25 جولائی کے انتخابات اور اس کے ممکنہ نتائج

Elections

Elections

تحریر: راؤ عمران سلیمان

آئندہ چند روز میں کچھ ایسے فیصلے آنے والے ہیں جس میں نیوز چینلوں میں بیٹھے بڑے بڑے تجزیہ نگاروں کے دعوے بھی ہوا میں اڑسکتے ہیں،پاکستان کی سیاست پوری دنیا میں سب سے زیادہ پیچیدہ سیاستوں میں شمار کی جاتی ہے جہاں ملکی تقدیر کے فیصلے راتوں رات تبدیل جاتے ہیں جہاں گہری نیند میں سوئے ہوئے ایک شخص کو رات کے اندھیرے میں اٹھاکر کہا جاتاہے کہ اٹھوصبح آپ نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانا ہے بلکل اسی طرح 25جولائی کے انتخابات ملکی تاریخ کے واحد انتخابات ہونگے جس میں آخری دم تک امیدواروں کی جان سولی پر لٹکی رہے گی ،عوام کا مقافات عمل شدت اختیار کرتا جارہاہے جن لوگوں کے زاتی خاندان کے ووٹ پچاس ہزار سے اوپر ہیں انہیں اب خود بھی اپنے رشتے داروں پر بھروسہ نہیں رہاہے تاریخ 25 جولائی کے روز وزارت عظمیٰ کے بڑے بڑے دعوے داروں کو صدمے سے دوچار کرسکتی ہے یہ حقیقت ہے کہ 15جولائی تک کسی حد تک واضح ہوجائے گاکہ اونٹ کس کے حق میں اور کس کروٹ بیٹھنے کی تیاروں میں ہے مگر میرا خیال یہ ہے کہ یہ اونٹ 25جولائی کے دن کسی کی بھی امیدوں پر پانی پھیر سکتاہے خلائی مخلوق سے خوفزدہ لوگوں کا خوف دور ہونے والا ہے جس کا وعدہ تھا شفاف انتخابات کا انعقاد کروانا جو اپنی ذمہ دارویوں کو اداکرنے کے بعد اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلے جائینگے اور الزام تراشیاں کرنے والوں کو بھی اپنے بے بنیاد الزامات کااحساس جلد ہوجائے گا شاید اس بار خلائی مخلوق اپنی مرضی کی حکومت لانے میں اپنا کردار ادا نہیں کریگی۔

ملک بھر میں جیپ کے نشان پر لڑنے والوں کی تعداد دس سے گیارہ ہے اور اس قدر کم تعداد ہونے کے بعد بھی سیاستدانواں کی جانب سے جیپ کے نشان کو خلائی مخلوق کا انتخابی نشان ظاہر کرنا جہالت ہے علاوہ ازیں جیپ کے نشان سے جیتنے والوں کی تعداد بھی نہ ہونے کے برابر ہوگی،ایسے میں اگر راتوں رات حکومتیں بنانے والی قوتوں نے فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا توپہلا جھٹکا نیوز چینلوں کے تبصرہ نگاروں کو برداشت کرنا پڑے گاکیونکہ پنجاب کی عوام اب ایک نئے شعوری دور میں داخل ہوچکی ہے پہلے پہل خیال یہ تھا کہ شاید شریف خاندان نے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اس وجہ سے ان کا احتساب ہورہاہے مگر جس انداز میں آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کو کھلے عام اس ملک میں پھرتے دیکھا جارہاہے اور پیشیاں صر ف شریف خاندان کے حصے میں آرہی ہیں ایسے میں پنجاب کی عوام میں یہ شعور آچکاہے کہ اصل کھیل شاید شریف خاندان کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے کھیلا گیا ہے۔

لوگوں کو نواز شریف کے ساتھ ایک بار پھر سے ہمدردی ہونے لگی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پنجاب میں دوسرے صوبوں کی نسبت ترقی کا عمل کئی گنا زیادہ ہے اس کی نسبت سندھ میں مسلسل بارہ برسوں سے حکومت بنانے والی پیپلزپارٹی نے سندھ کی عوام کو کچھ نہ دیاہے جس کے باعث یہاں مقافات عمل کا دور زور شور سے جاری ہے،سندھ کی عوام نے پیپلزپارٹی کے امیدواروں کا پوسٹ مارٹم شروع کیاہواہے ووٹ مانگنے والوں سے گزشتہ پانچ سالوں کا حساب مانگا جارہاہے ایسے میں عوام کا گھیراؤ صرف پیپلزپارٹی کے لوگوں پر ہی نہیں ہے بلکہ عوامی چھترول ان دوسری جماعتوں کے لوگوں پر بھی پڑرہاہے جو ان حلقوں سے کامیاب ہوئے ، یقیناًعوام میں سیاسی شعور کی بیدار ایک اچھی روایت ہے ایسے میں لوگوں کو یہ بھی شعور ملا ہے کہ احتساب کا عمل صرف اور صرف شریف خاندان کے ارد گرد گھوم رہاہے لوگ ایک دوسرے سے یہ سوال کرنے لگیں ہیں کہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے بھی اس ملک کو لوٹا ہے آخر ان کو کیوں نہیں پکڑا جارہاہے لوگ ایک دوسرے سوال کررہے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے واقع پر شہباز شریف کے گرد گھیراتنگ ہے مگر سانحہ بلدیہ ٹاؤن میں مرنے والے اڑھائی سو لوگوں کے قاتلوں کو کیوں نہیں گرفتارکر کے سزائیں دی جا رہی ہیں؟

یہ شعور سیاسی امیدواروں پر پتھراؤ اور گھیراؤ کا نہیں ہے بلکہ اس بات کا بھی ہے کہ اس ملک جو کچھ ہورہاہے وہ یکطرفہ ہی رہاہے ،عوام میں چلنے والی سیاسی شعور کی تبدیلی پر کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ شعور عمران خان کی وجہ سے آیاہے مگر کوئی بھی عمل جسے باربار اور رخ بدل کر دھرایا جائے وہ عمل نہ صرف مشکوک ہوجاتاہے بلکہ اس کی قدر بھی ختم ہوجاتی ہے یعنی یہ اس سیاسی شعور کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس شعور کی بیداری میں اگر عمران خان کا ہاتھ ہے تو حکومت بھی پھر ان ہی کی آئیگی جبکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک شعور اس ملک میں چلنے والے احتسابی عمل کا بھی تھا جسے مسلسل شریف خاندان پر برستے دیکھ کر عوام کے زہنوں کو دوسری جانب بھی سوچنے پر مجبور کردیاگیاہے ، اور یہ شعور ایک خاموش ووٹ کی صورت میں مسلم لیگ ن کو ایک بار پھر سے حکومت میں لانے کے لیے مددگار ہوسکتاہے کیونکہ اس ملک کی سیاست ایک سراب ہے یہ ملک ٹی وی چینلوں کے تجزیہ نگاروں سے نہیں چل رہا، بلکہ یہ جہاں سے چل رہاہے وہاں پہنچ کر ان تجزیہ نگاروں کی سوچ کی پرواز ہی ختم ہو جاتی ہے۔

دوسری جانب اگر سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا رزلٹ پہلے سے تیار نہیں کیا گیا اور اور خلائی مخلوق واقع ہی اپنے ٹھکانوں پر چلی گئی ہے تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ پنجاب سے ایک بار پھر سے مسلم لیگ ن بھا ری اکثریت سے کامیاب ہوگی اس کی نسبت صوبہ سندھ کا رزلٹ مختلف دکھائی دیتاہے ،سندھ اسمبلی میں اس بار پیپلزپارٹی کی واضح اکثریت دکھائی نہیں دیتی جس کی وجہ عوام کی شدید مخالفت کا ہونا بھی ہے اس وقت پیپلزپارٹی خود بھی شدید مایوسی کا شکار نظرآتی ہے سندھ میں حکومت کی بنتی ہوئی شکل کچھ اس طرح سے دکھائی دیتی ہے کہ مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف ، ایم کیو ایم ،کچھ آزاد امیدوار ،جے ڈی اے جیسے چھوٹے چھوٹے گروپس سندھ میں مل کر حکومت بناسکتے ہیں۔

میں گزشتہ دنوں شہباز شریف کی عمرانی معاہدے اورکولیشن حکومت بنانے کی پیشکش کو کوئی اہمیت نہیں دیتا کیونکہ میں مخلوط حکومت کو بنتا ہوا اس لیے دیکھ نہیں پارہاہوں کہ عمران خان خود بھی وزرات عظمی کی دوڑ میں شامل ہیں اور شاید وہ اس دوڑ میں کسی کو برادشت کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتے جبکہ یہ ایک عجیب سی حرکت ہوگی کہ پانچ سال تک جس جماعت پر مسلسل الزامات لگاکر ہٹایا گیا ہو اس کے ساتھ ہی مل کر ایک حکومت بنالی جائے،یہ درست ہے کہ پاکستان کی سیاست اور موسم کا کوئی اعتبار نہیں رہاہے مگر ایسا کرنا عمرا ن خان کی سیاست پر تاحیات کے لیے غلاظت کا لیپ مل سکتی ہے اور ویسے بھی پاکستان کی تاریخ میں مخلوط حکومت کا دور نہایت ہی دررناک اور کم عمر رہاہے، اور شہباز شریف کی خواہش جب پوری ہوسکتی ہے جب 25 جولائی کے انتخابات کا رزلٹ سامنے آئے گا ہوسکتاہے کہ پنجاب ایک بار پھر سے مسلم لیگ ن کا قلعہ ثابت ہوجائے؟ مگر میں پھر کہتا ہوں کہ اگر خلائی مخلوق اپنے اپنے ٹھکانوں پر چلی گئی ہے تو مسلم لیگ ن پنجاب سے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی یعنی عوام کے دیئے گئے ووٹوں کا رزلٹ اگر بدلہ نہیں جاتاتو اک واری فیر شیر کے نعرے سنائی دے سکتے ہیں ۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔

Rao Imran Suleman

Rao Imran Suleman

تحریر : راؤ عمران سلیمان
Email: raoimaran.media@gmail.co
3501- .Mob:0300-928