چھوٹے شہر کا بڑا مرحوم و مغفور صحافی

Liaqat Ali

Liaqat Ali

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا
سرائے عالمگیر جیسے چھوٹے شہر سے کسی روزنامہ کا باقاعدگی سے نکلنا بہت بڑی کامیابی ہے۔صحافت سے وابسطہ لوگ باخوبی واقف ہے کہ مقامی صحافت کے میدان میں کسی اخبار یا میگزین کی باقاعدگی سے اشاعت اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کہنے کو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے مگر آسان کام نہیں ، کیونکہ کسی بھی اخبار کو باقاعدگی سے نکالنے کے لئے جہاں کہنہ مشق ٹیم ورک کی ضرورت ہوتی ہے وہاں دفتری اخراجات، چائے پانی بجلی انٹرنیٹ کے بلز اور ملازمین کی تنخواہوں کے علاوہ ” بلیک میلنگ اور زرد صحافت ” سے ہٹ کر اخراجات پورے کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور پھر کسی چھوٹے شہر جیسا کہ سرائے عالمگیر سے جہاں کاروباری سرگرمیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اور رہا سرکاری اشتہارت کی مد میں مالی معاونت تو وہ اکثر قومی اخبارات کی زینت بنتی ہے اگر کچھ مقامی اخبارات کے حصہ میں کچھ آتا ہے مگر ملتا نہیں۔ سرائے عالمگیر جیسے شہر جس کو درجہ تو تحصیل کا حاصل ہے مگر اکثر ٹاؤن سرائے عالمگیر سے بڑے ہیں۔ ایسے حالات میں مستقل روزنامہ کو نکالنا مرحوم لیاقت علی مدنی جیسا اعلیٰ بصیرت اور کہنہ مشق صحافی کا کام ہے۔

مجھ سمیت ہر وہ شخص جو حقیقت پسند ہے اس نے روزنامہ کرکس انٹرنیشنل کے چیف ایڈیٹر سمیت پوری ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے !انتہائی دکھ کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ گذشتہ روز ہمارے سینئر صحافی، کالم نگار اور چیف ایڈیٹر روزنامہ کرکس انٹرنیشنل گجرات مہمان نواز ہر دلعزیز شخصیت مرحوم و مغفور لیاقت علی مد نی اس دارِ فانی کو چھوڑ کر خالق ِ حقیقی سے جا ملے ۔ لیا قت علی مد نی مر حوم فرد واحد کا نام نہیں تھا بلکہ ایک تحریک تھے ! کو مر حوم لکھتے ہو ئے عجیب تو لگ رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے اسے ہمیں قبول کر نا پڑے گا کیو نکہ یہ را ہِ حق ہے ہر جاندار کو مو ت کا ذائقہ چکھناہے ۔ لیاقت علی مد نی مر حوم سرا ئے عا لمگیرکھنڈا چو ک اپنے آبائو اجداد کے وراثتی مکان میں رہتے تھے ۔ آپ کے تین بیٹے بلا ل مد نی ، اویس مد نی اور صائم مد نی بھی شعبہ صحا فت سے وابسطہ ہیں۔

بندہ ناچیز کو جب بھی مرحوم و مغفور لیاقت علی مدنی کا شرف حاصل ہوا ہے تو جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیاوہ ان کا ”اخلاق اور مہمان ِ نوازی تھا” ان دونوں صفات کا اسلام نے ہمیں درس دیا ہے۔

۔جیسا کہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ سے پتا چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ مفہوم:کیا آپ کو ابراہیم ( علیہ السلام )کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی پہنچی ہے کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو آتے ہی سلام کیا۔ ابراہیم ( علیہ السلام)نے جو اب میں سلام کیا”۔(الذاریات) اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے

۔ مفہوم: ”پھر وہ جلدی سے گھر میں جاکر ایک موٹا تازہ بچھڑاذبح کرکے بھنواکرلائے اور مہمانوں کے سامنے پیش کیا۔”(سورة الذاریات)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان کی عزت و اکرام، خاطر و مدارات اپنی حیثیت کے مطابق کرنا ضروری اور واجب ہے۔جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمان جب آئے تو حضرت ابراہیم فوراًان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جوموٹا تازہ بچھڑا انھیں میسر تھا اسی کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کردیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت لوط علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مفہوم: ”لوط علیہ السلام نے کہا: بھائیو! یہ میرے مہمان ہیں مجھے رسوانہ کرو۔ خدا سے ڈرواور میری بے عزتی سے باز رہو”۔ (الحجر: ٨٦۔٩٦)

حضرت ابو شریح فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو تم میں سے اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے،اور جو اللہ پر اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہئے کہ مہمان کہ عزت کرے،مہمان کی خاطر مدارات (کی مدّت) ایک دن ایک رات ہے،اور عام ضیافت(میزبانی) کی مدت تین دن ہے،اس کے بعد جو کچھ بھی ہے وہ صدقہ ہے۔اور (مہمان) کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں اتنا ٹھہرے کہ اُسے پریشانی میں مبتلا کر دے۔

مرحوم لیاقت علی مدنی میں مہمان نوازی کی سنت کوٹ کوٹ کر بھری تھی ۔ مہمان نوازی کے بہت سارے واقعات ہیں صرف ان کے روح کی بخشش کے لئے ایک دو واقعات پر ہی اکتفادہ کروں گا۔ میرے چہچا مرزا نذر حسین کھنڈا چوک کے مغرب والی گلی میں جبکہ لیاقت علی مدنی کا دولت خانہ کھندا چوک کے مشرق والی سائیڈ پر ہے۔

ایک بار دوپہر کا کھانا کھا کر مرحوم لیاقت علی مدنی کے دولت خانہ پر شرف دیدار کے لئے حاضر ہوا ۔ باتوں ہی باتوں میں ٹھنڈا پانی ،کولڈ ڈرنک ابھی پیا بھی نہیں تھا کہ بیٹے کو روانہ کر دیا سپیشل ”کڑاہی گوشت ” حالانکہ میں نے بار بار بتایا کہ میں کھانا کھا کر آیا ہوں ۔مگر مہمان نوازی کا عشق لیاقت علی مدنی کا کم نہ ہوا۔ ایک بار مجھے لاہور جانا تھا۔ میں انکل نذر کے گھر سے رات 9 بجے طعام کیا اور حاضری کے لئے مرحوم و مغفور لیاقت مدنی کے گھر پہنچا پھر وہ ہی پانی۔۔۔۔ کولڈ ڈرنک اور زبردستی کا کھانا۔۔۔بے شک سرائے عالمگیر چھوٹا شہر ہے مگر مرحوم لیاقت علی مدنی بڑے صحافی تھے۔ مجھے فخر ہے کہ میں کالم ”چھوٹے شہر کا بڑا مرحوم و مغفور صحافی ” لیاقت علی مدنی جیسے سینئر صحافی پر لکھا ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے عشق رسول ۖ آپ کی رگ رگ میں رچا بسا ہوا تھا۔ آپ علم اور صحافت کی دنیا کے نامور صحافی تھے۔ دعا ہے اللہ پاک آپ کا قلمی جہاد، عشق رسول اور اچھے اخلاق و کردار سمیت مہمان نوزی کو بخشش کا سبب بنائے آمین۔

Dr Tasawar Hussain Mirza

Dr Tasawar Hussain Mirza

تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا