عدل و انصاف صرف حشر پر نہیں موقوف

Justice

Justice

تحریر : قادر خان یوسف زئی
سیاسی جماعتوں کے خلاف یا حق میں فیصلوں پر تبصرے اور تنقید کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر عدلیہ کوئی فیصلہ دیتی ہے تو اس پر تبصرہ یا اظہار رائے کرنے پر دنیا بھر میں کوئی ممانعت نہیںہے ۔ سب سے بڑی مثال امریکا، ایران اور بھارت کی ہمارے سامنے موجود ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سپریم کورٹ کے نامزد جج نیل گورسچ کے ایک ترجمان نے صدر کی عدلیہ پر تنقید کو ”حوصلہ شکن” اور” مایوس کن” قرار دیا ہے۔ایک جج جیمز رابرٹ نے صدر ٹرمپ کے اس انتظامی حکم پر عمل درآمد روک دیا تھا جس کے تحت مسلمان اکثریت والے سات ملکوں کے شہریوں کے امریکہ آنے پر عارضی پابندی عائد کی گئی تھی۔ٹرمپ نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ اگر امریکہ میں کوئی دہشت گرد حملہ ہوتا ہے تو اس کا الزام جج رابرٹ اور عدلیہ پر ہو گا۔صدر ٹرمپ نے نائنتھ سرکٹ کورٹ کے ججوں کے تین رکنی پینل پر بھی تنقید کی تھی۔ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد اد نے بھی گزشتہ دنوں ایرانی عدلیہ پر کرپشن کے الزامات کے بعد قیدیوں کے قتل عام کا نیا سنگین الزام عاید کیا۔ بھارت میں تو خود سنیئر ترین ججوں اپنے ہی چیف جسٹس پر سنگین الزامات لگائے جس پر چار سابق بھارتی ججوں نے بھی سپریم کورٹ کے ججوں کے اس گروپ کی حمایت میں ایک خط جاری کیا ہے جنہوں نے اعلیٰ عدلیہ کے طریقہ کار پر کھلے عام تنقید کی تھی۔ بد قسمتی ہے کہ پاکستان میں عدالت میں کئے جانے والے فیصلوں پر جہاں سیاسی جماعتوں نے سخت رویہ اختیار کیا ہوا ہے تو اس کی وجہ عدلیہ کے روئیے کو بھی قرار دیا رہا ہے۔

ماضی میں پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے ایسے متنازع فیصلے دیئے جس نے مملکت میں جمہوری نظام و اداروں کو مضبوط نہیں ہونے دیا۔ ان تاریخی متنازعہ فیصلوںکے بعد عوام کا اعتماد عدلیہ پر اٹھ چکا تھا ۔ بعد ازاں ججز بحالی تحریک کے بعد عدلیہ نے اپنا اعتماد بحال کی کوشش کی اور عوام میں عدلیہ کا اعتماد بحال ہونا شروع ہوا۔ حال ہی میں ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی جج کو 50لاکھ روپے رشوت کے عوض ضمانت دینے پر برطرف کیا گیا ۔ یہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے اچھی روایات کا آغاز ہے ۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے صبر کا پیمانہ لبریز کیوں ہوجاتا ہے جب ان کے خلاف کوئی فیصلہ آتا ہے ۔ خاص طور پر پانامہ کیس میں جس طرح روزانہ عدلیہ کے باہر عدالتیں لگتی رہی اس کے مضمرات سے جلد آزاد ہونا آسان نہیں۔ بات یہاں صرف چند جماعتوں کی نہیں بلکہ عوام کی جانب سے عدلیہ کے بعض معاملات پر سخت تحفظات کا اظہار بھی کیا رہا ہے بلکہ عدالتی نظام میں اصلاحات کے حوالے سے خود چیف جسٹس آف پاکستان بھی کھلا اظہار کرچکے ہیں۔ معطل پولیس افسر کو عدالت عظمیٰ کے حفاظتی ضمانت دیئے جانے والے فیصلے پر بھی فاٹا کے رہائشی پختونوں اور پاکستان کی دیگر قومیتوں نے اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا تھا اور بعض حلقوں نے فیصلے کے اثرات کو سنگین جرائم میں ملوث افراد کو فائدہ پہنچنے کے امکانات پر خدشات بھی ظاہر کئے گئے۔

نقیب اللہ محسود کیس کو لیکر کئی گھڑے مُردے اکھاڑے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اداروں کے حوالے سے عوام کی رائے تبدیل کرنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے ۔ اب مسئلہ کسی ایک فرد کی گرفتاری کا نہیں رہا بلکہ اداروں کی ساکھ کا بن چکا ہے کہ وہ عوام کی خواہشات پر پورا اترتے ہوئے اپنی صلاحیتوں و قابلیت سے ثابت کریں کہ حساس اداروں کا نیٹ ورک اس قدر مضبوط ہے کہ ان کی گرفت سے معلوم فرد نہیں بچ سکتا ۔ کیونکہ حساس اداروں کی ذمے داریوں میں ملک دشمن عناصر کی کھوج بھی شامل ہے اور ملک دشمن تنظیموں کی سرکوبی کرنے کیلئے جدید ترین آلات سے مزین حساس ادارے ملکی سا لمیت کے لئے دن رات قربانیاں دے رہے ہیں ۔ ان کی عقابی نگاہوں سے رائو انوار جیسے معروف فرد کا بچ جانا ممکن نہیں ۔سنگین الزامات میں ملوث پولیس افسر کی حمایت میں ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کے نئے بیان نے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے۔ عام تاثر تقویت پکڑ چکا ہے کہ سابق پولیس افسر کے سب سے قریبی تعلقات رکھنے والی سیاسی شخصیت، نقیب اللہ کیس سے ایک تیر سے کئی شکار کھیلنا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سابق پولیس افسر کی عدم گرفتاری و سیاسی سرپرستی کی وجہ سے ایسے معاملات بھی زیر بحث آنے لگے ہیں جو ریاست کے اداروں کے لئے مستقبل میں اچھے نتائج نہیں دے گا ۔ فاٹا کے رہائشی عوام میں بے چینی ، احساس محرومی و عدم تحفظ کا احساس مزید تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔چونکہ فاٹا کی رہائشی عوام دہشت گردی سے ملک میں سب سے زیادہ متاثر ہیں اس وجہ سے اپنے گھروں سے بے گھر ہونے کا احساس و عدم تحفظ و دیگر معاشرتی مسائل کے سبب دشوار ی کا سامنا کررہے ہیں۔

عدلیہ کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوں کو غلط یا درست قرار دینا ایک عوامی اظہاریہ کہلایا جاسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی عدالت کے فیصلے سے فریقین مطمئن نہیں ہوتے تو وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل بھی کرتے ہیں ۔ فیصلوں کے کمزور پوائنٹ پر دلائل دیئے جاتے ہیں ، شواہد کو دوبارہ کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے ۔ لیکن اس جدید دور میں الیکڑونک میڈیا ایک سماجی ایٹم بم بن گیا ہے ۔ جو لمحوں کے اندر عوام میں غلط فہیماں اور خوش فہیماں پیدا کردیتا ہے۔ یہ تو فطری امر ہے کہ کسی بھی ملزم کو سزا دی جاتی ہے تو قانون کے مطابق فیصلے کی وجوہات اور شواہد کو مد نظر رکھ کر فیصلہ دیا جاتا ہے ۔ الیکڑونک میڈیا میں جج صاحبان کے سوالات ، ریمارکس کو خبر بنا کر عوام کے دماغوں میں اتار دیا جاتا ہے ۔ پھر یہ کسی عدلیہ کی کاروائی نہیں بلکہ خبر بن جاتی ہے اور خبر پر تجزیہ کرنا اظہار رائے کی آزادی و استحقاق بن جاتا ہے۔خبر بننے میں معروضات کو پیش نظر نہ رکھنے کے سبب بات کا بتنگڑ بننے میں ایک منٹ نہیں لگتا ۔ عدلیہ کا وقار بہت عرصے بعد عوام میں بلند ہوا ہے ۔ اب کسی کو چوٹ لگتی ہے تو اس کا درد کا اظہار بھی کرے گا چاہے اس نے اپنا پیر کہلاڑی پر مارا ہو یا کہلاڑی اس کے پیر پر گری ہو ۔ تکلیف کا اظہار تو بہر حال ہو گا۔

عدلیہ ریاست کا اہم ادارہ ہے جس سے عوام کو کافی توقعات وابستہ ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ سے عدلیہ کو سیاسی زدہ ثابت کرنے کے لئے مہم جوئی جاری ہے اور ایسے شواہد دیکھے چھپے نہیں جس میں عدلیہ کے خلاف نازیبا الفاظ اور گالیاں دیں گئی ہوں یا عدلیہ پر ماضی میں حملے کئے گئے ہوں ۔ جب عدلیہ اس پر خاموش اور کسی ایک فریق پر توجہ مرکوز رکھے گی تو ردعمل کا پیدا ہونا فطری امر ہے ۔ یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ عدلیہ کو مدر پدر آزاد گالیاں دینے پر خاموشی کیوں ہے؟۔ سوال تو اس بات پر اٹھا تھا کہ چیف جسٹس کی کراچی موجودگی میں قتل عام کے باوجود 12مئی کے سانحے کا ازخود نوٹس کیوں نہیں لیا گیا تھا۔ اس طرح ان گنت سوالات اپنے اپنے وقت کی مناسبت سے اٹھتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وکلا برادری بھی برملا اظہار کررہی ہے کہ عدلیہ کے حرمت پر حرف آرہا ہے ۔ سیاسی معاملات میں مداخلت سے سیاسی جماعتوں کو فائدہ اور عدلیہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کی جانب سے اپنی آبروزیشن میں ایسے الفاظ استعمال ہوجاتے ہیں جس سے براہ راست مخاطب فریق پر انگلیاں اٹھ جاتی ہیں۔ جب عوام میں کسی بھی وجہ سے رائے قائم ہوجاتی ہے تو عدلیہ کی جانب سے اپنے فیصلوں کی وضاحتیں دینا بذات خود لمحہ فکریہ ہے۔ قانون کم از کم اتنا اندھا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ کسی ملزم کو صفائی کا موقع دیئے بغیر سنسان جگہ پر مار کر پھینک دیا جائے اور 4سو زائدافراد کے قاتل کے لئے حفاظتی معیار بدل جائے تو پھر دل سے ہوک تو اٹھے گی اور مظلوم کی آہ آسمان سے بھی ضرور ٹکرائے گی۔

” معروف ماہر قانون علی احمد کرد کا کہنا بڑا صائب ہے کہ عدلیہ اپنے فیصلوں پر توجہ دے اور آبزرویشن دینا ختم کردے ۔ اپنی ججمنٹ پر اپنے فیصلے کو نقش کرے اور اس کی درست یا غلط ہونے کا فیصلہ فریقین پر چھوڑ دیں” ۔ عوام چاہتی ہے کہ عدلیہ ایسے فیصلے کرے جس کا اطلاق مستقبل میں تمام ملزمان کے لئے یکساں ہوسکے ۔ یہاں معاملہ کسی جماعت کے لاکھوں ووٹرز اور کروڑوں عوام کے ساتھ انصاف کا ہے توملک کے حساس ترین علاقے کی عوام کا بھی ۔ عوام امید کرتے ہیں کہ ملکی حساس ادارے اپنی تما م صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنا اعتماد عوام میں مزید بڑھائیں گے اور حساس اداروں کے خلاف ملک دشمن عناصر کی پروپیگنڈا مہمات کو بھرپور جواب دے کر حق اور انصاف کا ساتھ دیں گے ۔ عدلیہ لاکھوں مقدمات کے جلد سماعت کیلئے ایک جامع پالیسی و اصلاحات نافذ کردے تو قیام پاکستان کے بعد سے اب تک یہ عدلیہ کا سب سے بڑا کارنامہ شمار ہو گا۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی