کشمیریوں سے رشتہ کیا ۔۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ

Kashmir Solidarity Day

Kashmir Solidarity Day

تحریر : تنویر احمد
اہل پاکستان ہر سال 5 فروری کو اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں سے بھرپور اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں جس سے پوری دنیا پر عیاں ہو جاتا ہے کہ اہل کشمیر غاصب بھارت کے خلاف جدوجہد آزادی میں اکیلے نہیں بلکہ اسلامیان پاکستان کا ہر پیرو جوان، مرد و زن اور بچہ بچہ ان کے ساتھ ہے، دراصل اہل پاکستان کا اپنے کشمیری بھائیوں سے یہ اظہار ِ یکجہتی محض اس لیے نہیں کہ پاکستان کے جغرافیائی مفادات کشمیر سے وابستہ ہیں، یہ مفادات اپنی جگہ لیکن اہل پاکستان کا اصل رشتہ کشمیری بھائیوں کے ساتھ اسلام کا رشتہ ہے اور یہی وہ واحد مشترکہ چیز ہے جو کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہماری یکجہتی کی اصل بنیاد ہے۔ خود پاکستان اسی بنیاد پر قائم ہوا اور یوں اس کے دنیا بھر کے اہل اسلام سے اخوت و یگانگت کے اٹوٹ رشتے بھی خود بخود قائم ہو گئے اور یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ بنا کہ جہاں بھی اہل اسلام کو اہل پاکستان کی مدد کی ضرورت ہوگی، اہل پاکستان لا الہ الا اللہ کے رشتے کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کے پابند ہوں گے۔ چنانچہ اس بنیاد پر پاکستان ، فلسطین سے لے کر کشمیر تک ہر جگہ اہل اسلام کی جدوجہد آزادی کے حق میں آواز بلند کرتا آیا ہے۔ مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے اسی رشتے کی بنیاد پر ہی کہا تھا :

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے

اور دوسری جگہ یہ حقیقت ان الفاظ میں بیان کی کی :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبنای کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
جبکہ اپنے مشہور ملی ترانہ میں یہی آفاقی حقیقت علامہ اقبال نے ان خوبصورت اور سادہ الفاظ میں بیان کی جس سے نظریہ پاکستنا بھی پوری طرح کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ فرمایا:
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

پاکستان کے اسی بنیادی نظریہ کی پاسداری کرتے ہوئے بانی پاکستان محمد علی جناح بھی کشمیر و فلسطین سمیت ہر جگہ مسلمانانِ عالم کی جدوجہد آزادی اور حقوق کے لیے دلیرانہ آواز بلند کرتے رہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ کشمیر کا پاکستان سے رشتہ نظریاتی ہی نہیں بلکہ جغرافیائی بھی ہے۔ کشمیر کے تمام دریائوں کا رخ پاکستان کی طرف اور تمام راستے بھی پاکستان کی طرف جاتے ہیں جبکہ بھارت کی طرف بڑی مشکل سے صرف ایک راستہ ہے اور وہ بھی سرنگ کے ذریعے جو مصنوعی طو رپر بنایا گیا راستہ ہے ۔ اس لیے پاکستان اور کشمیر نظریاتی اور جغرافیائی ہر لحاظ سے ایک دوسرے کا فطری اٹوٹ انگ ہیں۔ اس لیے بانی پاکستان محمد علی جناح نے بجا کہا تھا کہ ” کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ” اور یہ جغرافیائی اور نظریاتی ہر لحاظ سے پاکستان کی شہ رگ ہے ۔ ایک طرف جغرافیائی طور پر کشمیری پاکستان سے پیوستہ ہے تو دوسری طرف نظریاتی لحاظ سے بھی یکجان و پیوستہ ہے کیونکہ جموں کشمیر کے اکثر حصوں میں 90فیصد سے زائد مسلمان ہی رہتے ہیں اور ان کی غالب اکثریت بھی ہمیشہ پاکستان سے ہی الحاق کے لیے سر گرم رہی ہے اس لحاظ سے کشمیر اور پاکستان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور انہیں کسی طرح بھی الگ نہیں کیا جا سکتا۔

اب چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اپنے فطری اٹوٹ انگ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتا جب تک کہ پورا کشمیر آزاد نہ ہو جاتا لیکن افسوس کہ پاکستان نے ابتدائی دور میں آزاد کشمیر کی صورت میں کشمیر کا معمولی سا کچھ حصہ آزاد کرانے کے بعد آہستہ آہستہ مکمل خاموشی اور اب نوبت بایں جار سید کہ پسپائی کا انداز اختیار کرلیا ہے ۔ بظاہر 5فروری کے دن بڑے بڑے زور دار بیان دئیے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد جیسے ہماری توپیں مکمل خاموش بلکہ سرنڈر کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں یہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ کچھ عشروں سے پاکستان پر مسلسل ایسے حکمران مسلط ہو رہے ہیں جو ایک دوسرے سے بڑھ کر خود کو بھارت نواز ظاہر کرنے کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں خاص طور پر 9/11کے بعد تو کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی پالیسی اب گنجلک ہو چکی ہے کہ نئی نسل کو اب سمجھ ہی نہیں آتی کہ سرکاری طو رپر کشمیر کے حوالے سے پاکستان کیا چاہتا ہے اور اس کا کیا موقف ہے ۔ چنانچہ اس کا نتیجہ ہے کہ کشمیر پر پاکستان کا ومقف کمزور ہونے سے بھارت کا موقف مضبوط تر ہوتا جا راہ ہے ۔ نئی نسل میں کشمیر کے ساتھ جو پہلے جذباتی وابستگی تھی ، اب اس طرح کی کیفیت نظر نہیں آتی۔

اب ذرا دوسری طرف دیکھیں بھارت میں حزب اقتدار سے لے کر حزب اختلاف تک کسی سیاسی جماعت میں کشمیر کے مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں ۔ سب ہی ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق و متحد ہیں کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جبکہ پاکستان میں ہر سیاسی جماعت کشمیر کے بارے الگ موقف رکھتی ہے ۔ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کا موقف اب بھارت کی خوشامد یا تماشہ گیری اور لا تعلقی سے زیادہ کچھ نہیں رہا ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں پہلے انتخابات اسلام اور کشمیر کے ایش وپر لڑے جاتے تھے لیکن گذشتہ ایک دو انتخابات میں اب یہ ایشوز سیاستدانوں کی بھارت نواز اور امریکہ نواز پالیسیوں کی وجہ سے تقریباً نان ایشو بن چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستنا پر بھارت سے دوستی کی آڑ میں اییس ثقافتی یلغار کی گئی ہے کہ اب پاکستنا اپنے ملک کے خلاف بننے والی بھارتی فلموں کو بھی بغری کسی تکلیف کے بڑے مزے لے کر اور بڑے آرام سے دیکھتے ہیں۔

اول تو اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں بے پردگی اور فحاشی کا باعث بننے والی کسی فلم یا ڈرامے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے تھی لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگاڑ دیا گیا ۔ پہلے پاکستانی فلموں ، ڈراموں کے ذریعے مسلم معاشرے کے اسلامی ماحول کو بگاڑا گیا اور پھر بچی کھچی کسر بھارتی لفموں کو پاکستان میں نمائش کی اجازت دے کر پوری کر دی گئی ۔ اب حالت یہ ہے کہ نئی نسل یہ فلمیں دیکھ رک اپنے دین سے بھی بے گانہ ہو رہی ہے ۔ بڑے سوچے سمجھے طریقے سے بھارتی فلموں کے ذریعے انہیں مشرکانہ ہندو تہذیب کا خو گر بنایا جا رہ اہے ۔ ان فلموں میں بتوں خی نام نہاد کر امات دکھا کر بتوں کے خلاف مسلمانوں خی نفرت کو محبت و عقیدت میں بدلا جا راہ ہے اسی طرح بھارتی فلموں میں پاکستنا کو کشمیر میں در انداز اور دہشت گرد دکھا کر نئی نسل کی کشمیر کے ساتھ واستگی کو ختم کیا جا راہ ہے اور اب ہمارے نوجوانوں کو کچھ معلوم نہیں ہو رہا کہ کشمیر پر پاکستان کا موقف کیا ہے اور یہ ہمارے لیے کس قدر زندگی موت کا مسئلہ ہے۔

بھارت ایک طرف پاکستان کا پانی جروک کر اسے صحرا بنانے اور اپنے ڈیموں کے ذریعے پاکستنا کو ڈبونے کے منصوبے بنا رہ اہے ، دوسری طرف بھارتی آرمی چیف نے حال ہی میں پاکستنا پر مسلسل در اندازی کا الزام لگاتے ہوئے کہ پاکستانی اور بھارتی فوج کی فائرنگ کے تازہ واقعہ میں ہم نے پاکستانی فوجیوں کو شہید کیا اب چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان ،بھارت کے ان تمام مجرمانہ اقدامات کے بعد بھارت کو کھری کھری سناتا ۔ پاکستانی فوجیوں کی شہادت کا انتقام لیا جاتا اور ناجائز ڈیموں کی تعمیر روکنے اور کشمیر سے ظالم بھارتی فوج کے انخلاء تک بھارت سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر دئیے جاتے ۔چند سالوں پہلے بھارت نے پاکستان پر اپنے پانچ فوجیوں کے سر قلم کرنے کا الزام لگا کر تمام مذاکرات منقطع کر دئیے تھے ۔اور پاکستان کو جنگ تک کی دھمکیاں دیں لیکن افسوس کہ بھارتی آرمی چیف کی طرف پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے اعتراف کے باوجود بھارت کی اعلیٰ سطح پر معمولی مذمت بھی نہ کی گئی بلکہ پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے معاملے کو کلیتاً دبا دیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی فوجیوں کا خون اتنا سستا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بھارت کو اس سنگین کارروائی کا جواب دینے کی بجائے بھارت سے دوستی کا سفر پہلے سے زیادہ تیز کر دیا گیا ہے ۔ بظاہر بھارت کو پسندیدہ ترین (MFN) کا درجہ نہیں دیا گیا لیکن خفیہ اطلاع یہ ہے کہ قوم کی مخالفت سے بچنے کے لیے بھارت کو یہ اعلانیہ درجہ دینے کی بجائے عملاً یہ درجہ دیا جا رہا ہے چنانچہ اس خفیہ سفارتکاری کے تحت ہی آج کل بھارت کے ساتھ دوستی و تجارت کا سفر عروج پر پہنچایا جا رہا ہے۔

میں حکمرانوں کو آخر میںیہ انتباہ کہ وہ امریکی خوشنودی کے لیے بھارت نوازی میں اتنا آگے نہ جائیں کہ قوم کو ان کے احتساب کے لیے باہر نکلنا پڑ جائے سابقہ بھارت نواز حکمرانوں سے عبرت حاصل کریں ، اہل کشمیر کی اب تک 5لاکھ قربانیوں کا احترام کریں ۔ اور صرف وہ فیصلے کریں جو اسلام اور ملک کے لیے بہتر ہوں ، ورنہ وہ بھی پرویز مشرف جیسے بھارت و امریکہ نواز حکمرانوں کی طرح اپنے انجام بد سے بچ نہ سکیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Tanveer Ahmad

Tanveer Ahmad

تحریر : تنویر احمد
03317330200