کشمیریوں کی آزادی

Pakistani Parliament

Pakistani Parliament

تحریر: ثمینہ راجہ جموں و کشمیر
پاکستانی پارلیمنٹ کے اجلاس میں ۸ دسمبر ۲۰۱۵ بروز منگل پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ جناب محمود خان اچکزئی نے اعلیٰ ترین انسانی سماجی روئیے اور ارفع سیاسی فکر کی بے مثال نظیر پیش کی اور تمام اسمبلی ممبران کو مخاطب کرتے ھوئے کہا کہ “پاکستان اور بھارت کشمیر کو اپنی شہ رگ اور آئوٹ آنگ کہنا چھوڑ دیں، کشمیر کا تنازعہ دونوں طرف کے کشمیریوں کو خود مل بیٹھ کر حل کرنے کا موقع دیں اور دونوں ممالک خودمختار کشمیر کے آپشن کو بھی مسئلے کے ایک ممکنہ حل کے طور پر تسلیم کریں۔”

یہ بات انتہائی خوش آئند اور قابلِ صد ستائیس ھے کہ ایک پاکستانی سیاستدان نے پاکستانی پارلیمنٹ کے اندر ریاست جموں و کشمیر کی خودمختاری کی بات کی ھے ۔ یہ بات تو ایسی بات ھے کہ اگر کوئی سیاسی رھنما اس سوچ کو لے کر نام نہاد آزادکشمیر کے کسی الیکشن میں جانے کا سوچے تو اس کو دروازے سے ھی واپس لوٹا دیا جاتا ھے و اس لئیے کہ پاکستان ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو صرف پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا حق ھی دیتا ھے –

India

India

کس قدر ستم ظریفی کی بات ھے کہ دو قومی نظرئیے اور ھندوستان میں پاکستان کے بعد بنگلہ دیش کی تخلیق کا خالق برادر اسلامی ملک ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا حق تو دیتا ھے مگر ان کی طرف سے اپنی مرضی کے مطابق اپنی دھرتی پر خودمختار ملک تشکیل دینے کی کسی سوچ و فکر کو ایک ناقابل معافی جرم خیال کرتا ھے –

میں ان نامساعد سیاسی حالات میں جناب محمود خان اچکزئی صاحب کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ھوں کہ انھوں نے ایک قابض ملک کے ایوان میں کھڑے ھو کر بیباک طریقے سے ایک نیم مردہ قوم کی ترجمانی کی -اس تاریخ ساز کارنامے کی ادائیگی پر میں مجبور، مقہور، مظلوم اور مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے بے بس اور لاچار شہریوں کی طرف سے انھیں مبارکباد پیش کرتی ھوں ۔ جدوجہد آزادی کشمیر میں محمود خان اچکزئی کا نام جلی حروف میں لکھا جائے گا

Jammu and Kashmir

Jammu and Kashmir

مگر افسوس صد افسوس کہ پاکستان اور بھارے کے اندر موجود ایسے حریت پسند اور زندہ ضمیر رھنماوں کے افکار اور انکے مقام و مرتبے سے فائدہ اٹھانے کے لیئے ریاست جموں و کشمیر کے قوم پرستوں کے پاس کوئی پلان نہیں ھے ۔ ایسے لگتا ھے کہ ریاست کے قوم پرست محض معجزات کی آس لگائے بیٹھے ھیں اور یہ سمجھتے ھیں کہ انکا اپنا کوئی عملی کام کہیں معجزے رونما ھونے کے عمل کو ملتوی ھی نہ کر دے۔

شاید اسی لیئے ریاست جموں و کشمیر کے قوم پرست سیاسی رھنما خود خوابِ خرگوش میں محو ھیں اور انکے نزدیک تحریک کی کامیابی کے لیئے صرف فوٹو سیشن، اخباری بیانات، کبھی کبھار کی چھوٹی موٹی جلسیاں اور فیس بُک فعالیت ھی اصل کام ھے ۔ قابض ممالک کے اندر اپنے ھمدرد سیاسی رھنماوں اور با اثر افراد کے ساتھ روابط بڑھا کر انکی تائید اور مدد حاصل کرنا لگتا ھے قوم پرستوں کے نزدیک شجرِممنوعہ ھے ۔

Freedom

Freedom

میں بعض اوقات بہت حیران ھوتی ھوں کہ ریاست کی قوم پرست تحریک اب تک زندہ کیسے ھے؟ جو اصل کام کرنے کے ھیں وہ تو کیئے نہیں جاتے اور محض ششکہ بازی کو ھی اصل تحریک سمجھ لیا گیا ھے لیکن اس کے باوجود قوم دل کی گہرائیوں کے ساتھ مادرِ وطن کی آزادی اور وحدت کی بحالی کے خواب آنکھوں میں سجائے قوم پرست رھنماوں کی ٹپہ بازیوں پر تالیاں بجاتی نظر آتی ھے۔

اس صورتحال کا واضع مطلب یہ ھے کہ قوم تو مادرِوطن کی آزادی چاھتی ھے اور انتہائی خلوص کے ساتھ ھر اُس آدمی پر دل و جان سے نچھاور ھونے کے لیئے تیار ھے جو اُن کے وطن کی آزادی اور وحدت کی بحالی کی مدھم سی آواز بھی اٹھاتا ھے ۔ مگر بد قسمتی سے قوم پرست تحریک حقیقی قومی سیاسی قیادت اور مربوط قومی حکمتِ عملی سے محروم ھے۔

ایسے میں شاید معجزات کے رونما ھونے کی اُمید کرنا ھی عقل و دانش کا تقاضا ھے ۔
کیا پتہ کسی رات بستر سے اُٹھا کر کوئی قوت مملکتِ جموں و کشمیر کی حکومت ھمارے قوم پرست رھنماوں کے سپرد کر دے ۔ دنیا میں معجزات بھی تو رونما ھوتے ھیں ۔ کیا ریاست جموں و کشمیر کے باشندے ایسے ھی معجزات کا انتظار نہیں کر رھے؟

Samina Raja

Samina Raja

تحریر: ثمینہ راجہ جموں و کشمیر