پائے جاتے ہیں جن میں ایک بیت المقدس بھی ہے۔(سفینة البحار)
مسجد اقصیٰ مسلمانوںکا قبلہ اّول تھا۔ سترہ ماہ تک اس کی طرف منہ کرکے نمازیںپڑھی جاتی رہیں۔ (البقرة: 2)
٭ مسجد اقصیٰ ہی وہ جگہ ہے جہاںسے اللہ تعالیٰ اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج پر لے گئے۔ (الاسرائ: 15)
٭ مسجد اقصیٰ وہ مسجد ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن کریم میں کیا ہے۔ (الاسرائ: 15)
٭ فلسطین وہ مقدس سرزمین ہے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں بابرکت زمین کا خطاب دیا ہے۔ (الاسرائ: 15) ٭ فلسطین وہ مقدس سرزمین ہے جہاں جلیل القدر انبیاء کا ورودہوا۔ (بخاری) ٭ فلسطین بیت المقدس کو مسلمانوں میںسے سب سے پہلے حضرت عمر نے فتح کیا۔

پھر گیارہویں صدی عیسوی میں یورپی عیسائیوںنے اس پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوںپر وہ مظالم ڈھائے جو انسانیت سے دوری، کم ظرفی اور جہالت کی عداوت کے طور پر یاد رکھے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد کو مسجد اقصیٰ میں لاکر ذبح کیا گیا۔ مسجد میں گھوڑوں کا اصطبل بنایا گیا۔ کئی سال تک عیسائی بیت المقدس پر قابض رہے۔ ارض فلسطین تاریخ کے آئینہ میں:سن 1187 ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کیا۔

اسرائیل اپنے باپ امریکہ اور یہودی دنیا کے بل بوتے پر پورے فلسطین پر قابض ہونا چاہتا ہے۔وقت آگیا ہے اللہ اور اللہ کے حبیب ۖ کے پسندیدہ دین اسلام کے مظلوم بے بس اور لاچار فلسطین کے مسلمانوں کی عملی مدد کی جائے خالی بیان بازی اور قراردادیں مسئلے کا حل نہیں ۔ قانون قدرت ہے جب ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اگر امت مسلمہ اپنی مدہوشی سے باہر نہ نکلی تو اللہ پاک کسی نہ کسی کو سلطان صلاح الدین ایوبی بنا کر بھیج دے گا جو فلسطین کی مدد کرے گا مگرسربرانِ مملکت اسلامیہ کو قیامت کے دن کس منہ سے اللہ پاک اور پیارے نبی سردارالانبیاء حضرت محمد ۖکا سامنا کریں گئے۔ اور پھر اللہ اور اللہ کے رسول ۖ نے پوچھا کہ ہم نے دنیا میں آپ کو طاقت دی تھی پھر فلسطین کے مظلوموں کی مدد کیوں نہیں کی تھی؟

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا