یومِ شہدائے جموں؛ محرکات اور حقائق

Migration

Migration

تحریر ۔ ثمینہ راجہ۔ جموں و کشمیر۔
جموں شہر سے سیالکوٹ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمان مہاجرین کے قافلے پر 6 نومبر 1947 کو مسلح ہندو اور سکھ بلوائیوں نے ڈیگیانہ اور سامبہ کے درمیانی علاقے میں حملہ کیا جس کے باعث بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا، زندہ بچ جانے والی بہت سی عورتوں کو اغواء کر لیا گیا ۔قتل و غارتگری، لوٹ مار ، دہشت گردی اور اغواء کا یہ سانحہ جموں میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی ان مسلح کاروائیوں کا یہ نقطہ عروج تھا جو ستمبر سے جموں میں اکا دُکا طور پر جاری تھیں ۔ ہندو مسلح جتھوں اور بلوائیوں کے ہجرت کرنے والے مسلمان قافلوں پر حملوں کے نتیجے میں مارے جانے والے مسلمانوں کی یاد میں پاکستان اور آزادکشمیر میں 6 نومبر کو یومِ شہدائے جموں منایا جاتا ہے جس کے ذریعے جموں کے مسلم کُش فسادات کی مذمت کی جاتی ہے ۔ دہشتگردی، لوٹ مار اور قتل کے ان واقعات میں ہزاروں مسلمان مارے گئے اور بہت سی عورتوں کو اغواء کر لیا گیا۔ دراصل یہ قتل و غارتگری صرف مہاجر قافلوں کے خلاف ہی نہیں کی گئی بلکہ جموں کے بہت سے گاوں اور قصبے بھی دہشت گردی کے ان واقعات کی زد میں آئے اور ضلع کٹھوعہ کی لگ بھگ آدھی مسلمان آبادی اس سے متاثر ہوئی۔

ستمبر کے مہینے میں موھالہ رام نگر میں سینکڑوں گوجروں کا قتلِ عام اور جموں کنٹونمنٹ میں رائے پور گاؤں کی آتشزنی کا سانحہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ جموں کے یہ واقعات بلاشبہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کا بہت بڑا مجرمانہ اقدام تھا اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ جموں کے اس قتلِ عام کی بالواسطہ ذمہ داری ریاست جموں و کشمیر کی انتظامیہ پر بھی عائد ہوتی ہے جو 6 نومبر کے مسلمان مہاجرین کے قافلوں کو کوئی تحفظ فراہم نہ کر سکی ۔ اس امر کا تعین کیا جانا ضروری ہے کہ 6 نومبر کو مسلمان مہاجرین کےقافلوں کی قتل و غارتگری کے یہ واقعات کیوں اور کیسے رونما ہوئے ۔ جب یہ واقعات رونما ہوئے تو ریاست جموں و کشمیر کے انتظامی سربراہ شیخ محمد عبداللّہ تھے اور وہ اس قتلِ عام کے دھبے سے اپنا دامن نہیں بچا سکتے۔ کیونکہ 9 نومبر کو بھی مسلمان مہاجرین کے قافلے پر اسی طرح کے حملے کیئے گئے تھے، مگر قافلوں کی حفاظت کرنے والی فوج کی جوابی کاروائی سے 150 حملہ آور مارے گئے تھے اور پھر اس کے بعد کبھی بھی کسی قافلے پر کوئی حملہ نہیں ہوا ۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ اگر 9 نومبر جیسے حفاظتی انتظامات 6 نومبر کو بھی کر لیئے جاتے تو مسلمان مہاجرین کا یہ قتلِ عام روکا جا سکتا تھا۔

لیکن ہماری قومی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ اس قسم کے واقعات پر مؤرخین نے پرلے درجے کی جانبداری کے ساتھ لکھا ہے اور واقعات کی حقیقی نوعیت اور انکے اسباب و محرکات پر غیر جانبدارانہ اور شفاف تجزیہ کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی ۔اس ستم ظریفی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ برِصغیر کی تقسیم ایک انتہائی نامناسب اور غیر معقول انداز میں اٹھایا گیا قدم تھا اور اس کا مقصد برِصغیر کے لوگوں کو آپس میں لڑانا، انہیں ایک دوسرے کا دشمن بنانا اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ برطانوی استعمار اور عالمی سامراج کے شکنجے میں جکڑ کر رکھنا تھا ۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ برِصغیر کے وہ لوگ جو کئی صدیوں سے مذہبی اختلافات کے باوجود باہم شِیر و شکر ہو کر رہتے چلے آئے تھے وہ اچانک 1947 میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیوں بن گئے تھے؟ دراصل یہ برطانوی حکومت کی ایک انتہائی شاطرانہ سازش تھی جس کے تحت عوام کے اندر غلط فہمیوں، افواہوں اور مخاصمت کی وہ فضاء پیدا کر دی گئی تھی جو فطری طور پر 1947 کے بلوؤں، لوٹ مار اور قتل و غارتگری پر منتج ہوئی ۔ جموں کا 6 نومبر کا قتلِ عام بھی اسی بڑے منظر نامے کا ایک حصہ ہے۔

Jammu and Kashmir

Jammu and Kashmir

انگریزوں نے جب برِصغیر کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تو ریاست جموں و کشمیر کے ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی ریاست کے حوالے سے ایسے کسی منصوبے کو رد کر دیا اور برِصغیر کی تقسیم کے تناظر میں ایک آزاد اور مکمل طور پر خودمختار مملکتِ جموں و کشمیر کا تصور پیش کیا ۔ انگریزوں کو مہاراجہ کے اس منصوبے سے اس بنیاد پر اختلاف تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ایک آزاد و خودمختار مملکتِ جموں و کشمیر ان کے وسیع پلان کی ناکامی کا سبب بنے گی ۔ چنانچہ انگریزوں نے نہایت چالاکی اور مکاری کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کے خودمختار ریاست کے تصور کے خلاف سازشیں شروع کر دیں ۔ ریاست جموں و کشمیر پر 22 اکتوبر 1947 کا قبائلی حملہ اور 6 نومبر 1947 کا جموں کا قتلِ عام انگریزوں کی انہی سازشوں کا شاخسانہ تھا ۔ انگریز تمام کام ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق کر رہے تھے اور تمام معاملات و واقعات میں حد درجہ جانبدار تھے ۔ اس لیئے انگریزوں کے تمام اخبارات اور انگریز مؤرخین اپنے منصوبے کے مطابق 1947 کے واقعات کے بیان میں انتہائی جانبداری کے ساتھ حد درجہ غلط بیانی اور زہر افشانی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔برطانوی روزنامے لنڈن ٹائمز نے 6 نومبر کے جموں کے سانحے کو اسی انگریز سازش کے تحت توڑمروڑ کر پیش کیا۔

اسی طرح سٹیٹس مین کے ایڈیٹر ایان اسٹیفن نے اپنی کتاب ھارنڈ مون میں بھی واقعات کا جانبدارانہ تجزیہ کیا ہے ۔ ہاریس الیگزینڈر نے 16 جنوری 1948 کے سپیکٹیٹر اخبار میں بھی واقعات کا جانبدارانہ تجزیہ کیا ہے ۔ ہاریس الیگزینڈر اور ایان اسٹیفن دونوں نے 1947 کے دوران جموں کے قتلِ عام میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد 200,000 بیان کی ہے ۔ لنڈن ٹائمز نے یہ تعداد 237,000 بتائی ہے ۔ جبکہ اکثر مسلمان اور پاکستان نواز مؤرخین سانحہ جموں کی اموات کا شمار 500,000 سے بھی زیادہ میں کرتے ہیں ۔ یہ ایک علمی بددیانتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تقسیمِ برِصغیر کے تناظر میں تمام فریقین اپنے اپنے مؤقف کو تقویت دینے کے لیئے زور لگاتے رہے ہیں اور اس ضمن میں واقعات اور حالات کے حقیقی پہلوؤں کو جان بوجھ کر مسخ کیا جاتا رہا ہے۔

جبکہ 6 نومبر کو جموں کے مہاجرین قافلے میں سے زندہ بحچ کر سیالکوٹ پہنچنے والے تعلیم یافتہ عینی شاہدین کے مطابق 6 نومبر کا قافلہ تیس بسوں پر مشتمل تھا ۔ اب قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس قافلے میں کل کتنے افراد شریک ہوئے ہوں گے؟ مسلمان اور پاکستان نواز مؤرخین جموں کے نومبر کے ان واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے یہ درس دیتے نظر آتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر میں ہندو اور مسلمان کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے اور یہ کہ برِصغیر کی تقسیم اور پاکستان کا قیام مسلمانوں کے بقاء اور ترقی و خوشحالی کے لیئے ضروری تھا ۔ اور اگر یہی فارمولا اب ریاست جموں و کشمیر میں بھی نافذ نہ کیا گیا تو ہندو ریاستی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے ۔ دراصل یہ ایک بے بنیاد اور من گھڑت پروپیگنڈا ہے اور اس کا واحد مقصد ریاست جموں و کشمیر کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم اور اس کے مسلم اکثریتی علاقوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے سوا اور کچھ نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ نومبر میں جموں میں ہونے والے مسلمانوں کے قتلِ عام کے واقعات کا بنیادی سبب ریاست جموں و کشمیر کی انتظامی مشینری کی نااہلی تھا، کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو 9 نومبر کے مسلمان مہاجرین کے قافلے کا بھی قتلِ عام ہوتا اور ایسے واقعات بعد میں بھی جاری رہتے۔

Migration 1947

Migration 1947

نومبر 1947 کا جموں کا سانحہ دراصل تقسیمِ برِصغیر کے تناظر میں مغربی پنجاب، پخوتونخواہ اور پھر خود جموں و کشمیر میں رونما ہونے والے ان ظالمانہ اور سفاکانہ واقعات کا ردِعمل تھا جو ان علاقوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں غیرمسلموں کے خلاف روا رکھے گئے تھے ۔اپریل 1947 سے ہی جموں میں ہندوؤں کے ان لُٹے پِٹے قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا جو مارچ 1947 میں راولپنڈی، اٹک، مری، بنوں اور ہزارہ کے ہندوکُش فسادات کے بعد بھاگ کر جموں پہنچے تھے ۔ پاکستان بنتے ہی پاکستان کے مغربی اضلاع سے 160,000 ہندو جموں کی طرف نقل مکانی کر گئے ۔ صرف سیالکوٹ کے شمال مشرقی علاقوں سے ایک لاکھ سے زائد ڈوگرہ ہندو جموں اور گورداسپور کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔ ستمبر 1947 کے وسط تک صرف جموں شہر میں 65,000 ہندو مہاجرین داخل ہوئے ۔ یہ مہاجرین اپنے ساتھ پیش آنے والی مسلمانوں کی زیادتیوں کے قصے سناتے تھے اور ان قصوں اور کہانیوں کو اخبارات اور سرکاری میڈیا نے انگریزوں کے منصوبے کے مطابق بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔ اس صورتحال نے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے میں نہایت کلیدی کردار ادا کیا۔

صورتحال میں بگاڑ کا ایک اور بڑا سبب سیالکوٹ اور مغربی پنجاب سے انڈین آرمی کی سکھ یونٹ کا بھاگ کر جموں جانا تھا ۔ یہ سکھ فوجی اپنے ساتھ اسلحہ بھی لے گئے تھے اور جموں پہنچتے ہی اپنے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیئے انہوں نے مسلمانوں کی جائیدادوں اور زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیئے ۔ جموں میں آباد مسلمانوں کی اکثریت پنجابی بولنے والوں پر مشتمل تھی جن کے مغربی پنجاب کے شہروں اور قصبوں کے ساتھ جغرافیائی، لسانی، معاشی، ثقافتی اور تاریخی رشتے تھے ۔ یہ مسلمان پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کو ترجیح دیتے تھے جسے جموں کے جنگجو ہندو ڈوگرہ راجپوت پسند نہیں کرتے تھے ۔ اور 1941 کی مردم شماری کے مطابق صرف صوبہ جموں کے مشرقی علاقوں میں 305,000 ہندو ڈوگرہ راجپوت اور برہمن اور 10,000 سکھ رہائش پزیر تھے۔ ان لوگوں کے کانوں تک جب مغربی پنجاب میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوؤں آور سکھوں پر ہونے والی مظالم کی تفصیلات پہنچیں تو ان کی جموں کی پنجابی بولنے والی مسلمان آبادی کے خلاف نفرت اور بڑھ گئی ۔اس پس منظر میں ہندوؤں اور سکھوں نے جموں کے مسلمانوں پر حملے کرنے شروع کر دئیے ۔ ان حملوں میں بہت سی اموات بھی ہوئیں ۔ ستمبر کے مہینے میں جموں کے محلہ رام نگر میں سینکڑوں مسلمان گوجروں کو قتل کیا گیاجبکہ جموں کنٹونمنٹ کے مسلم اکثریتی گاؤں رائے پور کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔

جموں سے مسلمانوں نے مغربی پنجاب کی طرف ہجرت شروع کر دی اور ستمبر کے اواخر تک جموں کی مسلمان آبادی تقریباً آدھی رہ گئی ۔ ان حالات میں 22 اکتوبر 1947 کو پاکستان کے قبائلی جتھوں نے مظفرآباد سے ریاست میں داخل ہو کر لوٹ مار اور قتلُوغارتگری شروع کر دی ۔ قبائلی تمام شہریوں کو بلا امتیاز لوٹتے تھے مگر انہوں نے عمومی طور پر ریاست کی ہندو آبادی کو نشانہ بنا کر ان کا قتلِ عام شروع کر دیا جبکہ نوجوان عورتوں کو اغواء کرلیا گیا ۔ ان واقعات نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور جموں کے ہندوؤں اور سکھوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اپنی انتہا کو پہنچ گئی ۔ جب جموں سیالکوٹ ریلوے سروس معطل ہو گئی تو جموں کے مختلف علاقوں سے مسلمان پولیس لائنز جموں کے کیمپ میں جمع ہونا شروع ہو گئے ان لوگوں نے پاکستان حکومت سے مطالبہ کیا کہ انہیں پاکستان ہجرت کرنے کے لیئے ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔

Sialkot

Sialkot

نومبر کے پہلے ہفتے میں حکومت پاکستان نے جموں سے مہاجرین کو سیالکوٹ لانے کے لیئے بہت سی گاڑیاں ارسال کیں ۔ یہ گاڑیاں جب جموں سے مسلمان مہاجرین کو لے کر سیالکوٹ کے لیئے روانہ ہوئیں تو انہیں جموں سیالکوٹ روڈ پر ہندو اور سکھ مسلح بلوائیوں نے روک لیا اور قافلے کے زیادہ تر مردوں کو قتل کر دیا اور انکی عورتوں کو اغواء کر لیا گیا ۔ جو لوگ جان بچانے میں کامیاب ہوئے وہ لُٹے پِٹے سیالکوٹ پہنچ گئے ۔ ان لوگوں نے بتایا کہ جموں سے تیس لاریوں کا قافلہ مہاجرین کو لے کر سیالکوٹ کے لیئے روانہ ہوا تھا، اس قافلے کو ڈیگانہ اور سامبہ کے درمیان جموں سیالکوٹ روڈ پر ستواری کے مقام پر روک کر قتل کیا گیا۔

اسی قتلِ عام کی یاد میں ہر سال 6 نومبر کو یومِ شہدائے جموں منایا جاتا ہے ۔ممکن ہے اس قافلے سے پہلے بھی کسی قافلے پر حملہ کیا گیا ہو مگ ایسا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں کیا گیا اور غالب امکان یہ ہے کہ 6 نومبر کا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ تھا کیونکہ جموں سے مہاجرین کو لے جانے کے لیئے بسیں پاکستان سے بھیجی گئی تھیں اور ان تمام بسوں کا ایک ساتھ سفر کرنا ہی قرینِ قیاس ہے ۔ اور 6 نومبر کے بعد تو قافلوں کو فوجی دستوں کے حفاظت کے بغیر ویسے بھی نہیں بھیجا گیا تھا ۔درحقیقت 6 نومبر 1947 کا جموں کے مسلمانوں کا یہ قتلِ عام اپریل سے ہندوؤں کے خلاف جاری تشدد اور قتل و غارتگری کے واقعات کا ردِ عمل اور شیخ عبداللّہ کی حکومت کی نااہلی کے باعث رونما ہوا ۔ اس واقعے کو بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے روکا جا سکتا تھا مگر لگتا یہ ہے کہ اقتدار میں موجود لوگوں کی ترجیحات کچھ اور تھیں اور وہ ہندو مسلم فسادات کو ہوا دینے کی پالیسی پر گامزن تھے ۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ نومبر میں جموں اور اس کے گرد و نواح میں مسلمانوں کا وہی حشر ہوا جو 22 اکتوبر سے مظفرآباد سے بارامولا تک قبائلی حملہ آور ہندو اور سکھوں کا کرتے آ رہے تھے اور جیسا پنجاب اور پختونخواہ میں اپریل سے ہو رہا تھا ۔ان تمام واقعات میں انتہا پسند مذہبی گروہ شریک تھے مگر یہ واقعات ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق حکامِ بالا کی سرپرستی میں ترتیب دئیے گئے تھے اور ان کا مقصد برِصغیر کی مسلم اور غیرمسلم آبادی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے تقسیم کرنا تھا۔

Samina Raja

Samina Raja

تحریر ۔ ثمینہ راجہ۔ جموں و کشمیر۔