صحافیوں کیلئے خطرہ کون

Journalists

Journalists

تحریر : اعجاز بٹ
قارئین کرام آج تمام موضوعات سے ہٹ کر یہ تحریر ان لوگوں کی حقیقت جاننے کیلئے آپکی معاونت کرے گی جو خبر کی تلاش میں ایمانداری سے خبر تلاش کرکے ایوان بالا سے لے کر عوامی حلقوں تک خبر کو پہنچاتے ہیں اور بالآخر ان میں سے کئی ایک خبر بن کر رہ جاتے ہیں اور ریاست میں چوتھا ستون کہلانے والے ہر ایک کے دکھ کو بانٹنے اور اسے نجات دلانے کی کاوش بر لانے والے انسان جب زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں تو ان کی لاشوں پر سیاست کی جاتی ہے۔

رپورٹر اپنی خبر کو مکمل کرنے کیلئے پوری زمہ داری سے الفاظ کا چناؤ کرتا ہے ،کالم کار اپنی تحریر سے ملکی مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے دن رات الفاظ کی تلاش میں زندگی کا سفر طے کرتا ہے،فوٹو گرافر اور کیمرہ میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کی خاطر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر با معنی تصاویر اور لمحات کو فلمبند کرنے کا عمل جاری رکھتا ہے۔تمام قسم کے کاروباری اثاثوں کو محفوظ بنانے کی خاطر انکی انشورنس کروائی جاتی ہے ملک میں اولڈ ایج بینیفٹ کا قانون متعارف کروایا جاچکا ہے لیکن اس قانون پر عملدرآمد کروانے والے افسران میڈیا مالکان کو خود ہی مال بچانے کے کلیے بتاتے ہیں۔

دوسری جانب مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والے بھی صحافیوں معاونت کے طلبگار ہیں اگر ان کی دہشتگردی کی خبریں بڑھا چڑھا کر پیش کی جائیں جو کہ میری نظر میں دہشتگردی کی معاونت ہے تو ٹھیک اگر ان کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کیا جائے تو ان کے نشانے پر بھی صحافی اگر کسی کرپٹ اور بااثر کیخلاف خبر دی جائے تو ان کے حامی ارکان پارلیمنٹ سے لیکر پولیس افسران کی طاقت کا نشانہ بھی صحافیوں کو بنایا جاتا ہے اور اگر ملکی سالمیت کا علمبردار بن کر ملک کیخلاف سازش کو بے نقاب کیا جائے تو ملک دشمن عناصر کے نشانے پر بھی صحافی اور بات کریں ۔

اگر میڈیا ہاؤس کے مالکان کی تو انہوں نے اپنے کیمروں اور دفاتر کی انشورنس تو کروا رکھی ہے لیکن جن کے خون پسینوں کی کمائی سے ان کے کاربار چلتے ہیں ان کی کوئی انشورنس کروانے کا نہیں سوچتا۔ قارئین کرام بات یہاں پر آکر ختم نہیں ہوتی اگر کوئی صحافی اپنی ذمہ داری نبھاتا جان کی بازی ہار جائے تو اس کی شہادت کیخلاف سڑکوں پر احتجاج کرنے کیلئے نام نہاد صحافتی لیڈر بینر اٹھائے اپنی دوکان چمکانے کے عمل کو تقویت دیتے ہیں اور اپنی تشہیر کروا کر منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں لال مسجد کے آپریشن کے دوران اسرار احمد نامی کیمرہ مین زخمی ہوا اور آج تک ویل چیئر پر ہے چند روز قبل تیمور نامی کیمرہ مین جان کی بازی ہار گیا ان گنت جگہوں پر مشتعل افراد نے صحافیوں پر تشدد کیا لیکن اس سب کے نتیجے میں صرف مذمت اور کچھ بھی نہیں۔

Journalism

Journalism

لاہور پریس کلب کے سابق صدر ارشد انصاری نے شبیر طوری نامی صحافی کو آرمی پبلک سکول کے بچوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے سیمینا ر کے انعقاد میں معاونت کرنے کیلئے استعمال کیا اور جب اس کو ملک دشمن عناصر کی جانب سے دھمکی آمیز خط اور پیغامات موصول ہوئے تو اس کو پریس کلب جانے سے روک دیا گیا اور بعد ازاں اس کی ممبر شپ خارج کر دی گئی۔

جب کبھی صحافتی آزادی پر کوئی پروگرام ہوتا ہے تو چند چہرے وہاں پر فلمی ڈائیلاگ بولتے نظر آتے ہیں لیکن جیسے ہی کسی صحافی کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو تو وہی نام نہاد لیڈر ان صحافیوں سے منہ موڑ لیتے ہیں اور انہیں نہ ملنے کے بہانے ایجاد کرتے ہیں صحافیوں سے سوال کرنے کا حق چھیننے والے ان کا معاشی قتل کرنا بھی ثواب سمجھتے ہیں نصیب الٰہی جیسے صحافی کو اس گناہ کی پاداش میں سرکاری اداروں سے نوکری سے نکالنے کی خاطر کاروائیاں ڈالی جاتی ہیں جبکہ اسی ادارے میں کرپشن کے بت خود ساختہ پاکباز بنے پھرتے ہیں۔

حکومتی ایوانوں میں موجود نام نہاد خدمتگار بھی خوشامدی ٹولوں کے سوا کسی کا ہاتھ اپنے ہاتھ تک نہیں پہنچنے دیتے کیونکہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ ان کے سوالات ان کی ذاتی خواہشات کو بے نقاب کرتے ہیں اور تو اور کئی ایسی گدھیں بھی ہمارے قبیلہ کے ساتھ جڑی ہیں جو صحافیوں کی بیواؤں کا حق کھانے کے بعد ان کی آواز دبانے کیلئے سرگرم عمل رہتی ہیں اور اس گندے کھیل کو سیاست کا نام دے کر سیاست اور صحافت دونون کی توہین کر نے میں پیش پیش ہیں اور ان کے پاس ایک ہی بات ہے کہ ملک پاکستان صحافیوں کیلئے خطرناک ترین ہے میری اس تحریر سے آپ یہ اندازہ بخوبی کر سکتے ہی کہ صحافیو ں کو حقیقی طور پر خطرہ کس سے ہے دہشتگردوں،ملک دشمنوں،سیاستدانوں،نام نہاد صحافتی لیڈروں یا میڈیا مالکان سے۔

IJAZ BUTT

IJAZ BUTT

تحریر : اعجاز بٹ