کیا صحافت شیوہ پیغمبری ہے؟؟؟

Journalism

Journalism

تحریر : سید محبوب ظفر
عالمی یوم صحافت کس نے اور کیوں قرار دیا اس کے صحیح غلط تاریخ پر ایک الگ طویل بحث ہوسکتی ہے مگر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جدید یت کے اندھا دھند تیز رفتار دوڑ سے پہلے انسان نے لاشعور سے مزید شعور کی طرف جب قدم بڑھایا تب سے آج تک ایسٹ ویسٹ کے ہزاروں صحافیوں نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرکے اس دن کی اہمیت کو رہتی دنیا تک اہم بنا دیا۔ جہاں انسانی زندگی سے براہ راست تعلق رکھنے والے تقریبا تمام شعبوں میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا تھا ایسے دور کے برے اثرات سے معاشرے کو محفوظ بنانے کیلئے آج بھی شعبہ صحافت کو اپنا تسلسل وقار سے قائم رکھنے میں شدید مشکلات سے نبزد آزما ہونا پڑ رہا ہے ایک طرف پاکستان میں تمام کرپٹ عناصر کے خلاف ضربِ عضب آپریشن جاری ہے تو دوسری طرف آج بھی خواہشات کو مجبوری کا جواز اوڑھے بنا کسی خوف کرپشن کرتے دیکھتا ہوں اور اس کرپشن کو درست ثابت کرنے والی پر اعتماد دلیل و جواز جو ان سے سنتا ہو ں، تو پھر سوچتا ہوں کہ راقم بھی ان ہی کہ طرح موقع پرست سرکاری عملدار یا ضرورت کے آگے جھکنے والا کوئی اشتہاری ماڈل و اداکار ہوتا۔

موقع ضرورت مان کر رشوت لینے دینے کو جائز حق سمجھتا اِس مشق کو مزید پھیلا کر قبضے کے عبادت خانے مدرسے امام باڑہ بناتا خود اِس کا مہتمم، امام، قاری علامہ یا عوام کو دیگ دکھا کر ملک کا صدر ،وزیر ،مشیر بنتا۔کبھی کبھی خیرات و نیاز پر رعایا کو ٹالتا۔ ذاتی غرض کے تکمیل کے خاطر کہیں جج ،و کیل کوئی بہت بڑا قانون دان یا قومی کھلاڑی بنتا۔ مطلب کے فیصلے و کھیل پیش کرتا کہیںسرکاری غیر سرکاری ، انتظامی ،پیداواری ،مالیاتی ،اشتہاری ،کسی مورثی جماعت کا سربراہ ، ہسپتال ، اسکول یا مافیا میڈیا کا مالک و مصائب ہوتا ۔ خوب مال کماتا ، خاندان ،دوستوں وغیروں میں بڑا عزت دار شان والا کہلاتا، اگر کہ کوئی عامل صحافی نہ ہوتا تو زندگی کتنی آسان و سہل کہلاتی۔ کسی کے دکھ درد کا کوئی احساس نہ ہوتا کسی بے کس کا غم نہ ہوتا فقط ذاتی جائیداد در جائیداد بناتا۔ یہیں تک شہر ملک دنیا کے مطلق سوچ رکھتا۔

معاشرے میں اور باعزت مقام کے ہوس میں اپنی اولاد کو ملکی و غیر ملکی بڑی سے بڑی ڈگری دلواتا پھر اندرونِ و بیرونِ ملک سیف ہائوسس بنا کر کمائی دولت کو اُس میں چھپاتا صرف اس لئے جیتا اور اسی بات پر مرتاگر کہ کوئی عامل صحافی نہ ہوتا اور یہ ہی نصیحت اپنی اولاد کو اُن کے آنے والی اولادوں کے لئے کرتا۔ صبح و شام اپنے اور غیروں کے احساس کو کچلنا اخلاق اخلاص میٹھا بول بھی صرف اور صرف ذاتی مفاد تک وابستہ رکھنا ۔ رمضان میں مسلمانوں جیسی ٹوپی اوڑھ کر رمضانی محرم میں سیاہ جوڑے پہن کر حسینی کہلانا اور اسے پورے سال کے بے حس خود غرض مطلب پرست اپنی زندگی کا کفارہ مان کر جنت کو گھر کا حصہ سمجھنا ۔اپنے فعل کو خدا کی راہ ضرورت زندگی کو مقصد حیات اور مقصد حیات کو ہر شرط پر حاصل کرنا۔

Executive Room

Executive Room

ہلکی بھاری مشینیں کیبیلیں اور ان سے حاصل اچھے بُرے نتائج لیکر بلند و بالا عمارتیں بنانا ، اس میں جہازی بستر ،قالین ، پردے ، کشن، صوفے، نت نئے پوشاک کی بناوٹ کوحاصل زندگی سمجھنا ، مصنوعی کھاد کی فصل ،برائیلر مرغی، پریشر والے گوشت، کیمیکل ملا شربت ،ڈبے کے دودھ ، مکھن کے لغو اشتہارات کو سب ترقی کا راز ،تندرستی کا ضامن ،اور بیوٹی پارلر سے نکلنے والی عورتوں کو ہی حسن و عزت کا معیار بتانا۔ اسی نظام کو میڈیا کے ذریعے نظامِ فطرت ثابت کرکے جہازی قد کے بورڈ پر چسپاں اشتہار کے اثرات سے اپنا گھر سجانا ، سفر حیات میں اس آسان سفر کے باوجود اہل بینا استادوں کے نزدیک لا شعور سے شعور میں قدم رکھتے ہی وقت پر پورا سچ بولنا لکھنا ،دھوکے بناوٹ فریب کو روکنا،انسان کو انسان سے جوڑنا ،ان کے دکھ درد میں ساتھ نبھانا ، امید کی کرن جگانا ، فطرت کے حسین امتزاج کو ہی کائنات کا حسن بتانا،ایسا عمل قائم رکھنے والا فرد اُن کے نزدیک عزت دار مقام کے حقدار کیوں قرار پائے؟ یہ تو وہی بتائیں گے جبکہ ہمارے یہاں صحافتی تنظیموں اور اس کے عہدیداروں سے ڈھونگ صحافیوں کی موجودگی میں صحافی خود کو منوانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

حالانکہ حقیقت کو ماننا اور پھر اس کی پوری تشریح کرنا صحافی کی بڑی ذمہ داری ہے ۔ صحافتی اداروں کی عدم دلچسپی کے باوجود اگر اپنے موقف پر کوئی عامل صحافی ڈٹ کر کھڑا ہے تو یقینا وہ لائق تحسین عمل ہے ۔ یہی لوگ صحافت کے رول ماڈل ہیں اس کے علاوہ کچھ صحافی کہلانے والے لوگ سخت محنت کرنے کے باوجود دانستہ و نا دانستہ ناپسندیدہ عناصر کے کٹھ پتلی بن جاتے ہیں آج بھی عامل صحافی ساعزت دار مقام و کردار کو ئی برقرار رکھنا چاہے تو لازم ہے کہ اتنا علم ضرورحاصل کرے کہ وہ پیشے سے وفاداری کے ساتھ محض سیاسی فیصلے ہنگامہ آرائی اور وقتی مفادات والے کھیل کھیلنے کے بجائے معاشرے میں کرپشن کے دائمی خاتمے کیلئے اپنے بے لاگ تبصروں و تحریروں سے مستقل خود کار نظام کی جدوجہد ایسے جاری رکھے کہ اُس کی موجودگی میں کرپشن کا کوئی پودا کم از کم اس شہر و ملک میں مضبوط جڑ نہ پکڑ سکے۔

صحافت کے اس معیار کے قیام سے شجر خبیثہ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد میں ہی ملک و ملت کو کامیابی کے احسن مقام تک لے جانے کا راز پنہاں ہے صحافت کا یہی وہ علمی وفکری مقام ہے جو ایک صحافی کو مقدس ناموں کے قربت سے جوڑکر فقط معاشرتی جانور بننے سے اُسے بچاتا ہے۔ اس جگہ بلاشک ایک عامل صحافی کہہ سکتا ہے
ان کو اپنی اکائی کی فکر ہے۔

ہم کو ساری خدائی کی فکر ہے
خوشبو تو اپنے کرب و نمو میں ہے مبتلا

رنگت کو فقط جلوہ نگاہی کی فکر ہے
یقیناصحافت خاص شیوہ پیغمبری ہے یہ عالمی سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے افلاس کی تمام یلغار کے باوجود قلم کی حُرمت جاننے والے صحافی وطن میں موجود ہیں۔صد شکر ورنہ راقم بھی اور لوگوں کی طرح فقط آدمی بن کر ہی جیتا مرتا ……انسان نہ ہوتا۔

Mehboob Zafar

Mehboob Zafar

تحریر : سید محبوب ظفر