رشتوں کی امتحان گاہ ۔۔کربلا

Karbala

Karbala

تحریر: چوہدری غلام غوث
اسلامی کیلنڈر کا آخری مہینہ حضرت اسماعیل علیہ اسلام کی عظیم قربانی کی یاد تازہ کرتا ہے اور پہلا اسلامی مہینہ حضرت امام حسین عالی مقام اور ان کی اہل بیت کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جس میں معرکہ حق و باطل بپا ہوا اور میدان کربلا میں آپکے انتہائی قریبی عزیز و اقارب جسطرح آپکے شانہ بشانہ سینہ سپر ہو کر لڑے اور جام شہادت نوش فرمایا اس کی دوسری مثال دنیا میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔
یہ کربلا ہے محرم کا مہینہ اور سن 61ء ہجری ہے اور عراق اس شہر میں نہر فرات کے کنارے بے آب وگیا ہ صحرائی میدان میں ایک طرف نواسہ رسول اپنے خانوادہ رسول اور اہل اوعیال کو لئے نظریہ رسول کی حفاظت کیلئے بر سر پیکار ہیں دوسری طرف نظریہ رسول کے مخالف ،دنیاوی جاہ و حشمت کے بھوکے ظاہری اسباب کے طالب نواسہ رسول کے دشمن اپنی آب وتاب اور لشکرو سپاہ لئے تیار کھڑے ہیں ایثارو قربانی کی لا زوال مثال اس وقت رقم ہونا شروع ہوئی جب 7محرم کو آل رسول کیلئے پانی بند کر دیا گیا اور جانثاران نواسہ رسول ۖ نے 10محرم کے دن خود کو قربان ہونے کیلئے پیش کر دیا ۔یہ قاسم بن حسن، عبداللہ بن حسن اور ابو بکر بن حسن ہیں جو کہ سیدنا امام حسن علیہ اسلام کے صاحبزادے اور امام عالی مقام امام حسین کے بھتیجے اور اپنے چچا پر قربان ہو نے کیلئے میدان کربلا میں یزیدی لشکر کے سامنے جاتے ہیں خاندان رسالت کے یہ چشم وچراغ جرات و بہادری کی تاریخ رقم کرتے ہوئے کئی یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے ہیں یزیدیوں کے لشکر میں ہلچل مچ جاتی ہے جذبہ شہادت سے سر شار یہ نوجوان شہزادے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کر لیتے ہیں۔

یہ عثمان بن علی ،عبداللہ بن علی ،ابوبکر بن علی ہیں امام حسین کے بھائی اور شیر خدا حضرت علی کے صاحبزادے ہیں اپنے بھائی کا کندھا بنتے ہوئے یزیدی لشکر کو للکارتے ہیں معرکہ حق و باطل میں اپنے جوہر دکھاتے ہیں گھمسان کی لڑائی لرتے ہیں اور اسی دوران ان کی بھی شہادت ہو جاتی ہے۔

تیری عظمت پر ہزاروں جانیں جانثار
اے شاہ کربلا اے حق کے پرستار

یہ جعفر بن عقیل ،عبدالرحمان بن عقیل اور محمد بن ابی سعید بن عقیل ہیں جو کہ آپکے چچا حضرت عقیل کے صاحبزادے ہیں امام سے وفا نبھانے کیلئے میدان میں آتے ہیں اور یزیدیوں کیلئے موت ثابت ہوتے ہیں اہل بیت کے یہ جری سپوت لڑتے لڑتے اپنی جانیں اللہ کے حضور پیش کر دیتے ہیں ،یہ محمد بن مسلم اور عبداللہ بن مسلم ہیں جو آپکے چچا زاد مسلم بن عقیل کے صاحبزادے ہیں دونوں شہزادے اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے یزیدی لشکر پر ٹوٹ پرتے ہیں اور درجنوں یزیدیوں کو واصل جہنم کرتے ہوئے امام سے اپنے خون کا تعلق نبھاتے ہیں اور اپنی جان قربان کر دیتے ہیں ۔

یہ جان دی، دی ہوئی اس کی تھی
حق تو یہ تھا کہ حق ادا نہ ہوا

یہ علی اکبر ہیں جو امام حسین کے بیٹے ہیں اور ہم شکل پیغمبر ہیں خوبصورت کڑیل جوان ہیں دین اسلام کی بقاء کی خاطر جرات و بہادری کی داستان رقم کرتے ہوئے اپنے بابا سے پہلے قربان ہو جاتے ہیں ۔یہ تین دن کا پیاسا حضرت علی اصغر ہے جو باغ حسین کا نوخیز پھول ہے جو اپنے جھولے سے اپنے بابا کی نصرت کیلئے بے تاب ہے اور بلآخر اپنے بابا کی حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے لعین حرمل کے تیر کا نشان بن جاتا ہے۔

شہادت ہے مطلوب ِمقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

یہ سرکار عباس بن علی ہیں جو امام حسین کے بھائی اور حضرت علی ابن علی بن ابی طالب کے جری ،بہادر اور باحیا بیٹے ہیں اور امام کی فوج کے سپہ سالار اور علمدار بھی ہیں اور امام سے پہلے شہادت پا کر پوری دنیا کو اپنی وفا کا پیغام دے گئے ہیں یہ عون اور محمد ہیں یہ دونوں شہزادے عبداللہ بن جعفر طیار کے بیٹے ہیں اور حضرت زنیب سلام اللہ علیہ کے لخت جگر ہیں امام کے بھانجے ہیں جنہیں حضرت زینب نے دولہوں کی طرح تیار کر کے اسلام کی سر بلندی کی خاطر اپنے ماموں سے پہلے شہد ہونے کیلئے پیش کر دیا ہے۔

وفا کا معنی دیکھنا ہو تو کر بلا کو دیکھو
قربان ہونے کیلئے رشتوں کے انبار لگے ہیں
راقم نے امام عالی مقام کی عظیم بارگاہ میں عقیدت کے چند پھول پیش کئے ہیں ملاحظہ فرمائیے۔

کیا علی مرتبت ہے شہادت حسین کی
تا قیامت رہے گی قائم قیادت حسین کی
حق بات پہ ڈٹ جانا اور اپنا سر کٹا دینا
کیا بے مثل و بے مثال تھی عادت حسین کی
یزیدیت جن کے پائوں میں لغرش نہ لاسکی
کس قدر بلند تھی وہ ریاضت حسین کی
سجدے میں گھڑ سواری نانا کی جس نے کی
یہ بھی یکتا ٹھہری تھی سعادت حسین کی
شاہ نے نیزے پہ چڑھ کرسنایا جو قران
آج تک نہ بھول سکی وہ تلاوت حسین کی
تا ابد تر رہے گی ر نگ و خون سے کر بلا
اور یاد کر تی رہے گی ہمیشہ ارادت حسین کی

امام حسین کے عزیز و اقربا اور خاندان نے جس طرح رشتوں کی حرمت اور تقدس کا عملی مظاہرہ میدان کربلا میں دکھایا ہے تاریخ اسطرح کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ کربلا کا میدان رشتوں کا امتحان اور پہچان بن گیا۔

Ch Ghulam Ghaus

Ch Ghulam Ghaus

تحریر: چوہدری غلام غوث