قائد کا فرمان: کشمیر پاکستان کی شہ رگ

Quaid e Azam

Quaid e Azam

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ
کتاب” قائد کا پییغام”مرتب سیّد قاسم محمود صاحب۔ پاکستان اکیڈمی ۔٤شارع فاطمہ جناح لاہور تاریخ اشاعت ١٩٦٧ء کے صفحہ نمبر٢١١ پر قائد اعظم محمد علی جناح کا بیان لکھا ہے، جو انہوں نے اپنی موت سے چند روز قبل دیا تھا۔ قائد فرماتے ہیں” کشمیر سیاسی اور قومی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔کوئی خود دار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کر دے” قائد کی کیا خوب بصیرت تھی کہ انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی پیغام دیا کہ پاکستان کے حوالے سے بھارت تلوار کی سوچ رکھتا ہے کہ اگر اس کے بس میں ہو تو پاکستان کو کاٹ ڈالے۔کیا بھارت نے ١٩٧١ء میں پاکستان کو کاٹ نہیں ڈالا؟ کیا بھارت اب بھی پاکستان کو کاٹ ڈالنے کی دھمکیاں نہیں دے رہا؟ ہمیں بھارت کے وزیر داخلہ کا یہ بیان یاد رکھنا چاہیے کہ پہلے پاکستان کے دوٹکڑے کیے تھے اب اس کے دس ٹکڑے کریں گے۔

کیا بھارت کے دہشت گرد وزیر اعظم نے بھی بنگلہ دیش میں اعلانیہ نہیں کہا تھا کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت کی فوجیں شامل تھیں؟کیا بھارت کے سابقہ وزیر اعظم اندراگاندھی نے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بیان نہیں دیا تھا کہ میں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزار دور حکمرانی کا بدلہ بھی لے لیا ہے۔ پاکستان کے بزدل حکمرانوں، عوام کا تم سے مطالبہ ہے کہ مشرقی پاکستان کا بدلہ کب لو گے؟ کیا ایٹم بم چاٹنے کے لیے بنایا ہے۔صاحبو! کیا یہ سارے بیان نام نہاد مسلمان سیکولر حضرات کے منہ پر تماچہ نہیں ہے کہ جو دن رات قائد ِ محترم کو سیکولر ثابت کرنے کے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔یہ سیکولر حضرات بھی عجیب مخلوق ہے ۔ در اصل ان کو اسلام سے بیر ہے۔ اسلام کو ڈاریکٹ کچھ کہہ نہیں سکتے کہ اس طرح ان کو اپنی خیر منانی پڑھے گی۔ مگر اس آڑ میں کبھی مولویوں کو، کبھی اسلام کی بات کرنے والوں، اور کبھی قائد پر صرف اورصرف اس لیے سیکولرزم کا بہتان لگاتے ہیں کہ قائد بھی اسلام کا نام لیتے تھے۔۔۔۔ قائد نے پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔

پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا نعرہ پورے برصغیر کے مسلمانوں کا نعرہ تھا۔ آل انڈیا مسلم لیگ یہ بھی کہتی تھی کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ۔ بن کے رہے گا پاکستان۔ لے کے رہیں گے پاکستان۔ان ہی اسلامی نعروں پر لبیک کہتے ہوئے ہند کے ان صوبوں نے بھی پاکستان کی تحریک میں شرکت کی تھی جن کے صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا۔ جن کو معلوم تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ہندو بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کو تنگ کریں گے۔ اس پر قائد اعظم نے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا جو اسی کتاب ،قائد کا پیغام کے صفحہ نمبر٢٠٢ درج ہے۔ قائد فرماتے ہیں”اگروہ(ہندو) ہماری اقلیتوںکے ساتھ بدسلوکی شروع کر دیتے ہیںاور ان ستاتے ہیں تو پاکستان ایک خامو ش تماشائی نہ بنے گا۔اگر گلیڈ سٹون کے زمانے میں برطانیہ اقلیتوں کے تحفط کے نام پر امریکا میں مداخلت کر سکتا ہے تواگر ہندوستان میں ہماری اقلیتوںپر مظالم کئے گئے تو ہمارامداخلت کرنا کیونکر حق بجانب نہ ہو گا” قائد تو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ کیا ہمارے حکمران بھارت میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف احتجاج کرینے کی ہمت رکھتے ہیں؟ اس کتاب میں قائد کی ١٩١٦ء لے کر ١٩٤٨ء کے تقریریں اور بیانات اکٹھے کئے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک موقعہ پر بھی قائد نے سیکولر کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

لوگوں نے پوچھا کہ پاکستان کا آئین کیسا ہو گا۔ تو قائڈ نے فرمایا پاکستان کاآئین آج سے چودہ سو سال پہلے پیغمبرۖ اسلام نے دیا تھا ویسا ہی قرآن و سنت کے مطابق ہو گا۔ جمہوریت کے متعلق سوال کیا گیا تو قائد نے فرمایا”جب آپ جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے۔ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی”پریس کانفرنس ١٤ جولائی ١٩٤٧ئ۔ہم کشمیر پاکستان کی شہ رگ کے حوالے سے قائڈ کے بیان پر بات کر رہے تھے۔ سب سے پہلے مکار انگریز ریڈ کلف نے قادیانی سرظفراللہ کے ساتھ ملی بھگت کر کے بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کے لیے درہ دانیال کا راستہ دیا۔جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی فوجیں داخل کی تھیں تو قائد اعظم نے پاکستانی فوج کے انگریز کمائڈر انچیف جنرل گریسی کو پاکستانی فوج کشمیر بھیجنے کا حکم دیا۔

گریسی نے اس حکم پر عمل نہیں کیا۔ وہ کیسے عمل کرتا ۔بلکہ اس کے بڑے ،برطانیہ نے خود سازش کر کے بھارت کو کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ دیا تھا۔ پھر پاکستانی فوج، پونچھ کے ریٹائرڈ فوجیوں اور پاکستان کے غیور قبائلیوں نے آزاد کشمیر کا موجودہ تیس میل چوڑا اور تیس سو میل لمبا علاقہ ہندوئوں سے واپس لیا۔ گلگت بلتستان کے مجائدین نے راجہ کی فوجوں کو اپنے علاقے سے بگھا دیا۔مجائدین سری نگر تک پہنچنے والے تھے کہ مکار ہندو خود اقوام متحدہ گیا اور جنگ بندی کی درخواست کی۔ اقوام متحدہ نے کشمیریوں سے رائے لینے کے وعدہ پر جنگ بندی منظور کی تھی۔چانکیہ کوٹلیہ کا پیرو کار، مکار بنیا اپنے وعدہ سے مکر گیا۔ آج تک کشمیریوں کی رائے کیا معلوم کرتا، ان پر ظلم ستم کے پہار توڑ کر انہیں غلام بنایا ہوا ہے۔اے کاش !کے پاکستان جہاد کا اعلان کرتا ۔بزدل ،بت پرست ہندو، جیسے قائد کے سامنے سرنگوں ہو گئے تھے۔

پاکستان کی جہادی فوج کے سامنے ٹک نہیں سکتا تھا۔مگرپاکستانی حکومتوں نے کمزوری دکھائی۔ کشمیری مظاہرے کر کر کے پاکستان کے ساتھ ملنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ پاکستان کی یوم آزادی پاکستان کے ساتھ مناتے ہیں۔ بھارت کے یوم آزادی پر نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ہڑتال کرتے ہیں۔ہندو فوجیوں نے کشمیریوں کی جائدادیں جن میں رہاشی مکانات، باغات اور دکانیں شامل ہیں گن پائوڈر چھڑک کر خاکستر کر دیں۔٧٠ سال کے ظلم وستم میں لاکھوں کشمیریوں کو شہید کر دیا۔ ہزاروں کو جیلوں میں بند کیا ہوا ہے۔ ہزاروں کو لا پتہ کر دیا۔ ہزاروں عزت ما آب کشمیری خواتین کے ساتھ ہندو قابض فوجیوں نے اجتماعی آبرو زیزی کی۔ ہزاروں نوجوانوں کو قید میں ظلم و ستم کر آپائچ کر دیا۔

درجنوں اجتماجی قبریں دریافت ہوئیں۔کشمیر میں شہیدوںکے کئی قبرستان وجود میں آ گئے۔نہتے کشمیری مظاہرین پر پیلٹ گنیں چلا کر ان کو اندھا کر دیا۔کشمیری خواتین کو گرفتار کے ان کی چوٹیاں کاٹ ڈالیں۔ اے اقوام متحدہ میں بیٹھے دنیا کے منصبوں، تمھارے سامنے کشمیر ی مسلمانوںکا کیا کیا رونا رویا جائے۔تم نے انڈونیشیا اور سوڈان میں چند سال کے احتجاج پر عیسایوں کو علیحدہ وطن دے دیے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسلمان ٧٠ سال سے احتجاج کر رہے ہیں مگر مسلمان ہونے کی سزا پر ان کو اپنے وطنوں سے بے دخل کر دیا گیا۔یادرکھو اب وہ وقت آنے والا کہ مسلم امت ایک نہ ایک دن مظالم سے تنگ آکر تمہارے مقابلے میں اپنی مسلم اقوام متحدہ بنائے گی جس کی مشترکہ مسلم بھی فوج ہو گی۔ جہاں جہاںبھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ان کو ظالموں سے چھڑائے گی۔ کشمیر اور فلطین آزاد ہو گے۔ اے اللہ اپنی جناب سے مسلمانوں کو اتحاد کی لڑی میں پررو دے۔ انشاء اللہ۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان، کالمسٹ