کراچی بدامنی کیس، آئی جی سندھ نے بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا

Supreme Court Karachi Registry

Supreme Court Karachi Registry

کراچی (جیوڈیسک) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں بد امنی کیس کی سماعت میں نے آئی جی سندھ نے بینچ پر عدم اعتماد کا اظہا کر دیا۔ عدالت نے آئی جی سندھ کی درخواست مسترد کر دی۔ انکوائری کمیٹی نے اپنے ہی آئی جی کے خلاف انویسٹی گیشن کی رقوم جاری کرنے کی بھی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔

سپریم کورٹ رجسٹری میں بد امنی کیس کی سماعت ہوئی ، تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو آئی جی سندھ کے وکیل فاروق نائیک نے تحریری درخواست دی۔

آئی جی سندھ نے سپریم کورٹ بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ آپ کا رویہ متعصبانہ ہے۔آئی جی سندھ نے کہا کہ جسٹس میر ہانی مسلم انکوائری کرنے والی کمیٹی سے رابطے میں ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت میری عزت کا خیال نہیں کیا گیا۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے میرٹ پر کیس چلا رہے ہیں۔ اگر میرے رویے یا فیصلے سے اختلاف ہے تو نظر ثانی کی درخواست دائر کریں۔ میں بیچ سے خود کو الگ نہیں کروں گا ہم صرف اللہ کو جواب دہ ہیں۔

سپریم کورٹ میں پولیس کی غیر قانونی بھرتیاں اور کرپشن کے معاملے کی سماعت انکوائری کمیٹی نے غیر قانونی بھرتیوں اور کرپشن کی رپورٹ جمع کرادی جس میں اہم انکشافات بھی سامنے آئے ہیں جسے عدالت دیکھ اور سن کر خود حیران رہ گئی۔ آئی جی سندھ نے انکوائری کمیٹی کے ممبران کو برادر یوسف قرار دے دیا۔

محکمہ پولیس میں تحیقیقات کے لئے 99 فیصد رقم نقد جاری کی گئی جو غیر قانونی عمل ہے۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مٹیاری پولیس کو 5 کروڑ روپے، کشمور کو 1 کروڑ اور 31 لاکھ روپے اور مٹھی کو 49 لاکھ روپے جاری کئے گئے سپیشل برانچ کو مختصر عرصے میں 50 لاکھ روپے جاری کئے گئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومتی فنڈ نقد جاری کیا ہو۔

عدالت نے ثنا اللہ عباسی سے پوچھا کیا یہ رقم نقد جاری ہوئی اور نقد رقم کہاں سے جاری ہوئی جس پر جواب دیا گیا کہ یہ نقد رقم محکمہ خزانہ جاری کرتا رہا ایس ایس پی ویسٹ کو سینٹرل پولیس آفس سے آئی جی کی رضا مندی سے رقم جاری کی گئی۔

انکوائری کمیٹی غیر قانونی بھرتیوں کے بارے میں عبوری رپورٹ عدالت میں پیش آپ کی نظر میں غیر قانونی بھرتیوں کا ذمہ دار کون ہے۔جسٹس عظمت سعید کا ثنا اللہ عباسی سے سوال 2015 اور 2014 میں کانسٹیبل اور جونئیر کلرک کی اسامیوں پر غیر قانونی بھرتیاں ہوئی 2012 میں 794 اسامیوں پر 913 افراد کو بھرتی کیا گیا۔بھرتیوں کا اشتہار دینے کے باوجود زائد عمر کے لوگوں کو بھرتی کیا گیا سب سے زیادہ غیر قا نونی بھرتیاں سکھر میں ہوئی۔

بھرتی ہونے والے 40 افراد کی عمر ہی کہیں تحریر نہیں کی گئی عدالت نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ بھرتی ہونے والوں کا پتہ ہی نہیں کہ وہ کم عمر ہیں یا زائد عم اس سب کا ذمہ دار کون ہے جس پر ثنا اللہ عباسی نے کہا کہ ڈی آئی جی مظہر شاہ ،اییس ایس پی اعتزاز گورایا ،انسپکٹر اسلم لانگا ذمہ دار ہِیں حیددرآباد میں 985 اسامیاں تھی جن میں سے 393 زائد لوگ بھرتی کئے گئے جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ یہ محکمہ پولیس ہے ہے پی آئی اے ان بھرتیوں کے بارے میں سندھی زبان کے ڈمی اخبار میں اشتہار شائع کیا گیا ہے اشتہار بھی حکومت سے اجازت لینے سے ایک ماہ قبل ہی شائع کروادیا گیا جن لوگوں کو بھرتی کیا گیا ان سب کی جسمانی ساخت ایک جیسی تھیسب کا قد اور سینہ ایک ہی پیمائش کا تھا تو ان کی آنکھیں بھی ایک جیسی ہوں گی۔

جسٹس امیر ہانی مسلم کا سوال اور ان غیر قانونی بھرتیوں کا ذمہ دار کوں تھاایڈیشنل آئی جی کا کا کہنا تھاایس ایس پی غلام بنی جو ابھی ڈی آئی جی ہے ڈی ایس پی میر محمد اور انسپکٹر راجہ اشتیاق بھی ذمہ دار ہیں۔ 24 افراد زیادہ بھرتی کئے گئے جن میں سے بیشتر کمپیوٹر آپریٹر رکھے گئے لیکن کسی کو کمپیوٹر چلانا نہیں۔ نوشہروفیروز کے اکاونٹینٹ ایاز میمن نے بروکر رکھا تھا جو پیسے لے کر بھرتی کرتا تھا۔ ہم اس کمیٹی کی تشکیل کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست داخل کرنا چاہتے ہیں۔