شہر قائد میں ضمنی انتخابات

Elections

Elections

تحریر : حفیظ خٹک
2013 کے دوران ملک میں نئی حکومت کیلئے عا م انتخابات ہوئے جس میں منتخب ہونے والی جماعت مسلم لیگ (ن) نے دیگر جماعتوں کے ہمراہ حکومت بنائی ۔ مسلم لیگ کو ملک کی تاریخ میں یہ تیسرا موقع عوام نے اپنے ووٹوں کے ذریعے فراہم کیا۔ اس سے قبل دوبار انہیں حکومت کرنے کیلئے چنا گیا تاہم مسلم لیگ کی قیادت نے اپنی پالیسیوں کے سبب پانچ سال کی مدت پوری نہیں کی۔ دونوں بار مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو حکومت کے تخت سے اتارنے بلکہ ہٹانے کا فیصلہ ہوا۔

تیسری بار حکومت ملنے پر انہوں تاحال پوری کوشش کی ہے کہ اپنے سابقہ تجربات سے وہ کچھ حاصل کرتے ہوئے ایسے اقدامات نہ کریں کہ جس کے سبب انہیں تیسری بار ملنے والی حکومت کو بھی درمیان میں ہی چھوڑناپڑ جائے۔ تاحال مسلم لیگ کی حکومت کو تیسرا سال مکمل ہوا جس پر صدر ملک ممنون حسین نے اسمبلی و سینٹ اراکین سے خطاب کیا ۔ وزیر اعظم اپنی ناسازی طبیعت کے باعث صدر مملکت کا خطاب نہیں سن پائے۔ چونکہ پورے پاکستان میں ایسا کوئی ہسپتال نہیں جہاں وزیر اعظم صاحب کا علاج ہوسکے اس لئے وہ اپنے دل کا علاج کرانے کیلئے برطانیہ تشریف لے گئے ۔ دوران علاج سے قبل اور آج تک ان کے تمام سیاسی مخالفین تک ان کی صحتیابی کیلئے دعاگو ہیں۔ ان مخالفین میں اس وقت سب سے بڑے مخالف تحریک انصاف کے عمران خان ہیں جنہوں نے وزیر اعظم کو صحت یابی اور نیک خواہشات کا پیغام سب سے پہلے بھجوایا۔

Mustafa Kamal

Mustafa Kamal

شہر قائد میں اس وقت دواور اندرون سندھ میں ایک صوبائی نشست کے انتخابات ہوئے ۔دونوں نشستوں پر متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندے تھے جنہوں نے ان نشستوں کو چھوڑا۔ پی ایس 106اور پی ایس 117 پر ہونے والے انتخابات میں متعدد پولنگ اسٹیشن کو حساس قرار دیا گیا۔ حساس اسٹیشنوں سمیت دیگر اسٹیشن اور شہر قائد کی صورتحال کو پرامن رکھنے کیلئے رینجرز و پولیس نے خصوصی انتظام کیا گیا۔انتخابات پرامن اندازمیں ہوئے اور تینوں صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں پر کوئی غیرمعمولی و غیر قانونی واقعہ نہیں ہوا۔ انتحابات میں عوام کا جوش و خروش برائے نام تھا ، ڈالے گئے ووٹوں کے تناسب سے ہی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اب عوام بھی یہ آئے روز کے انتخابات سے قدرے تنگ آگئی ہے ۔ نشستوں پر عین متوقع متحدہ قومی موومنٹ کے نمائندوں نے جیتنا تھا اور دیگر جماعتوں ، تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی و دیگر نے بھی اپنے امیدوار میدان میں اتارے اور ان کی جیت کیلئے مہمات چلائیں۔

سابق ناظم اعلی کراچی اور متحدہ قومی موومنٹ کے رکن مصطفی کمال نے پاک سرزمین کے نام اپنی ایک الگ جماعت قائم کی تاہم ان انتخابات میں ان کی جماعت سے کوئی بھی رکب میدان نہیں لایا گیا۔ جبکہ شہر قائد میں خالی ہونے والی دونوں نشستوں پر متحدہ قومی موومنٹ کے ہی اراکین تھے جو مصطفی کما ل کی پارٹی میں شامل ہونے کے باعث خالی ہوئی تھیں۔ ان امیدوارون کی مصطفی کمال کی پارٹی میں جانے پر جہاں متحدہ کو قدرے حیرت ہوئی تھیں وہیں پر مصطفی کمال اور ان کے دیگر ساتھیوں نے بھرپور خوشی کا اظہار کیا تھا۔ انتخابی حلقوں میں ووٹنگ کے بعد اسی روز شب کے ساڑھے گیارہ بجے پاک سرزمین پارٹی نے پریس کانفرنس منعقد کی اور ووٹنگ میں حصہ لینے پر عوام کا شکریہ ادا کیا۔

سندھ اسمبلی کی پی ایس 106اورپی ایس 117میں پرامن ووٹنگ کے بعد جو نتائج سامنے آئے ان کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ کے ہی امیدوار کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔ عوامی مسلم لیگ کے سابق رکن ایڈووکیٹ محفوظ یار خان ، جو کہ عوامی مسلم لیگ چھوڑ کر متحدہ قومی موومنٹ میں شامل ہوگئے تھے ، متحدہ نے انہیں صوبائی اسمبلی کیلئے اپنا امیدوار منتخب کیا جنہوں نے متحدہ کی پالیسیوں پر عمل کرتے پوئے اپنی مہم بھرپور انداز میں چلائی اور کامیابی حاصل کی۔

MQM

MQM

ان کے ساتھ دوسری نشست پر بھی متحدہ کا امیدوار ہی منتحب ہوا جبکہ نوشہرہ فیروز میں صابئی اسمبلی کی نشست میں پیپلز پارٹی کا امیدوار جیتا۔
میاں نواز شریف کی اس تیسری حکومت میں جس قدر معاملات انتخابات کے حوالے سے بگڑے ہیں ماضی میں کسی اور کے دور حکومت میں ایسے حالات واقع نہیں ہوئے۔ تحریک انصاف نے متعدد ماہ اسلام آباد میں اپنے ہزاروں کارکنوں کے ساتھ دہرنا انتخابات میں دھاندلی کی وجہ سے دیا۔

سانحہ پشاور کے بعد انہوں نے اپنے دہرنے کو ختم کیا اور اس کے بعد بھی صورتحال یہی رہی کہ کبھی کسی قومی اسمبلی کا انتخاب ہوتا تو کبھی کسی صوبائی اسمبلی کا۔ ووٹ حاصل کرنا اگر ایک آسان عمل نہیں ا ن کے حصول کیلئے وزیر اعظم تک کو انتخابی جلسوں میں جانا پڑا اور یہی صورتحال تحریک انصاف کے ساتھ دیگر جماعتوں کی بھی رہی۔ بہر حال عوام جی دار ہے ، عوام کو اس ملک سے غرض ہے اس ملک سے اس ملک کی مٹی سے محبت ہے وہ اس ملک کیلئے جیتے اور اسی ملک کیلئے مرتے ہیں ، اپنی زندگیاں اس ملک کے نام کی بلندی کیلئے گذارتے ہیں۔

PTI

PTI

لہذا جب بھی عوام کے رائے کی بات ہوگی ، رائے کی ضرورت ہوگی عوام اپنی رائے کا اظہار ضرور کرئے گی ، تاہم یہ ایک دکھ و تکلیف کی بات ہوتی ہے جب عوام کے ووٹوں سے صوبائی و قومی اسمبلیوں میں تو امیدوار منتخب ہوکر پہنچ جاتے ہیں لیکن ان کا عمل عوام کی خواہشات ، ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے بجائے اپنی ذات تک محدود ہوجاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ منتخب ہونے والے اراکین اسمبلی اپنے حلقے کی حامیوں اور مخالفین کو ضروریات کو ایک نظر سے دیکھ کر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور عوام کیلئے اس شہر قائد کیلئے اور اس ملک کیلئے بہترین عملی خدمات سرانجام دیں۔

تحریر : حفیظ خٹک
hafikht@gmail.com: