بیت المقدس کو اسرائیل کے چنگل سے آزاد کیا جائے

Jerusalem

Jerusalem

تحریر : ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
امریکہ میں گزشتہ سال عہدۂ صدارت کے انتخابات ہونے سے قبل ہی دنیا کی مختلف امن پسند تنظیموں و اداروں اور متعدد سیاسی شخصیات نے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر دنیا میں امن وسلامتی کے لیے خطرہ کا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ خود امریکہ میں ٹرمپ کی جیت پر جو مخالف مظاہرے اور احتجاجات ہوئے وہ اس سے قبل وہاں دیکھنے میں نہیں آئے۔ نیز 2017 میں امریکہ میں جو دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے وہ اس کی واضح علامت ہیں۔ 20 جنوری 2017 کو ٹرمپ نے امریکہ کے عہدۂ صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے اب تک متعدد ایسے فیصلے کیے ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی وہ تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ ٹرمپ کے بعض فیصلوں پر خود امریکی عدالتوں نے بھی پابندی لگائی جن پر ٹرمپ کو بہت ذلت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

اپنی شدت پسندی اور مسلم مخالف پالیسی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے تمام عالمی قوانین، قراردادیں اور بین الاقوامی برادری کے متفقہ فیصلوں کی دھجیاں اڑاکر ٹرمپ نے 6 دسمبر 2017ء کو یہ اعلان کرڈالا کہ اب وہ امریکی سفارت خانہ کو اسرائیل کے شہر تل ابیب سے ہٹاکر فلسطینی دارالخلافہ ’’القدس‘‘ منتقل کردے گا، جس کو بیت المقدس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ آج سے سو سال قبل دسمبر 1917ء میں برطانوی حکومت نے اپنی ظالمانہ وغاصبانہ پالیسی کے تحت عثمانی حکومت سے کم وبیش ایک ماہ کی جنگ کے بعد اس مقدس سرزمین کو مسلمانوں سے چھین لیا تھا۔ غرضیکہ ٹرمپ کے اعلان کے مطابق اب اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں بلکہ وہ بیت المقدس شہر ہوگا جو آج بھی عالمی پیمانہ پر فلسطین کا ایک شہر ہے، جس پر اسرائیل کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اُس نے 1967ء سے اُس پر ناجائز قبضہ کررکھا ہے۔ اسرائیل نے اپنی ہٹ دھرمی کا ثبوت دے کر 1980ء میں بیت المقدس شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کرکے تمام سرکاری دفاتر من جملہ پارلیمنٹ ہاؤس، سپریم کورٹ اور وزیر اعظم وصدرِ ملک کے گھر بیت المقدس شہر میں منتقل کردئے ہیں، لیکن اسرائیل کے اس ظالمانہ فیصلہ کے 37 سال گزرنے کے باوجود دنیا کے کسی بھی ملک نے آج تک بیت المقدس شہر کو اسرائیلی حکومت کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔ اسی وجہ سے کسی بھی ملک کا اسرائیل کے لیے سفارت خانہ بیت المقدس شہر میں نہیں ہے۔ بلکہ تمام سفارت خانے تل ابیب شہر میں ہی قائم ہیں۔ امریکہ کے یروشلم ایمبیسی ایکٹ 1995ء کے تحت 31 مئی 1999ء سے قبل اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ کو القدس شہر منتقل ہونا تھا لیکن 22 سال گزرنے کے باوجود اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا اور ہر چھ ماہ کے لیے اس کو مؤخر کردیا جاتاہے۔ یکم جون 2017ء کو ٹرمپ بھی اس کو ایک بار مؤخر کرچکے ہیں، یکم دسمبر 2017ء کو دوسری مرتبہ چھ ماہ کے لیے مؤخر کرنے کے بجائے اسرائیل کے دباؤ میں آکر ٹرمپ نے بالآخر 6 دسمبر 2017ء کو یہ اعلان کرڈالا کہ وہ القدس شہر میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرے گا۔

ٹرمپ کے اس فیصلہ سے دنیا میں ہلچل مچ گئی ہے۔ عرب ممالک سمیت مسلم رہنماؤں اور بین الاقوامی برادری نے ٹرمپ کے اس فیصلہ کی مذمت کی ہے کیونکہ ٹرمپ کے اس فیصلہ سے حالات خراب ہوں گے، خونریزی اور قتل وغارت گری میں اضافہ ہی ہوگا اور اس مذموم فیصلہ کی وجہ سے دنیا ایک ایسی جنگ کی طرف جاسکتی ہے، جس سے دنیا میں تباہی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ اس لیے امن پسند لوگوں کو چاہئے کہ ٹرمپ کے اس فیصلہ کی ڈٹ کر مخالفت کریں۔ چنانچہ اقوام متحدہ نے بھی ٹرمپ کے اِس فیصلہ کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ مسلم حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ اس موقع پر آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک آواز سے بین الاقوامی اداروں اور علاقائی تنظیموں کے ذریعہ امریکہ پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے مذموم فیصلہ کو پہلی فرصت میں واپس لے۔ نیز اس موقع پر مسلمانوں سے درخواست ہے کہ قبلہ اوّل کی یہودیوں کے چنگل سے مکمل آزادی کے لیے اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں کریں کیونکہ مسجد اقصیٰ میں یقیناًپنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے لیکن جس شہر میں مسجد اقصیٰ واقع ہے ، یعنی بیت المقدس اُس کا مکمل نظم ونسق اسرائیلی حکومت کے پاس ہے۔ اور اس مقدس شہر میں مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے اور یہودیوں کی آبادی کو بڑھانے پر مکمل پلاننگ کے تحت کام کیا جارہا ہے۔ آئیے اس موقع پر اس مقدس سرزمین کے متعلق تاریخی حقائق سے آگاہی حاصل کریں۔

فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کی حدود اِس وقت اردن، سوریا، لبنان اور مصر سے ملتی ہیں۔ یہ در اصل پورا علاقہ( سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن) تاریخی کتابوں میں ملک شام سے موسوم ہے۔ فلسطین کا سب سے مشہور شہر القدس ہے، جسے بیت المقدس بھی کہتے ہیں اور اسرائیل اسے یروشلم (Jerusalem) کہتا ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں بڑے آسمانی مذہبوں کے لیے یہ مقدس شہر ہے۔ اسی مبارک شہر ’’القدس‘‘ میں قبلہ اوّل واقع ہے جس کی طرف نبی اکرم ﷺاور صحابۂ کرام نے تقریباً 16 یا 18 ماہ نمازیں ادا فرمائی ہیں۔ اس قبلۂ اول کا قیام مسجد حرام (مکہ مکرمہ) کے چالیس سال بعد ہوا۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بابرکت وفضیلت کی جگہ مسجد اقصیٰ ہے، جس کی زیارت کے لیے نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کی تعلیم دی ہے۔ اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات آپ ﷺکو مکہ مکرمہ سے لے جایا گیا اوروہاں آپﷺنے تمام انبیاء کی امامت فرماکر نماز پڑھائی، پھر بعد میں اسی سرزمین سے آپ ﷺکو آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا جہاں آپ ﷺکی اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہوئی۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے جنت وجہنم کے مختلف مناظر دیکھے اور سات آسمانوں پر آپ ﷺ کی مختلف انبیاء کرام سے ملاقات ہوئی۔ یہ مکمل واقعہ رات کے ایک حصہ میں انجام پایا۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کے اس سفر کو اسراء اور مسجد اقصیٰ سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے اس سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔

16ہجری (637ء) میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس مبارک شہر (بیت المقدس) کو فتح کرکے وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں عالیشان مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخراء کی تعمیر کی گئی۔ بیت المقدس کی فتحیابی کے 462سال بعد 1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر عیسائیوں نے اس شہر پر قبضہ کرکے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا تھا، مگر صرف 88 سال بعد 1187ء میں حضرت صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے القدس شہر کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑایا۔ 1228ء سے 1244ء تک بھی اس شہر کو مسلمانوں سے چھین لیا گیا تھا۔ غرضیکہ یہ مبارک شہر (بیت المقدس) صرف سو سال کے علاوہ 637ء سے 1917ء تک مسلمانوں کے ہی قبضہ میں رہا ہے۔ اور اس شہر میں رہنے والوں کی بڑی تعداد مذہب اسلام کو ہی ماننے والی رہی ہے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی 1917ء میں اس شہر اور فلسطین کے دوسرے علاقوں پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا تھا اورپھر آہستہ آہستہ دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو آباد کرکے مسلمانوں کی اس سرزمین (فلسطین) پر 1948ء میں ایک ایسے ناجائز ملک کے قیام کا اعلان کردیا جو آج تک پورے خطہ کے امن وسکون کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری باختیار خلیفہ عبدالحمید ثانی پر جب مغربی طاقتوں نے فلسطین کو یہودیوں کو دینے یا وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کے تعلق سے دباؤ ڈالا تو اُن کا جواب تاریخ کا حصہ بن گیا: میں سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا کیونکہ فلسطین میرا نہیں بلکہ امت کا ہے اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔ 1948ء سے 1967ء تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک ’’اردن‘‘ کا ہی ایک حصہ رہا۔ 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی ممالک کی بھرپور مدد سے فلسطین کے دیگر علاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ اس طرح 1967ء میں وہ مقدس شہر بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا، جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔

شہر القدس (یروشلم) سے جہاں مسلمانوں کا خصوصی تعلق ہے، وہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی یہ مقدس سرزمین ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت فرمائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاء کرام (حضرت یعقوب، حضرت سلیمان ، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ) کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ عیسائیوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش بھی یہی شہر ہے۔ یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی تیار کردہ عبادت گاہ (ہیکل سلیمانی) کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔ سرور کائنات وآخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس شہر پر مسلمانوں کے فتح یابی سے قبل تک متعدد جنگیں اس سرزمین پر یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان ہوئی ہیں جن میں ہزاروں افراد کا قتل عام ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فلسطینی علاقے خاص کر بیت المقدس پر جو اسرائیل نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی آزادی کا فیصلہ فرمائے۔ آمین۔

Mohammad Najeeb Qasmi

Mohammad Najeeb Qasmi

تحریر : ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
(www.najeebqasmi.com)