مسئلہ کشمیر پر بیک چینل ڈپلومیسی ناقابل قبول

Prime Ministers of India and Pakistan Met

Prime Ministers of India and Pakistan Met

تحریر: احسن چوہدری
روس میں پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات جس میں کشمیر کا ذکر تک نہ ہوا کے دو روز بعد بھارت سرکار نے بوکھلاہٹ میں آ کر مقبوضہ کشمیر میں ریلیوں اورپاکستانی جھنڈے لہرانے پر پابندی لگا دی۔ اگرچہ اس ملاقات کے بعد وزیراعظم نواز شریف کے مشیر ،وزیر وضاحتیں دے رہے ہیں لیکن کشمیری و پاکستانی قوم انہیں ماننے کو تیار نہیں۔میاں نواز شریف کے پاس مودی سے کشمیر پر بات کرنے کے لئے ایک سنہری موقع تھا جسے ضائع کر دیا گیا۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و امور خارجہ سرتاج عزیز وضاحتیں دیتے پھر رہے ہیں۔کہتے ہیں کہ کشمیر کے ایجنڈے کے بغیر بھارت کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔

کشمیر کے بنیادی مسئلہ پر پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے، ہم اپنے کشمیری بھائیوں کی اخلاقی، سیاسی و سفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔ یہ بریفنگ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ اوفا (روس) کا فالو اپ تھی جہاں انہوں نے 9 سے 10 جولائی تک شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی اور چین، بھارت، روس اور افغانستان کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات کے متعلق مشیر نے کہا کہ یہ ملاقات 13 ماہ کے بعد ہوئی جو ایک اچھا آغاز ہے۔ مشترکہ بیان میں کشمیر کو شامل نہ کئے جانے پر تنقید کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ملاقات کسی مذاکراتی عمل کا کوئی باضابطہ حصہ نہ تھی بلکہ اس کا مقصد جموں و کشمیر کے بنیادی مسئلہ سمیت تمام ایشوز پر سٹرکچر ڈائیلاگ کے لئے مفاہمت تھا۔مشترکہ بیان میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی یہ اجتماعی ذمہ داری ہے کہ امن و ترقی کو فروغ دیا جائے جس کے لئے وہ تمام تصفیہ طلب مسائل پر بات چیت کے لئے تیار ہیں۔

تمام تصفیہ طلب مسائل میں کشمیر سرفہرست ہے جس میں سیاچن، سرکریک، مداخلت اور آبی تنازعہ جیسے دیگر اہم ایشوز بھی شامل ہیں۔ کشمیریوں کی تین نسلوں کی مشکلات کے باوجود کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا گیا اور پاکستان ان کی جائز جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران واضح طور پر اپنے اس اصولی موقف کا اظہار کیا تھا۔ سرتاج عزیز نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ اوفا میں پاکستان نے بھارت کے لئے کوئی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا۔ یہ ملاقات بھارت کی درخواست پر ہوئی تھی جو خوشگوار ماحول میں ہوئی اور ایک دوسرے کے موقف کو اچھی طرح سمجھا گیا۔ دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ مسائل کے حل کیلئے ٹریک ٹو ڈائیلاگ کو بحال کیا جائے جو دیرینہ عرصے سے زیر التواء ہے اور ان مسائل کے حل کی ضرورت ہے۔

Foreign Minister India And Pakistan

Foreign Minister India And Pakistan

بلوچستان سمیت پاکستان میں بھارت کی جاری مداخلت پر تشویش دور کرنے اور سرحد پار دہشت گردی کے بھارتی الزامات کے حوالے سے دونوں ممالک نے اپنے قومی سلامتی کے مشیروں کا اجلاس پہلے نئی دہلی میں اور پھر اسلام آباد میں منعقد کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ ملٹری آپریشنز کے ڈائریکٹر جنرلز کے درمیان ملاقاتوں کے بعد پاکستان رینجرز اور بھارتی بارڈر سیکورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرلز کے درمیان باقاعدہ ملاقاتوں کا موجودہ میکنزم رہنا چاہیے تاکہ 2003ء کی جنگ بندی پر مفاہمت کے مکمل اطلاق کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعظم نواز شریف نے سمجھوتہ ایکسپریس دہشت گرد حملہ کے کیس کی پیش رفت کے بارے میں بھی بھارتی وزیراعظم سے معلومات حاصل کیں جبکہ دوطرفہ تجارت کے ایشوز بھی زیر غور آئے۔

حریت رہنما یاسین ملک کہتے ہیں کہ کشمیری قوم بے زبان جانوروں کا ریوڑ نہیں جنہیںمفروضوں سے بہلایا پھسلایا جاسکے۔ مسئلہ کشمیر پر خفیہ ڈپلومیسی جاری رکھنے کا اعلان دراصل اس قوم کی صریحا توہین کے مترادف ہے۔ہماری تحریک آزادی پاکستان اور بھارت کی آزادی سے قبل شروع ہوچکی تھی اور تب سے آج تک جاری ہے۔ پاکستانی مشیر خارجہ کا یہ کہنا کہ مسئلہ کشمیر کو بیک ڈور ڈپلومیسی میں اٹھایا جائے گا دراصل کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے اور ثابت کررہا ہے کہ دراصل بھارت و پاکستان دونوں اپنے ملکی مفادات اور تجارتی تعلقات کی استواری کیلئے جموں کشمیر کو بیک برنرپر ڈالنا چاہتے ہیں۔

Kashmir

Kashmir

کشمیری کوئی بے زبان جانوروں کا ریوڑ تو نہیں ہیںکہ جن کے مستقبل کا فیصلہ کوئی اور اپنی من مرضی کے مطابق کرتا پھرے اور وہ بے خبر ہوکر خاموش تماشائی بنے رہیں؟ بھارت کی بی جے پی کی حکومت اپنے قیام کے اول روز سے اعلان کرتی پھررہی ہے کہ وہ مسئلہ جموں کشمیر پر کسی کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔ اسی تناظر میں کبھی مزاحمتی جماعتوں کے پاکستانی حکام سے ملاقاتوں پر شور اٹھایا جاتا ہے اور کبھی کچھ اور مفروضے گھڑ کر واویلا مچایا جاتا ہے۔ اب جبکہ روس میں پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کی ملاقات ہوئی اور ایک مشترکہ ڈکلریشن بھی سامنے آگئی جس میں کشمیر کا کوئی بھی ذکر نہیںتھا تو یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی کہ بھارت نے پاکستان سے اپنا موقف تسلیم کرالیا ہے۔

جب حقیقت واشگاف انداز میں سامنے ہے تو ایسے میں مسئلہ کشمیر کو خفیہ ڈپلومیسی کے ذریعے حل کرانے کے مفروضے گھڑ کر کس کو بے وقوف بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں؟ مزاکراتی عمل کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ یہ سنجیدہ ہو اور اس کا ہدف مسائل کے حل کی نیت ہو نہ کہ وقتی تفریح یا پھر اصل مسائل سے منہ پھیر کر وقت نکالنے کی بہانہ بازی ہو۔ بھارت و پاکستان دونوں ممالک کے لیڈران کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ ان کے مابین لڑائی اور صلح کا براہ راست اثر کشمیریوں پر پڑتا ہے اور یہ دونوں ملک جموں کشمیر کے کروڑوں لوگوں کو یرغمال رکھ کر آگے کا سفر طے نہیںکر سکتے۔ یہ خطہ 1947ء سے ہی بھارت کے قبضے میں ہے جس نے یہاں بڑی بے دردی سے انسانی خون بہا کر 600 سے زائد شہداء کے مزار آباد کئے، 6لاکھ لوگوں کو شہید کیا، 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کو لاپتہ کردیا گیا اور 7600 گمنام قبریں ہیں جن کے بارے میں کچھ نہیں معلوم کہ ان میں کون لوگ دفن ہیں۔

Kashmiri Shaheed

Kashmiri Shaheed

غلامی، بربریت، ظلم وتشدد اور سامراجیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے کشمیریوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ شہداء کے مقدس خون کا تقاضا ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو غداری کرنے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔ بھارت کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے تجدید عہد کرنا ہوگاکیونکہ بھارت نے جموں کشمیر پر جابرانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور مسئلہ کشمیر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے جس کا بھارت نے خود کشمیری عوام سے وعدہ کیا ہوا ہے۔

تحریر: احسن چوہدری