قصور کے بچوں کا کیا قصور

Child Rape

Child Rape

تحریر : عمران یونس
پاکستان معاشرہ بچوں سے خصوصاً جنسی زیادتی کا اعتراف اپنی عزت اور غیرت کی وجہ سے بہت کم ہی کرتا ہے ، بلکہ جنسی استعمال کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ اول تو لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی ممکن ہی نہیں اور اگر ہو بھی جائے تو لڑکیوں کے مقابلے میں کم نقصان دہ ہے،ہمارے معاشرے میں جنسی زیادی کے واقعات میں تیزی سے اصافہ کی ایک وجہ کم نقصان خیال کرنا ہے ،تو دوسری وجہ بااثر ، سیاسی خاندان، وڈیروں ، سرداروں ، جاگیرداروں، یہ اُن کے منظور نظر لوگ زبردستی دہقان ، مزدور, لاچار، کے بیٹوں سے اپنی شیطانی ہوس بجا دیتے ہیں تو بے چارے اپنی مجبوری کی وجہ سے اپنی عزت اور غیرت کو خاموشی میں ہی خیال کرتے ہیں۔

ماهر نفسيات ڈاکٹر کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے حملہ آورں میں وہی شامل ہوتے ہے جن پر بچہ اور گھر والے اعتماد کرتے ہیے،جن میں والدین، عزیز رشتہ دار، اُستاز، پڑوسی ، دوکاندار، دوست ، محلہ دار، وغیرہ شامل ہے بلکہ بر خلاف اس میں اجنبوں کا کردار کم ہوتا ہے ۔ ايسا هي واقع قصور کے سیکڑوں بچوں سے بد فعلی کا ملکی تاریخ میں سب سے گھناونا اور لرزہ خیز بڑا سیکندل سامنے آیا ہے، جن میں سفاک اور حیوانی و شیطانی ہوس کے بچاریوں نے 280سے زياده بچوں سے زیادتی،والدین اور بچوں کو بلیک میل کر کے لاکھوں بٹورنا، اور بدفعلی کے ویڈیوز بنا کر مختلف مافیا کے ہاتھوں فروخت کرنا جیسا گنوانا کاروبار شامل ہے۔

زرائع کے مطابق گزشتہ چھ برسوں میں 274 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئ اور 400 ویڈیوز بنائی گئی، قصور کے پولیس اپنی فرض شناسی کو اس بات میں خیال کر رہیے ہیں کہ میڈیا پر آنے والی تعد اد غلط ہے اور خوشی سے تسلیم کر رہے ہیں کہ صرف سات شکایات رپورٹ ہوئی ہیں جبکہ صوبائی وزیر قانون اس سنگین واقعے کو زمین کا تنازع قرار دیں کر اپنے پارٹی سے منسلک بھائی کو چڑانے پے تلے ہو ئے ہیں، اور وزیر موصوف کا یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ یہ زمیں کا معاملہ ہے اور آٹھ دس سال سے چلا آرہا ہے اور مختلف فریقین ایک دوسرے پر جھوٹے مقدمات بناتے رہتے ہیں، جبکہ لیگی رہمنا طلال چودہری کہتے ہے کہ ٓقصور جیسے واقعے ہر صوبے میں ہوتے ہیں۔

Protest

Protest

لیکن پنچاب کے واقعے پر پوائنٹ سکورنگ کے لئے خوا مخو اُچھالا جا رہا ہے حا لانکہ جنسی جرم کے مرتکب افراد نے کو صحت جرم کا اعتراف کیا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بعض حکام نامعلوم وجوہات کی بنا پر واقعہ کی سنگینی کو کم کرنے کے لئے دیگر رنگ دیں رہے ہیں جو کہ ناروا اور سنگین ظلم ہے ، بیرونی پیسوں پر کام کرنے والی نا م نہاد سماجی تنطمیں ، اور موم بتی مافیا سیول سوسائیٹی صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا نہیں کیا حالانکہ سینکڑوں چھوٹے چھوٹے بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیااور تشدد کا شکار کیا گیا،ایسا معاملہ اگر کسی بیدارمعاشرے والے ملک میں پوتا تہ وہ طوفان آٹھتا کہ حکومت کو اپنا آ پ بچانا مشکل ہو جاتا۔

بلکہ استفعیٰ کو ہی ترجیح دیتے، اس سے بڑی دپشت گردی اور کیا ہو سکتی ہے کہ سینکڑوں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جانا، اور پھر خاموش کرنے کے لئے بلیک میل کرنا صاف دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے کب تک غربت، بدنامی کے ڈر،سماجی ، سیاسی ، پولیس کا دباو اس جیسے گھناونا واقعات میں ملوث افراد کو بچا رہا ہے ، ظلم تو آخر ظلم ہے جو وخشی اور شیطانی سوچ والوں نے قصور کے بچوں کے معصومیت سے کھیل کر جنسی تسکین پوری کی اس کا ازالہ تو کوئی نہیں کر سکتا۔

Law

Law

لیکن اب وقت آگیا ہے کہ عوام بھی معاشرے میں مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ان کے خلاف ہر فورم پر آواز اُٹھائیں اور منتخب لوگوں پر دباو ڈالے کہ وہ قومی اور صوبائی اسلمبی میں چا ئلڈ اور خواتین پروٹیکشن بارے سخت سے سخت قانون سازی کریں کہ آئندہ کوئی وخشی اور شیطانی سوچ اور اس پر پردہ پوشی ، اور پشت پناہی والے بھی نشان عبرت بنے۔

تحریر : عمران یونس