قالو کالا اور کالے خان

Justice

Justice

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
نصف صدی قبل جب ہم نے شعور کی آنکھ کھولی تو ہمارے چاروں اطراف ہر سو سادگی فطرت اور سچائی کا دور دورہ تھا۔ تب نہ فون موبائل ، روڈ، راستے ، نہ گاڑی رکشے تھے ۔ اس سچے زمانے کے لوگ پیدل چلتے دودھ مکھن دہی مکئی باجرہ کھاتے چھ چھ فٹ قد کے جوان بوڑھے لال سرخ رنگ چار چار فصلیں اگاتے بھیڑ بکریاں پالتے کیا مجال کوئی بیمار چارپائی پر پڑتا ۔ ایک دو دن بخار چڑتا وقت پورا ہوتا تو اللہ کو پیارے ہو جاتے ۔ جنازے ماتم پر دور دراز گائوں والوں کو اگر بلانا پڑتا تو اونچی ٹیکریوں سے کسی بڑے معروف آدمی کا نام پکارتے ۔ ائو جی فلاں آدمی کی وفات ہو گئی ہے۔

نام بھی اس وقت اکثریت قالو کالے خان نورا ، شیرا، منگلو ، جیرا ، منگلی ہوتے۔ ہمارے صرف ایک گائوں میں دو درجن کالا قالو کالے خان تھے۔ وہ سارے گور ے چیٹے لال سفید ہوتے مگر نا جانے کیوں ان کی مائیں ایسا نام رکھتیں ایک دن ٹیکری سے دوسرے گائوں ایک بھانجا اپنے دونوں ماموں کو اونچی آواز میں بلا رہا تھا ماں میر ا و چچاکالا ائوے ۔ کسی نے پوچھا اوئے لڑکے وہ دونوں تمہارے ماموں ہیں تو ایک کو چچا اور دوسرے کو ماموں بلا رہا ہے۔ کیوں او جی بھائی دونوں کو دفع کرو ایک بھی نہیں بولتا کیا سادگی تھی۔

ایک ایک کمروں کے بڑے بڑے کچے مکان جہاں ایک طرف دیوار ڈال کر مال مویشی اور دوسری طرف درجن بھر فیملیاں سکون سے رہتی ایک کونے میں ماں باپ بڑی سی بان کی چارپائیاں ساتھ سر ہانے پاوندی دو دو بچے سلاتے کسی جوان کی شادی ہوتی تو اس کو سہاگ رات مکان کی چھت پر کسی کی مکان کے دوسرے کونے پر باتھ اوپن ائیر ہوتے ، غسل جنابت ہو یا غسل طہارت پوہ پھٹنے سے پہلے کسی کسّی یا ندی نالوں پر اللہ اللہ خیرصلہ ۔ کیا سادہ زندگی تھی ماتم ہو یا شادی سارا گائوں رات رات بھر ہفتوں اس کے گھر کھانا اپنے گھر سے کھا کر اس کی دلجوئی حوصلہ افزائی کرتے چھوٹا تنازعہ ہوتا یا بڑا گائوں کے بڑے مل بیٹھ کر حل کروادیتے ۔جج وکیل کا اس وقت نام و نشان نہ ہوتا۔ ایک دوسرے سے ہنسی مذاق ایک مرتبہ ہم بازار میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی نے راہ گزرتے ایک بوڑھے کو کندھے پر چت کرا دی بس پھر کیا تھا اس نے اپنے ہر آنے والے کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ کسی نے پوچھا او بابا ایسا کیوں کرتے ہو۔ اس نے کہا یار پیچھے سے یہ آئی ہے میں آگے پاس کر رہا ہوں۔ ہر کوئی ہنس کر چپ ہو جاتا ۔ قارئین ایک مرتبہ ایک بڑے کسان کے مال مویشی ہمسائے کے ایک غریب آدمی ککا فصل کھا گئے۔

اس نے اسے آواز دی کہ لالہ جی آپ کے مویشی میرے فصل کا کیا بنا رہے ہیں۔ لالہ آئے مویشی نکالے مگر ساتھ دو چار گالیاں بھی سنا گئے۔ منہ بند کر اوئے شان محمد تو بڑا آیا فصل والا دوسرے دن صبح شان محمد گائوں کے نمبر دار کے پاس گیا۔ نمبردار جی لالہ جی نے میر ا فصل بھی برباد کرایا اور مجھے برا بھلا بھی کہا۔ نمبردار نے دونوں کو بلایا سارا قصہ سنااور کچھ دیر فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد حکم دیا۔ شام محمد تو لالہ جی کے پائوں پکڑ لے اور معافی مانگ لے شان محمد ڈرتے ڈرتے بولا نمبر دار جی معذرت کے ساتھ یہ کیسا فیصلہ ہے فصل بھی میرا نقصان ہوا گالیاں بھی مجھے پڑیں۔ اور اب معافی بھی میں مانگوں نمبر دار جی غصے سے بولے فوری عمل کرو نہیں تو تو ہین عدالت میں برادری سے آوٹ کر دوں گا۔ وہ اس لئے کہ لالہ جی بڑے ہیں۔ اور شان محمد تم چھوٹے ہو ۔ اس طرح شان محمد روتے روتے معافی مانگ کر گھر آیا نہ دھرنا نہ احتجاج ۔ نہ اپیل نہ پریس کانفرنس ، کسی نے شان محمد کو دلاسہ دیا ۔ اور فرمایا۔ آج تجھ کو اگر انصاف نہیں ملا تو یاد رکھنا آئندہ اس ملک میں کسی کو بھی انصاف نہیں ملے گا۔ آنے والے وقتوں میں لوگ ایسے ہی عدالتی فیصلوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ قارئین شان محمد کی اس وقت کی یہ بدعا آج بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی ذولفقار علی بھٹو کا فیصلہ ہو یا جمود کمیشن ۔ ایبٹ آباد کمیشن ریمنڈویوس فیصلہ ہو یا ماموں گیٹ وکی لیکس فیصلہ ہو یا پانامہ لیکس فیصلہ ۔ ایان علی ڈیل ہو یا مشرف ڈیل سارے ہی شرعی انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتے پتہ نہیں کب تک شان محمد کی بدعا ہمار اور ہمارے ملک کا پیچھا کرتی رہے گی۔

خیر میں ذکر کر رہا تھا۔ اس وقت کے ناموںکا آج بھی ہمارے ہاں ہمارے سیکولر معاشرے میں ہماری نئی نسل ناموں کو اہمیت نہیں دیتی ہمارے گھروں میں پپپو، منا،، ٹیڈی ، چنو، منو اور نہ جانے کیا کیا نام رکھے اور پکارے جاتے میں ۔ حالانکہ ناموں کو انسانوں خصوصا ۔ مسلمان بچوں کے ناموں کا انکی زندگیوں میں اہم رول ہے۔ ہمارے آقا ۖنے خود کئی صحابہ اور صحابیہ بچوں کے نام رکھے تبدیل کئے اور فرمایا کہ اللہ جل شانہ کو سب سے پیارا نام ، عبداللہ ، عبدالرحمن ، محمد احمد ہے اور انبیاء اور اصحاب اجمعین کے ناموں کو فضیلت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی عرب معاشرے میں دادا بھی عبداللہ باپ بھی عبداللہ اور بیٹا پوتا بھی عبداللہ اور خصوصا ہر کسی کو محمد، احمد اور عمر کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ فرق صرف ابن محمد یا ابن عبداللہ ساتھ قبیلے کا نام ، مالکی دوسری یا علوی جوڑا جاتا ہے ۔ ہمارے آقا ۖ کا فرمان یہ بھی ہے کہ جس کا نام محمد احمد عبداللہ یا عبدالرحمن ہو گا اسے جہنم کی آگ نہ جلا سکے گی اللہ اکبر اللہ میاں ہمیں اس سنت رسول کو دوبارہ زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ان سادہ لوح بزرگوں اور انکے قالو کالا اور کالے خانوں کو بھی جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان
hajizahid.palandri@gmail.com