یوم کشمیر منانے سے کام نہیں چلے گا جواب دینا ہوگا

Muzaffar Burhan Wani

Muzaffar Burhan Wani

تحریر : عمران احمد راجپوت
ویسے تو 68 سالوں سے بھارت کے زیر تسلط کشمیری عوام اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتے اور بھارتی مظالم سہتے آرہے ہیں جبکہ وقتاً فوقتاً اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز حق بھی بلند کرتے رہے ہیں۔ 8 جولائی بروز جمعۃالمبارک کو کشمیری مجاہد برہان مظفر وانی کی شہادت نے کشمیری عوام کو ایک بار پھر متحرک کردیا ہے نوجوان مجاہد برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کشمیری عوام میں انتہائی غم و غصہ اور اشتعال کا پایا جانا ایک فطری امر ہے۔ کشمیری عوام کی جانب سے مسلسل احتجاج کرنا بھارتی تسلط سے آزادی اور پاکستان سے الحاق کے حق میں نعرے لگانا بھارتی حکمرانوں کو ایک آنکھ نہیں بھارہاہے۔

لہذا بھارت سرکار کی جانب سے بے چارے نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کی نئی داستانیں رقم کی جارہی ہیں۔ تشدد کے حالیہ واقعات میں بھارتی فورسیزکی جانب سے 45کے قریب بے گناہ کشمیریوں کو شہید کیا جاچکا ہے جبکہ سینکڑوں کے قریب زخمی ہوچکے ہیں جن میں بچے بوڑھے نوجوان مرد خواتین سب شامل ہیں۔ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیری حریت رہنماؤں کو مسلسل نظر بند رکھا ہوا ہے۔ مجھے یہ بات ہمیشہ کھٹکتی رہتی ہے کہ جب بھی کشمیری عوام اپنے حق کے لئے آوازِ حق بلند کرتے ہیں تمام حریت رہنما ؤں کو نظر بند کردیا جاتاہے۔ اور حیران کن امر یہ ہے کہ ان رہنماؤں کی جانب سے یا اُن کی جماعت کی جانب سے صرف زبانی جمع خرچ کے انھیں چھڑوانے میں کہیں کسی کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ لہذا بے چارے نہتے کشمیری عوام سڑکوں پر اپنی بقا کی جنگ خود لڑتے رہتے ہیں اور اپنے پیاروں کے جنازے اٹھاتے ہیں جبکہ حریت رہنما ظلم و بربریت کا بازار گرم رہنے تک نظر بندی کی محفوظ دیواروں میں مقید رہنا پسند فرماتے ہیں۔ کشمیرکی باشعور عوام کو اِس طرف بھی سوچنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

Protest

Protest

68 سالوں سے جاری اِس ظلم و زیادتی پر پوری دنیا خاموشی اختیار کئے بیٹھی ہے جبکہ بین الاقوامی سطح پر کہیں کوئی شنوائی نہیں ہے اقوامِ متحدہ جیسا عالمی ادارہ بھی اِس ایشو پر سوائے زبانی مذمت کے اور کچھ کرنے کو تیار نہیں ہے جبکہ وہ ممالک جو خود کو انسانیت کا علمبردار کہتے نہیں تھکتے اِس ایشو پر آنکھیں موندے بیٹھے ہیں۔ صرف پاکستان ایسا ملک ہے جو کھل کر کشمیریوں کی آزادی اوراُن کے حقِ خودارادیت کی حمایت کرتا ہے اور اُنکے لئے ہر پلیٹ فارم پر احتجاج کرتا نظر آتاہے۔

ہمیشہ بھارت کی جانب سے یہ دعویٰ کرنا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے لہذا بھارت بھرپورطریقے سے ظلم و جبر اور طاقت کا بے دریغ استعمال کرکے جیسے بھی اپنے دعوے کا پاس رکھتا آیا ہے۔جبکہ پاکستان بھی اِسی طرح کا دعویٰ کرتاہے اور کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتا ہے۔ لیکن جب بات کشمیر پر ہونے والے ظلم و زیادتی کی آتی ہے تو صرف زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلانے کی روایت پر گامزن نظر آتا ہے اور ہمیشہ ملکی و بین الاقوامی سطح پر زبانی احتجاج ریکارڈ کراکر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا آیا ہے۔

United Nations

United Nations

میں پوچھتا ہوں کشمیریوں کو اپنا بھائی کہنے والا پاکستان، کشمیر کو اپنی شہ رگ ماننے والا پاکستان، اُن کے درد کو اپنا درد سمجھنے والا پاکستان، اُنکے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز حق بلند کرنے والا پاکستان،آخر کشمیریوں پر بھارتی تسلط سے مکمل آزادی کے لئے عملی کوشیشں کیوں نہیں کرتا اُنھیں آزادی دلانے کے لئے میدانِ عمل میں کیوں نہیں اُترتا بھارت کی بڑھتی ہوئی دہشتگردی کے خلاف اُسے سبق کیوں نہیں سکھاتا، بھارتی جارحیت کا جواب طاقت سے کیوں نہیں دیتا۔کیا وجہ ہے جو پاکستان ہر بار دغا دینے والی امریکہ کی لونڈی اقوامِ متحدہ کی جانب بھاگتا ہے جہاں ہماری زرا برابر شنوائی نہیں ہوتی۔ جب بھارت اپنے دعوے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے تو ہمیں کس نے روکا ہوا ہے کہ ہم اپنے دعوے کا پاس صرف زبانی کلامی کرتے رہیں جبکہ ہمارے پاس بھارتی دہشگردی کے باقاعدہ ثبوت موجود ہیں کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے لیکر بلوچستان کی میں دراندازی تک کے ٹھوس شواہد ہمارے پاس موجود ہیں۔

کشمیر پر ظلم و بربریت کی داستانیں ساری دنیا میں مشہور ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ بھارتی جارحیت کا جواب بجائے طاقت سے دینے کہ زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کو میری اِس بات سے اختلاف ہو لیکن میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں مجھے بتائیں جب آنکھوں کے سامنے ایک بھائی ظلم کا شکار ہورہا ہو اُس پر جبر کیا جارہا ہو تو ایسے میں اُسکا بھائی صرف زبانی طور پر احتجاج ریکارڈ کرائے گا یا بھائی کے حق میں میدانِ عمل میں اُتر کر ظلم کا خاتمہ کریگا۔ جو لوگ اقوامِ متحدہ کی جانب سے کسی معجزے کے انتظار میں ہیں تو یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئیے آج کے دور میں معجزے نہیں ہوا کرتے آنے والا دور حقیقت پسندی کا ہے۔ لہذا ہمیں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے جرات مندانہ فیصلے کرنا ہونگے۔ یومِ الحاقِ کشمیر یا یومِ سیاہ منانے سے ہمارے کشمیری بھائیوں کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر ہم کشمیر کو واقعی اپنی شہ رگ سمجھتے ہیں کشمیری عوام کی حقِ خودارادیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں جواب دینا ہوگا نعرہ تکبیر بلند کرنا ہوگا۔

Imran Ahmad

Imran Ahmad

تحریر : عمران احمد راجپوت