عدلیہ کا احترام لازمی ہے

 Supreme Court

Supreme Court

تحریر : چودھری عبدالقیوم
ملک میں ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے۔قصور میں معصوم زینب کا اندہناک واقعہ، کراچی میں بیگناہ نقیب اللہ مسعود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت میں ملوث ایس پی رائو انوار اور دیگر پولیس اہلکاروں کی روپوشی، کراچی ہی میں بیگناہ شہری انتظار کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت اور مردان میں ننھی عاصمہ کی ہلاکت جیسے کئی تشویشناک واقعات سے ملک بھر میں سوگواری جیسی فضا بنی ہوئی ہے۔ان تمام کیسز پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس نے نوٹس لیے ہوئے ہیں۔

عدالتیں ان کیسز کی سماعت کررہی ہیں اور قوی امید ہے کہ ان کیسز کے سفاک مجرم اپنے عبرتناک انجام کو پہنچیں گے پوری قوم کا مطالبہ ہے کہ معصوم پری زینب کے درندہ نما قاتل عمران کو سرعام پھانسی دی جائے تاکہ ایسے وعشی درندوں کو آئندہ ایسے گھنائونے جرم کرنے کی جرات نہ ہو۔ان اہم کیسز کے علاوہ عدالتوں اور نیب میں سابق وزیراعظم نوازشریف ان کی فیملی،ساتھیوں اسحاق ڈار سابق وفاقی وزیرخزانہ کیخلاف کرپشن کے الزامات میں ہائی پروفائل کیسز کی سماعت بھی جاری ہے۔جن کے فیصلے بھی فروری میں متوقع ہیں۔

جبکہ مارچ میں سینٹ کے الیکشن کیساتھاسی سال کے دوران عام انتخابات بھی ہونا ہیں۔اس طرح موجودہ سال اور یہ مہینے ملک کے لیے بہت اہم ہیں ۔اس صورتحال میں ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں بھی ملک کے اہم ترین کیسز کے فیصلے بھی بہت اہم ہونگے۔جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عدلیہ کے فیصلے ملک کے مستقبل بارے اہم کردار ادا کریں گے عوام کو قوی امید ہے کہ عدلیہ کے فیصلے ملک میں میں مثبت تبدیلیوں کا باعث بنیں گے دوسری طرف ایسے کیسز کے نتیجے میں وطن عزیز کی اعلیٰ عدالتوں کو ایک چیلنج اور جنگ جیسی صورتحال کا سامنا ہے کہ ان کیخلاف مختلف طرح کے حربے آزمائے جارہے ہیں خاص طور پر جب سے میاں نوازشریف وزارت عظمیٰ سے نااہل ہونے کے بعد اپنے خلاف کرپشن کے الزامات میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں انھوں نے عدالتوں کو اپنی سیاست کا محور بنایا ہو ہے۔

سابق وزیراعظم نوازشریف جنھیں ماضی میں دھیمے مزاج کا سیاستدان سمجھا جاتا تھا ان کی سیاست تبدیل ہوتے ہوکر انتہا پسندی کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہے خاص طور پر وہ اور ان کی صاحبزادی مریم نواز بڑی دیدہ دلیری کیساتھ کھلے عام عدلیہ پر تنقید کے تیر برساتی ہیں۔ان کی تنقید پر عدلیہ چاہے تو بڑی آسانی کیساتھ توہین عدالت کے مقدمات قائم کرکے انھیں گرفتارکرسکتی ہے لیکن وجوہ کی بناء پر عدالتوں کی طرف سے یہ قدم نہیں اٹھایا جارہا۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز کیساتھ مسلم لیگی متوالوں کی طرف سے عدلیہ پر حملوں کا مقصد دبائو ڈالنے کیساتھ اشتعال دلانا ہیے۔کیونکہ ان لوگوں کو کامل یقین ہے کہ عدالتوں اور نیب میں ان کیخلاف کیسز کا فیصلہ اب سزائوں کی صورت میں آئیگا۔یہ سب کچھ ان سزائوں سے بچنے کے لیے کیا جارہا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے خلاف کیسز کے فیصلے آنے سے پہلے توہین عدالت کے مقدموں میںگرفتار ہوجائیں تاکہ انھیں یہ کہنے کا موقع مل سکے ان کیخلاف فیصلے انتقامی طور پر سنائے گئے ہیںاور وہ مظلوم بن کر عوام اپنی صفائیاں پیش کرتے رہیں۔لیکن عدلیہ کیخلاف ان کی یہ منصوبہ سازی بھی ناکام ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

میاں نوز شریف اور ان کی فیملی کو چاہیے تھا کو عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کرتے ہوئے انھیں تسلیم کرتے جیسا کہ ماضی میں پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے عدالت سے اپنی وزارت عظمیٰ کی نااہلی کے فیصلے کو قبول کیا تھا اور آج وہ دوبارہ سیاست میں پہلے کی طرح سرگرم ہیں۔لیکن افسوس کے نوازشریف نے عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے کی بجائے عدالتوں سے لڑنے کا خطرناک فیصلہ کیا۔اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ نہ وہ یوسف رضاگیلانی جیسے سیاستدان ہیں اور نہ ہی ان کا کیس گیلانی جیسا ہے۔کیونکہ نوازشریف کی وزارت عظمیٰ سے سے نااہلی کے بعد بھی ان کی جان نہیں چھوٹ رہی بلکہ انھیں پہلے سے کہیں زیادہ سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔جن کے فیصلوں کے نتیجے میں انھیں سزا کیساتھ رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔

اس سے بچنے کے لیے نوازشریف نے عدالتوں میں قانونی طریقے سے اپنا دفاع کرنے کی بجائے عدلیہ کیخلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کررکھا ہے جو کسی طور بھی نواز شریف کے لیے سودمند نہیں ہوسکتا۔اور نہ ہی یہ چیز جمہوریت اور ملک کے مفاد میں ہے۔ عدالت کا فیصلہ غلط ہو یا صیح ہو اسے ہر حال میں تسلیم کرنا چاہیے اس ملک اور جمہوریت کے لیے عدالتوں کا احترام ہر حال میں مقدم ہونا چاہیے۔

Ch. Abdul Qayum

Ch. Abdul Qayum

تحریر : چودھری عبدالقیوم
چیف ایڈیٹر؛ ویکلی؛ انکار؛ سیالکوٹ ۔ پندرہ روزہ ؛ بسالت؛ سیالکوٹ۔لاہور
چیئرمین؛ بسالت رائٹرز فورم پاکستان۔ممبر؛ ورلڈ کالمسٹ کلب